QR CodeQR Code

پی آئی سی واقعہ، ذمہ داروں کا تعین اور سزا لازم ہے

15 Dec 2019 03:26

اسلام ٹائمز: میری دانست میں عدالت عظمیٰ اور پارلیمان ایسے واقعات سے بچنے کیلئے اس حوالے سے گائیڈ لائن دیں۔ سینئیر ترین وکلا کو اپنے شعبے کی آبرو بچانے کیلئے اپنے شاگردوں کو اخلاقیات اور قانون دان کی ذمہ دارویوں پر لیکچرز دینے چاہئیں۔ اس حقیقت کو مگر کیسے فراموش کیا جائے کہ ہم آئے روز یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ وکلا نے کبھی کسی جج کو کرسی دے ماری، تو کبھی کسی خاتون جج کے چیمبر کو تالا لگا دیا؟ یہ قانون کی بالادستی کے امین ہیں یا اپنی اپنی انائوں کے اسیر؟


تحریر: طاہر یاسین طاہر

ہر سماج کے کچھ رحجانات ہوتے ہیں اور انہی رحجانات کے تحت اس سماج یا معاشرے کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بارہا لکھا کہ ہم جس سماج کے باشندے ہیں، بدقسمتی سے یہ معاشرہ ہیجان انگیزی کا دلدادہ ہے، اس سماج کے نام نہاد پڑھے لکھوں کو اپنے "جتھوں" پر حد سے زیادہ اعتماد ہے، بلکہ اب تو معاشرہ مختلف نوع کے جتھوں کے رحم و کرم ہے۔ انہیں لٹھ بردار انتہاء پسند کہیں، یا مافیاز، سیاستدانوں کے پے رول غنڈہ گرد کہیں یا نیم پاگل سماج کے قد آور پاگل، ایک عرصہ سےہم یہی تماشا دیکھ رہے ہیں۔ یہ فکری مغالطہ بری طرح فروغ پایا کہ ہر وکیل علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا پیروکار ہے، کیونکہ وکلا اپنے ہر متشدد جلسہ جلوس کو یہ کہہ کر تحفظ دیتے آرہے ہیں کہ پاکستان کا خواب بھی ایک وکیل نے دیکھا تھا اور اس کی تکمیل بھی ایک وکیل نے کی تھی۔ لیکن کیا خواب دیکھنے اور پاکستان کی تکمیل کرنے والے دونوں وکلا کا فکری رویہ ایسا ہی تھا ؟ کیا دونوں نے کبھی بھی کسی متشدد جلسہ، جلوس کی حمایت کی؟ یا اپنے حقوق کے لیے آئینی راستے کے بجائے تشدد اور طاقت کا راستہ اپنایا۔؟

وکالت ایک قابل احترام پیشہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے صحافت، جیسے مسیحائی، لیکن تینوں شعبہ ہائے جات اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کی وجہ سے بدنام ہوچکے ہیں۔ اول الذکر دونوں تو عشروں سے بدنام ہیں، حتیٰ کہ کوئی بینک کسی وکیل یا صحافی کو "لون" نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شعبے کی قد آور اور قابل تعظیم شخصیات نے اپنے شعبے میں گراں قدر خدمات تو انجام دیں، مگر اپنے پیچھے لائق، پیشہ وارانہ دیانت سے لگائو رکھنے والے اور سماجی اخلاقیات کی تعظیم کرنے والے شاگرد نہ چھوڑے۔ ڈاکٹرز اگرچہ اول الذکر سے قدرے کم بدنام سہی، لیکن اب ان کی نئی "کھیپ" نے بھی پر پرزے نکال لیے ہیں۔ آئے روز ہڑتالیں، او پی ڈی کی بندش، پیشہ وارانہ بددیانتی کی مثال ہے۔ بالکل اسی طرح وکلا بھی کرتے ہیں، آئے روز کسی نہ کسی معاملے کو لے کر، عدالتی بائیکاٹ اور ہڑتالیں کرکے سائلین کے ساتھ ایک طرح کا سماجی ظلم روا رکھتے ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز کے یقیناً کچھ مسائل ہیں، جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مگر جو راستہ مسیحائوں نے اختیار کر لیا ہے، اس سے سماجی حیات پر انتہائی منفی اثرات پڑیں گے۔ 11 دسمبر کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں جو ہوا، وہ کسی بھی طور سماج کے درد مند افراد کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ واقعہ کے محرکات و جزئیات. ہر چیز سے ایک تلخ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ ہم انتہا پسند اور غیر مہذب سماج کے افراد ہیں۔ وکلا جنھیں دلیل سے بات کرنا چاہیئے، وہ جتھے کی شکل میں بدمعاشی کرتے ہیں اور ڈاکٹرز جنھیں مسیحائی کرنی چاہیئے، وہ زخم گری کے نئے نئے ہنر آزما رہے ہیں۔ جو قانون کی پاسداری نہ کرسکے، اسے قانون دان کہلانے کا حق نہیںاور جو مریضوں کو تڑپتا چھوڑ دے، یا فارماسسٹ کمپنیوں کا کمیشن ایجنٹ بن جائے، اسے ڈاکٹری کے بجائے دلالی کرنی چاہیئے۔ میں نے ڈاکٹر عدنان کی وائرل ویڈیو دیکھی اور سنی، میرے خیال میں انہیں بحثیت ایک داکٹر کے ایسی تقریر بالکل نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ ان کی تقریر نے معاملے کو بگاڑ دیا۔

