0
Saturday 14 Dec 2019 22:10

ماسکو اور اسلام آباد میں کم ہوتے فاصلے

ماسکو اور اسلام آباد میں کم ہوتے فاصلے
تحریر: ممتاز ملک

روس اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات مئ 1948ء میں قائم ہوئے اور جون 1949ء میں روسی وزیراعظم مارشل جوف اسٹالن نے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو روس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ جس کے لئے اگست کا مہینہ چنا گیا۔ لیکن لیاقت علی خان کو اسی وقت امریکی دعوت نامہ بھی موصول ہو چکا تھا، انہوں نے روس پر امریکہ کو ترجیح دیتے ہوئے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا، جسے روس نے ایک جانبدارانہ اقدام قرار دیا۔ 1965ء کی جنگ میں اگرچہ روس کا جھکاؤ بھارت کی طرف تھا، لیکن اس نے علاقے کے بڑے ہونے کا ثبوت دیا اور 1966ء میں تاشقند کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ کروایا، جس میں روسی صدر کوسیجن، ایوب خان اور لال بہادر شاستری شامل تھے۔ جس سے اس وقت کے وزیر خارجہ بھٹو نے اختلاف کیا اور صدر پاکستان جنرل ایوب خان کو تاشقند میں اکیلا چھوڑ کر ہی وطن واپس لوٹ آئے۔ جبکہ سانحہ بنگلہ دیش کے وقت روس نے غیر جانبدار رہنے کی پوری کوشش کی۔ بھٹو کے اقتدار سے پہلے صدر ایوب اور روسی صدر دو دو مرتبہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کر چکے تھے۔ بھٹو کیطرف سے امریکی رویہ کو بروقت بھانپتے ہوئے پاکستان سیٹو 1954ء اور سینٹو 1955ء دونوں معاہدوں سے باہر ہو گیا اور اسی دوران روس نے کراچی میں پاکستان کی سب سے پہلی اسٹیل ملز لگائی۔

پھر روس نے 1979ء میں افغانستان پر حملہ کر دیا، جسے اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق نے امریکی ایماء پر روکنے کا فیصلہ کیا۔ جواز یہ بنایا گیا کہ آج تو روس اپنے ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ کابل پر چڑھ دوڑا ہے، لیکن اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو اگلے دس سالوں میں وہ اپنے دس لاکھ فوجیوں کیساتھ پاکستان پر چڑھائی کرے گا اور ہمارے سمندر پر قبضہ کر لے گا جو کہ آج ہم خود اسے چین کی رضامندی سے سی پیک کا حصہ بنانے جا رہے ہیں۔ 1988ء میں ہونے والے جنیوا کنونشن کیمطابق روس نے اپنی افواج افغانستان سے 1989ء میں نکال لیں اور اس کے ساتھ ہی رشین فیڈریشن USSR کا شیرازہ بکھر گیا۔ سرد جنگ ختم ہوئی اور ہمارے تعلقات روس کے ساتھ سطحی ہی رہے۔ صدر زرداری نے اپنے دور حکومت میں روس کا دورہ کیا، لیکن نواز شریف دور میں برف واضح طور پگھلنا شروع ہوئی، جب 2014ء میں جنرل راحیل شریف نے ماسکو کا دورہ کیا اور روسی صدر پیوتن نے پاکستان سے روسی اسلحہ کی خرید و فروخت پر لگی پابندی اٹھا لی اور دہشت گردی کے خلاف استعمال کے لئے اپنے چار جدید MI 35 ہیلی کاپٹرز دینے کے ساتھ ساتھ روسی وزیر دفاع نے پاکستان کا دورہ بھی کیا، جو کہ 45 سال بعد کسی بڑے روسی عہدہ دار کا پہلا دورہ تھا۔

پھر یہ تعلقات مزید بہتری کی طرف بڑھتے ہوئے مشترکہ فوجی مشقوں میں بدل گئے، جو روس اور پاکستان کی اسپیشل فورسز نے 2016 استور رٹو گلگت اور 2017ء اٹک کے مقام پر کیں۔ اسی سال ہی وزرائے خارجہ خواجہ آصف اور سرگئی لاروف کے درمیان ستمبر کے مہینہ میں UN اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ملاقات ہوئی۔ 2018ء کرغستان بشکیک میں پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا دیا گیا، جس میں وزیراعظم عمران خان کی کھانے کی میز پر روسی صدر پیوٹن سے خاصے خوشگوار ماحول میں گپ شپ ہوئی۔ اب روسی وزیر صنعت و تجارت ڈینس منتروف کا اپنے 66 رکنی وفد کے دورہ پاکستان پر آنا، اسی خیر سگالی تعلقات کو آگے بڑھانے کا واضح اشارہ  ہیں، جو روسی صدر پاکستان سے مستقبل میں قائم کرنے کے خواں ہیں اور اس موقع پر وزیر صنعت و تجارت نے گیس، صنعت، دفاع اور ریلوے کے شعبوں میں شراکت داری کی پیشکش کی ہے۔ جدید ہوائی جہاز، کراچی اسٹیل ملز کو دوبارہ چلانا اور کوئٹہ تفتان ریلوے ٹریک کی تعمیر جیسے منصوبے شامل ہیں۔

2020ء میں عمران خان ماسکو اور صدر پیوٹن اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ یہ سب جن وجوہات کی وجہ سے ہوا ان میں امریکی فوجی امداد کا بند ہونا، سی پیک، حقانی نیٹ کے خلاف پاکستان کی طرف سے اپنی سرزمین پر واضح کاروائی نہ کرنا، روس کی طرف سے افغانستان میں نیٹو اتحاد کا داعش کے خطرے کے خلاف واضح کردار ادا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ روس اور ایران کی طرف سے امریکہ پر افغانستان میں داعش کے جنگجوؤں کو مضبوط کرنے جیسے الزامات سبب بن رہے ہیں، کہ اس خطے کے اہم ملک سنجیدگی کے ساتھ مل بیٹھ کر داعش کے خطرے سے نمٹنے کا حل سوچیں۔ 2019ء میں جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ماسکو کا دورہ کر چکے ہیں۔ مختلف تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دباؤ اسے روس اور چین کے زیادہ قریب کر رہا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے ہمارے خارجہ تعلقات کے ذمہ دار اور ماہرین ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان دوریاں کم کرنے پر توجہ دیں گے، اگرچہ اعتماد سازی پر تھوڑا وقت لگ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 832790
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش