0
Thursday 12 Dec 2019 14:25

ہسپتال پر اہل قانون کا حملہ؟؟؟

ہسپتال پر اہل قانون کا حملہ؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک ویڈیو میں دکھایا جا رہا ہے کہ نوجوان درد بھری آواز میں کہہ رہا ہے کہ میری ماں  دل کی مریض تھی، ہم اسے یہاں لے کر آئے تھے کہ اس کا علاج ہو، جب اس نے   وکیلوں اور ڈاکٹروں کی لڑائی دیکھی تو اسے اٹیک ہوا اور وہ موقع پر جان بحق  ہوگئی۔ دوسری ویڈیو میں ایک خاندان روتے ہوئے بتا رہا ہے کہ ہماری بہن جو پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں تھی، اسے جان بچانے کے لیے آکسیجن لگائی گئی تھی،  جب وکیلوں نے حملہ کیا تو آکسیجن کو اتار دیا، جس کے بعد ہماری بہن نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ اس طرح کی کئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انسانیت سوز انداز اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا اور اس سے کئی لوگ موقع پر مر گئے اور کئی دل کے مریض ذہنی اذیت کا شکار ہوئے۔ جس میں ایک مریض انتہائی کسمپرسی کی حالت میں  ہے، جسے چاروں طرف سے نالیاں لگی ہوئی ہیں اور اس کے اردگرد توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ وہ بڑی حسرت سے ٹوٹتے شیشوں کو دیکھ رہا ہے، ساتھ ہی اس کے لواحقین حسرت کی تصویر بنے کھڑے ہیں کہ ذرا سا بھی بولیں گے تو ان کی جان نکال لی جائے گی۔ یقین جانئے یہ لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے قانون کی حرمت کو پامال کیا ہے اور عامۃ الناس کو خوف میں مبتلا کیا ہے۔

کل سب وکلاء نے بالاتفاق ہسپتال پر حملہ کیا، ان کے درمیان سیاسی اختلاف بے معنی تھا کہ کونسا وکیل کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے؟ حیرت اس بات پر ہوئی کہ پنجاب پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ املاک کا تحفظ کرتی اور ہسپتال میں موجود مریضوں کے لیے پناہگاہ ثابت ہوتی، مگر ان کے لیے پناہ گاہ ثابت نہیں ہوئی، اس کے ساتھ ساتھ انہیں ان کے رحم کرم پر چھوڑا گیا، جس سے ریاستی اداروں کی  صلاحیت پر سوال اٹھتا ہے۔ یہی رینجر جو اتنا بڑا حادثہ ہونے کے بعد طلب کی گئی، اسے پہلے بھی طلب کیا جا سکتا تھا۔ وکلاء کے جلوس کو ہسپتال پہنچنے سے پہلے بھی روکا جا سکتا تھا۔ نہ رکنے کی صورت میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کرکے انہیں دور رکھا جا سکتا تھا، مگر سب کچھ نہیں کیا گیا اور اتنا بڑا سانحہ ہونے دیا گیا۔ اب کہا گیا ہے کہ اس پر تحقیقی کمیشن بنے گا اور ان وکلا کے خلاف سخت کارروائی ہوگی، اس کا کیا فائدہ؟ کیا اس سے جو مریض جان بحق ہوئے، وہ واپس آجائیں گے؟ لوگوں نے جو اتنی اذیت برداشت کی، اس کا مداوا ہو جائے گا؟ کیا اس سے ریاست کی جو جگ ہنسائی ہوئی، وہ عزت واپس مل جائے گی۔؟

ایک وکیل رہنما کہہ رہے تھے کہ ہماری طرف سے سارا معاملہ ختم ہوگیا تھا، اس ڈاکٹر کی ویڈیو نے کام خراب کیا اور ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے۔ بہت خوبصورت بات ارشاد فرمائی وکیل صاحب نے کہ ہم قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، وہ تو کل پورے پاکستان نے دیکھا کہ کیسے اہل قانون نے ہسپتال پر حملہ کرکے قانون کو ہاتھ میں لیا، ساتھ ہی آپ نے پبلک پراپرٹی کو جیسے آگ لگائی، ایسے لگ رہا تھا کہ یہ پاکستان نہیں ہے بلکہ دشمن کی سرزمین ہے اور وہاں موجود عمارت میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ بظاہر پڑھا لکھا طبقہ جس کا کام ہی قانون کی حکمرانی کے لیے کام کرنا ہے اور جن کی رزق روٹی ہی اس قانون سے جڑی ہوئی ہے، اس نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا؟ ایک وجہ تو وہی لڑائی بتائی جا رہی ہے، جس پر آگ کا کام ڈاکٹرز کی اس ویڈیو نے کیا، جس میں وہ تیس مار خان بنے ہوئے ہیں اور وکلاء کو لتاڑ رہے ہیں، مگر اس کی کچھ معاشرتی وجوہات ہیں، جس میں سب سے اہم پچھلے تقریباً بیس سال کے آزاد میڈیا کا کردار ہے۔

