QR CodeQR Code

امریکہ کے صدارتی الیکشن اور شمالی کوریا کے میزائل تجربات

13 Dec 2019 21:31

اسلام ٹائمز: درحقیقت شمالی کوریا نے امریکہ سے مذاکرات کا سلسلہ اپنی اندرونی صورتحال کے پیش نظر اور اقتصادی صورتحال بہتر ہونے کی امید پر شروع کیا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے شمالی کوریا کے حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف اپنی اندرون خانہ سیاست میں بعض مفادات کے حصول کیلئے ان سے مذاکرات میں مصروف ہیں


تحریر: سید رحیم نعمتی

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پمپئو نے اپنے روسی ہم منصب سرگے لاوروف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس امید کا اظہار کیا کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیار ختم کرنے اور میزائل تجربات روک کر ان سے تعاون کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ "اس بات کے کوئی شواہد دکھائی نہیں دیتے کہ امریکہ اور شمالی کوریا مذاکرات کی میز پر آنے والے ہیں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان اتوار 8 دسمبر کے دن اس خبر کا ردعمل ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا نے ایک اور میزائل تجربہ کیا ہے۔ مائیک پمپئو کے انداز سے بھی یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ امریکہ اس خبر کے مقابلے میں یوں اظہار بے چارگی کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رکھتا۔ اگرچہ اس وقت امریکہ اس بے چارگی کا اظہار کرنے کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتا لیکن آئندہ برس صدارتی الیکشن کے تناظر میں یہ موقف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ انتخابی مہم چلانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور ایسے کمزور موقف الیکشن میں ان کیلئے درد سر بن سکتے ہیں۔
 
اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے نمائندے نے میزائل تجربہ کرنے سے ایک دن پہلے کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کی نابودی پر مبنی موضوع امریکہ سے مذاکرات کے ایجنڈے سے خارج ہو چکا ہے اور امریکہ سے طویل المیعاد مذاکرات ضروری نہیں۔ انہوں نے پیانگ یانگ کے اس فیصلے کی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات پہلے سے معلوم تھی کیونکہ وہ کئی بار اس بات پر زور دے چکے تھے کہ امریکہ سے مسلسل مذاکرات وقت کا ضیاع ہے اور اس کا فائدہ صرف امریکہ کی اندرون خانہ سیاست کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا پیانگ یانگ نے امریکہ سے جوہری مذاکرات میں دو بنیادی تبدیلیاں کی ہیں۔ ایک عملی میدان میں جس کے تحت میزائل تجربات کا منصوبہ دوبارہ سے شروع کر دیا گیا ہے اور دوسرا سفارتی میدان میں جس کی رو سے سرکاری سطح پر امریکہ سے مذاکرات کے ایجنڈے سے جوہری ہتھیاروں کی نابودی کا موضوع نکال دیا گیا ہے۔ شمالی کوریا نے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اب مزید اس موضوع پر اس سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ شاید اسی وجہ سے مائیک پمپئو نے کہا ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان دور دور تک مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔
 
مذکورہ بالا صورتحال کی روشنی میں شمالی کوریا کے آئندہ اقدامات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ شمالی کوریا کے قائد کیم جانگ اون نئے عیسوی سال کے آغاز پر کرسمیس کی رات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک نیا میزائل تحفہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اب یہ بحث جاری ہے کہ کیم جانگ اون ڈونلڈ ٹرمپ کو کس قسم کا تحفہ پیش کریں گے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ ایک نئے بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کریں گے جبکہ دیگر کچھ کم درجے کے اقدامات کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ شمالی کوریا کی جانب سے ایسے جارحانہ اقدام کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کیا سیاسی قیمت چکانا پڑے گی؟ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے نمائندے کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی کوریا امریکہ سے مذاکرات کے ایشو کو امریکہ کی اندرون خانہ سیاست کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔
 
درحقیقت شمالی کوریا نے امریکہ سے مذاکرات کا سلسلہ اپنی اندرونی صورتحال کے پیش نظر اور اقتصادی صورتحال بہتر ہونے کی امید پر شروع کیا تھا۔ لیکن دھیرے دھیرے شمالی کوریا کے حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صرف اپنی اندرون خانہ سیاست میں بعض مفادات کے حصول کیلئے ان سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اندرون خانہ سیاست چمکانے میں شمالی کوریا سے مذاکرات کا سب سے زیادہ فائدہ اس وقت اٹھایا جب انہیں جنوبی کوریا کی سرحد پار کر کے شمالی کوریا کی حدود میں داخل ہونے والے پہلے امریکی صدر کا خطاب حاصل ہوا۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کا واحد نتیجہ اندرون خانہ سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کو پہنچنے والا فائدہ تھا اور عالمی سطح پر اب تک اس کے کوئی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ لیکن اب شمالی کوریا کے حکام میزائل تجربات جاری رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کو دباو کا شکار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہو چکے ہیں۔ اگر شمالی کوریا اپنے جارحانہ اقدامات کو جاری رکھتا ہے تو یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ سیاست کی شدید ناکامی قرار دی جائے گی اور اس کا براہ راست اثر عنقریب منعقد ہونے والی امریکی صدارتی الیکشن پر پڑیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ انہیں یا تو شمالی کوریا کو مراعات دینی پڑیں گی یا اس کے جارحانہ اقدامات کی بھاری سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔ دیکھتے ہیں وہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
 


خبر کا کوڈ: 832549

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/832549/امریکہ-کے-صدارتی-الیکشن-اور-شمالی-کوریا-میزائل-تجربات

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org