اسی طرح وکلا جو کسی ایک وکیل کی والدہ صاحبہ کو چند دن پہلے چیک اپ کے لیے لے گئے تھے، انہیں بھی اپنی " انا" اور "وکیلانہ جاہ و جلال" دکھانے کے بجائے مریضہ کو دکھانا چاہیئے تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قطار میں کھڑے ہونے سے کسی شہری کی شان میں فرق آجائے؟ اوبامہ دو بار امریکی صدر منتخب ہوئے، اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں ایک یوٹیلیٹی سٹور میں اپنی بیگم کے ساتھ عام افراد کی طرح خریداری کرتے اور قطار میں لگ کر بل ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ صدر پنجاب بار عاصم چیمہ نے ایک غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ"پہلے جو معاملہ ہوا تھا، اس میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے وکلا کو کمرے میں بند کرکے مارا۔ اس کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی، لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر عدنان نے اچھا قدم اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم معافی مانگتے ہیں وکلا سے، لیکن اس کے بعد انہوں نے ویڈیو بنا کر وائرل کر دی اور اس ویڈیو کی وجہ سے وکلا کی ہتک ہوئی، جو ہمارے نوجوان وکلا کو بالکل اچھا نہیں لگا۔

گیارہ دسمبر کی صبح ہم نے ہاؤس کا اجلاس کیا اور اجلاس ختم ہوگیا، لیکن نوجوان وکلا کا غصہ بہت زیادہ تھا، اس لیے انھوں نے کہا کہ ہم نے پی آئی سی جانا ہے۔" یاد رہے کہ پی آئی سی میں ہونے والی توڑ پھوڑ، تشدد اور  ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس نے 52 کے قریب وکلا کو گرفتار کر لیا تھا، جنھیں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملزم وکلا میں سے 46 کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے 52 وکلا میں سے 46 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عبدالقیوم کے روبرو پیش کیا گیا، جہاں وکلا کے چہروں پر نقاب پہنائے گئے تھے۔ پولیس نے ملزمان سے تفتیش کے لیے ان کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔ تاہم ملزمان کے وکلا نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی اور کہا کہ پولیس نے وکلا کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، لہٰذا تمام وکلا کا میڈیکل کرایا جائے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ڈاکٹروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنانے، ہسپتال کی املاک اور پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچانے پر 250 سے زائد وکلا کے خلاف 2 ایف آئی آر درج کی گئی تھیں، جبکہ وکلا کے خلاف کارروائی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست بھی دائر کردی گئی۔" وکلا کی جانب سے یہ انتہائی اقدام تھا۔ جنگی حالات میں بھی دشمن کے جہاز ہسپتالوں، ہلال احمر کے دفاتر اور دیگر عالمی و انسانی حقوق کے اداروں کو نشانہ نہیں بناتے۔ اگر دشمن ملک جنگ کے دوران کسی ہسپتال کو نشانہ بنائے تو اسے جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ یقیناً گذشتہ سے پیوستہ روز پی آئی سی میں جو ہوا، وہ اس سے بھی سِوا تھا۔

میری دانست میں وکلا اور ینگ ڈاکٹرز اپنی اپنی "انائوں" کے ہاتھوں مجبور ہوئے، مگر انتظامیہ کو کیا تھا؟ کہ اس نے بر وقت حملہ آوروں کو نہیں روکا؟ جس کے باعث دل کے ہسپتال میں آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور انتہائی نگہداشت یونٹ میں بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب 6 مریض خالقِ حقیقی سے جا ملے، ان اموات کا ذمہ دار کون ہے؟ ان ملزموں کا تعین کون کرے گا؟ میری دانست میں عدالت عظمیٰ اور پارلیمان ایسے واقعات سے بچنے کے لیے اس حوالے سے گائیڈ لائن دیں۔ سینئیر ترین وکلا کو اپنے شعبے کی آبرو بچانے کے لیے اپنے شاگردوں کو اخلاقیات اور قانون دان کی ذمہ دارویوں پر لیکچرز دینے چاہئیں۔ اس حقیقت کو مگر کیسے فراموش کیا جائے کہ ہم آئے روز یہ سنتے اور دیکھتے ہیں کہ وکلا نے کبھی کسی جج کو کرسی دے ماری، تو کبھی کسی خاتون جج کے چیمبر کو تالا لگا دیا؟ یہ قانون کی بالادستی کے امین ہیں یا اپنی اپنی انائوں کے اسیر؟ سماجی حیات کی ان تلخ ترین حقیقتوں کا سامنا کیے بغیر معاشرے کے سدھار کی امیدیں کبھی پوری نہیں ہوں گی۔ حکومت نے اگر اب کی بار بھی لچک دکھائی اور کسی غیر اعلانیہ "جرگہ" کے تحت معاملے کو ٹھپ کر دیا گیا تو ایسے واقعات روز کا معمول بن جائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 832401

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/832401/پی-ا-ئی-سی-واقعہ-ذمہ-داروں-کا-تعین-اور-سزا-لازم-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org