پانچ سال پہلے کی بات ہوگی، ایک ورکشاپ میں اسلامک یونیورسٹی شعبہ نفسیات کے سربراہ استاد محترم ڈاکٹر طاہر خیلیلی صاحب سے میں نے سوال کیا کہ پاکستان کا میڈیا جس انداز میں خبریں دکھا رہا ہے اور جس انداز میں رپورٹنگ کر رہا ہے، اس سے معاشرے میں عدم اطمنان پیدا ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ معاشرتی  نظام کے درہم برہم ہونے کی صورت میں نکلے گا اور لوگ اس کے ذریعے ذہنی مریض ہو جائیں گے، آپ نے اس پر کوئی تحقیق کرائیں۔؟ اس پر انہوں نے کہا ہم اس پر کئی تحقیقات کرا چکے ہیں اور یہ ایک ڈیزاسٹر ہے۔ میں نے عرض کیا سر تو اس تحقیق کو منظر عام پر لائیں اداروں کو بھجوائیں؟ انہوں  نے کہا یہاں کون ان سفارشات کو پڑھتا ہے اور کون ان پر عمل درآمد کرتا ہے؟ میں مایوس ہوا اور سوچا شائد ایسا نہ ہوتا ہے بلکہ کہیں نا کہیں اس تحقیق سے استفادہ کی کوئی سبیل ہوتی ہو۔ میری یہ غلط فہمی اس وقت دور ہوئی، جب کچھ سال پہلے ایک نامور یونیورسٹی کے  شعبہ تحقیق کے لکھے گئے سینکڑوں تھیسز کی تصاویر منظر عام پر آئیں کہ طالب علموں کی دن رات کی محنت کس طرح کچرا کنڈی کے حوالے کر دی گئی۔؟

اسی کے پیش نظر مدت ہوئی خبریں سننا چھوڑ دی ہیں اور اتنے بے ذوق واقع ہوئے ہیں کہ ایل سی ڈی کو ڈبے میں پیک رکھ چھوڑا ہے۔ سوشل میڈیا ایک دور میں بروقت انفارمیشن کا ذریعہ بن گیا تھا، اس لیے اس پر اپنی بات کہہ لیتے تھے، اب وہاں کی صورتحال بھی ہمارے نیوز چینلز پر ہر شام آٹھ سے دس کے درمیان لگنے والے اکھاڑے کی سی ہوگئی ہے۔ وہاں بھی سیاسی، مذہبی، سیکولر غرض ہر گروہ کی جماعتیں ہی بن گئی ہیں اور ان کا رویہ فرقہ ورانہ ہے، یعنی مدمقابل کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کرنا اور ہر صورت میں اسے ناکام بنانا ہے۔ اگر آپ نے ہمارے معاشرے کی تھوڑا بہت ڈگری رکھنے والوں کی فکری صورتحال دیکھنا چاہیں تو صرف ٹویٹر پر چلنے والے ٹرینڈز کا ہی ملاحظہ کر لیں۔ ان کے عناوین میں کنجر، کتا، کتی، سور، چور، حرام خور، ٹلی، لوہار اور اس طرح کے وہ نازیبا الفاظ ہوں گے، جنہیں ہم عام نارمل حالت میں چند لوگوں کے سامنے زبان پر لانا بھی گوارا نہیں کرتے، مگر جانے ہماری کہاں ایسی تربیت ہوئی کہ ہم ملک کا مجموعی چہرہ ایسا مکروہ اور بیہودہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اس واقعہ نے بتا دیا کہ ہم کس قدر سوشل میڈیا کے اسیر ہیں کہ وہ جس طرف ہمیں لے جانا چاہے لے جا سکتا ہے اور دوسرا فکری طور پر کتنے کھوکھلے ہیں کہ اپنی انا کی تسکین کے لئے ہسپتال پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور مریضوں کی آکسیجن تک اتار دیتے ہیں۔ ہم بتا رہے ہیں کہ تہذیب، انسانیت اور پرامن بقائے باہمی سے کوسوں دور ہیں۔
خبر کا کوڈ : 832318
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش