QR CodeQR Code

شہداء کی یاد میں تقاریب اسوقت منانی چاہیئں جب ورثاء کو انصاف ملے

16 Dec 2019 11:49

اسلام ٹائمز: سانحہ آرمی پبلک سکول کو پانچ سال گزرنے کے باوجود شہداء کے والدین اور ورثاء کے زخم مندمل نہیں ہوسکے، وہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملے گا، جب ہر سال 16 دسمبر کی صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے تو اے پی ایس کے شہداء کے والدین اور ورثاء کا پرانا زخم تازہ ہو جاتا ہے، بدقسمت والدین اور ورثاء تڑپ تڑپ کر انصاف مانگ رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انصاف ملنا انکی تقدیر میں نہیں۔


رپورٹ: ایس علی حیدر

آج سے پانچ سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور کا دل دہلانے والا دلخراش اور افسوسناک سانحہ رونما ہوا، جس میں سکول کی خاتون پرنسپل طاہرہ قاضی، اساتذہ اور اسٹاف کے ممبران سمیت سکول کے 156 طلباء لقمہ اجل بنے، جبکہ 114 زخمی ہوئے۔ آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے اسوقت حملہ کیا، جب طلباء و طالبات مین ہال میں جمع ہوئے تھے، انہیں فرسٹ ایڈ سے متعلق ٹرنینگ دی جا رہی تھی، داخل ہوتے ہی دہشت گردوں نے ہال میں موجود طلباء اور سکول کے اسٹاف ممبرز پر اندھا دھند فائرنگ شروع کی۔ اس دوران بم دھماکے بھی کئے گئے۔ دہشت گردوں کی فائرنگ کے دوران طلباء و طالبات اور اسٹاف کے ممبران کی چیخ و پکار آسمان چھو رہی تھی، کسی نے لیٹ کر جان بچائی اور کوئی گولیوں کے گھن گرج میں جام شہادت نوش کرتا رہا۔

آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والوں میں سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی، استانیاں بینش عمر، فرحت بی بی، حفصہ خوش، ہاجرہ شری، سعدیہ گل خٹک، سحر افشان، سیمہ زرین طارق، صوفیہ حجاب، اساتذہ شہباز نیم، محمد سعید، نواب علی، کلرک اکبر زمان، ڈرائیور احسان اللہ، لیب انچارج مدثر خان، چوکیدار محمد بلال، مالی محمد حسین، نائب قاصد سمیع، لیب انچارچ پرویز اختر، سپرنٹنڈنٹ سجاد علی، ہیڈ کلرک محمد شفیق، مالی طاہر شاہ، لانس نائیک محمد الطاف، نائیک ندیم الرحمٰن اور سپاہی نوید اقبال شامل ہیں۔ آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں کے حملے کے دوران سکول کے پھول جیسے ننھے بچے چیختے رہے اور حملہ آوروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ان سے زندگی کی بھیک مانگتے رہے، لیکن انسانیت کے دشمنوں نے معصوم طلباء کی ایک نہ سنی اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس کے نتیجے میں پورا ہال معصوم طلباء اور بچوں کے خون کے سیلاب کا منظر پیش کرنے لگا۔

حملے کی خبر سنتے ہی بچوں کے والدین سکول کی جانب دوڑ پڑے اور گولیوں کی پرواہ کئے بغیر بچوں کی جان بچانے کیلئے آگے بڑھتے رہے، لیکن سکیورٹی فورسز نے انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا۔ ورسک روڈ اور خیبر روڈ پر بچوں کے والدین دھاڑیں مار مار کر اپنے جگر گوشوں کیلئے تڑپ رہے تھے، کوئی ان کی آہ و بکا سننے کو تیار نہیں تھا۔ جب والدین نے بچوں کو خون میں لت پت دیکھا تو وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ معصوم پھول جیسے بچوں کے سینوں کو ظالموں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا، ان کے جسموں سے خون کا سمندر بہتا رہا۔ روشن مستقبل کا سہانا خواب لے کر آنے والے طلباء کو انسانیت دشمنوں نے شہید کیا۔ پانچ سال گزر جانے کے باوجود آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کے والدین اور دیگر سٹاف کے لواحقین کو انصاف نہیں مل سکا، والدین کی رٹ پٹیشن پر جوڈیشل کمیشن بنا، جس کے ذمے آرمی پبلک سکول پر حملے کی تحقیقات لگائی گئیں۔

پشاور ہائیکورٹ کے جج جسٹس ابراہیم خان کی سربراہی میں کمیشن نے اپنا کام مکمل کیا، جوڈیشل انکوائری کی، جس کے روبرو اسوقت کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمٰن، اسوقت کے انسپکٹر جنرل پولیس سمیت فوجی اور سول حکام، شہداء کے والدین اور ورثاء کے بیانات قلمبند ہوئے۔ جوڈیشل انکوائری ہونے کے باوجود شہداء کے ورثاء کو انصاف نہیں مل سکا۔ جنہوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، وہ اسٹیبلیشمنٹ کے سرکاری مہمان ہیں اور انہیں پروٹوکول حاصل ہے۔ آرمی پبلک سکول پر دہشت گروں کے حملے کے بعد ایک بڑی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائدین گاہے بگاہے سوالات اٹھاتے رہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور ایک حساس ترین فوجی چھاونی میں واقع ہے، سکول کے اردگرد سکیورٹی فورسز نے سکیورٹی سنبھال رکھی تھیں، مگر اس کے باوجود دہشت گرد سکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر کیسے داخل ہوئے؟ اس سوال کا جواب آج تک نہیں ملا۔

سانحہ کی ذمہ داری اس وقت تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی، جو آج کل سرکاری مہمان ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول رونما ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف کا 126 دن کا دھرنا ختم ہوا، دھرنے کے منتظمین کو دھرنا ختم کرنے کا جواز نہیں مل رہا تھا، وہ تنگ آچکے تھے، وہ دھرنا ختم کرنے کیلئے جواز اور بہانہ ڈھونڈ رہے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کا ڈی چوک اسلام آباد دھرنا جس کسی نے پلان کیا تھا، وہ بھی دھرنا ختم کرانے کیلئے جواز ڈھونڈ رہے تھے، وہ بھی دھرنے کے شرکاء کو باعزت واپسی کا راستہ دینا چاہتے تھے۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے پانچ سال گزرنے کے باوجود شہداء کے والدین اور ورثاء کے زخم مندمل نہیں ہوسکے، وہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نہیں انصاف نہیں ملے گا۔

جب ہر سال 16 دسمبر کی صبح کا سورج طلوع ہوتا ہے تو اے پی ایس کے شہداء کے والدین اور ورثاء کا پرانا زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ شہداء کی یاد میں تقاریب منعقد کی جاتی ہیں، لیکن صاحب اقدار اور اسٹیبلیشمنٹ شہداء کے ورثاء کے زخموں کی مرہم پٹی نہیں کرتی، شہداء کی یاد میں تقاریب اسوقت منانی چاہیئں جب ورثاء کو انصاف ملے۔ بدقسمت والدین اور ورثاء تڑپ تڑپ کر انصاف مانگ رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے انصاف ملنا ان کی تقدیر میں نہیں۔ اے پی ایس شہداء کے والدین اور ورثاء ہمدردی کے حقدار ہیں، جنہوں نے ان کے لخت جگر کو ان سے جدا کیا ہے، وہ کڑی سزا کے مستحق ہیں، مگر انصاف ملنے کی امیدیں دم توڑنے لگی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 832255

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/832255/شہداء-کی-یاد-میں-تقاریب-اسوقت-منانی-چاہیئں-جب-ورثاء-کو-انصاف-ملے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org