0
Saturday 14 Dec 2019 22:41

افغانستان میں امن کی ضامن قوتیں کون ہیں؟

افغانستان میں امن کی ضامن قوتیں کون ہیں؟
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ پاکستان کی خواہش اور کوشش ہے کہ عشروں سے عالمی طاقتوں کے خود غرضانہ مفادات کے باعث جنگ کے شعلوں میں جھلستا، آفت رسیدہ ملک افغانستان پائیدار امن و استحکام سے ہم کنار ہو۔ اسی لیے پاکستان کی کوششوں سے امریکہ اور طالبان براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور وہ بھی بغیر کسی شرط کے۔ امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی شرط سرنڈر تھا یعنی طالبان ہتھیار رکھ دیں۔ دوسری طرف طالبان مذاکرات کیلئے غیر ملکی افواج کے انخلاء سے کم پر تیار نہیں تھے گویا فریقین دو انتہائوں پر تھے پاکستان نے ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے دونوں کو غیر مشروط طور پر مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ مذاکرات کے متعدد ادوار ہوئے جن میں توقعات سے بڑھ کر پیش رفت ہوئی۔ سلسلہ اطمینان بخش طور پر چلا اور آگے بڑھ رہا تھا، فریقین کے جلد حتمی معاہدے پر پہنچنے کی امید تھی جس کا اظہار امریکہ اور طالبان کی طرف سے کیا جا رہا تھا۔ معاملات جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے افغانستان میں اس کے مثبت اثرات مرتب ہونے کے بجائے شدت پسندی اور آپریشنز میں اضافہ ہو رہا تھا۔ افغان انتظامیہ کی جانب سے طالبان پر حملوں میں تیزی آ گئی۔ طالبان بدستور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کر رہے تھے حالانکہ مذاکرات کے دوران اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت تھی۔

امریکہ طالبان مذاکرات کی اشرف غنی انتظامیہ نے کھل کر مخالفت کی۔ امریکی مذاکرات کار زلمے خلیل کو وائسرائے قرار دیتے ہوئے اپنے آپ میں رہنے کو کہا گیا، جس پر امریکہ کی طرف سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ طالبان افغان انتظامیہ کے حملوں کا جواب دے رہے تھے اس دوران طالبان کی ایک کارروائی میں درجن بھر افغان فوجیوں کے ساتھ ایک امریکی فوجی بھی مارا گیا۔ ٹرمپ نے اس پر آبلہ پا ہو کر مذاکرات کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے طالبان کے خلاف سخت کارروائیوں کا حکم دیا جو پہلے بھی کچھ کم نہ تھیں۔ افغان انتظامیہ کو اپنی بقا سٹیٹس کو نظر آتی ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرتا آ رہا ہے۔ افغانستان میں امن کی بحالی اس کے مذموم مقاصد کو مسدود کر سکتی ہے لہٰذا امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی اس کے مفادات پر زد کی حیثیت رکھتی ہے۔ افغان انتظامیہ اور بھارت ان مذاکرات کے خاتمے کیلئے کوشاں رہے اور سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ایما ہی پر افغان انتظامیہ بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت کرتی رہی ہے حالانکہ پاک افغان سرحد سیل ہونے سے افغانستان کے وہ تحفظات دور ہو سکتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں۔

ان الزامات میں قطعی صداقت نہیں، یہ الزامات صرف امریکہ کو پاکستان کے خلاف برگشتہ کرنے کیلئے عائد کئے جاتے ہیں جبکہ بھارت کے پالتو دہشت گرد افغان انتظامیہ کے تعاون سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے در آتے ہیں۔ ان کو روکنے کیلئے پاکستان 27 سو کلو میٹر طویل اور دشوار سرحد پر باڑ لگا رہا ہے۔ افغانستان میں بدامنی اور دہشت گردی کی فضا نے سب سے زیادہ نقصان ملک افغاں اور اس کے شہریوں کو پہنچایا۔ لاکھوں افراد خاک اور خون میں مل گئے۔ افغانستان ہی کے باعث خطے کا امن تہہ و بالا ہوا اور افغانستان کے بعد سب سے زیادہ بھیانک اثرات افغانستان میں دہشت گردی کے پاکستان پر مرتب ہوئے اور پاکستان میں دہشت گردی در آئی، 7 ہزار فورسز کے سپوتوں کے ساتھ 60 ہزار پاکستانی اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے، معیشت زبو حالی سے دوچار ہوئی۔ اس لئے پاکستان کی کوشش رہی کہ افغانستان میں کسی بھی طرح امن بحال ہو سکے۔ خطے کے ممالک چین، روس، ایران اور دیگر بھی افغانستان میں امن کیلئے کوشاں رہے۔ پاکستان نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے امریکہ اور طالبان کو براہ راست مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا۔ پاکستان نے ایک مرتبہ پھر افغانستان میں امن اور اس کیلئے پاکستان کے مثبت کردار اور سہولت کاری کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان کے استحکام کیلئے ناگزیر ہے اور اس مقصد کیلئے ممکنہ اقدامات کریں گے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد ایک مرتبہ پھر پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان کی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے الگ الگ ملاقات ہوئی۔ ملاقاتوں میں علاقائی اور خصوصاً افغان امن عمل پر تفصیلی غوروخوض ہوا۔ ملاقاتوں میں پاکستان کی جانب سے اپنے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا گیا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان میں امن سیاسی ڈائیلاگ سے ہی ممکن ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مفاہمتی امن عمل جلد بحال ہوگا۔ ملاقاتوں میں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو افغان طالبان اور امریکا کے وفود کی سطح پر مذاکرات سے آگاہ کیا گیا اور افغانستان میں امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا گیا۔ مذکورہ ملاقاتوں کے عمل کے ذریعہ سوالات یہ اٹھے ہیں کہ مذاکرات کی نتیجہ خیزی کا انحصار امریکا پر ہے اور طالبان سے مذاکرات کی معطلی کے بعد اب باضابطہ اعلان کیا متوقع ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے ہونے والے نو ادوار کے بعد کیا مذاکراتی سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوگا یا مذاکرات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ افغانستان کی صورتحال اور افغان امن عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے حوالہ سے فیصلہ اور خصوصاً مذاکرات کی کامیابی کا اعلان خود صدر ٹرمپ کی ضرورت ہے۔

کیونکہ یہ صدر ٹرمپ ہی تھے جنہوں نے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ دنیا بھر کے مختلف ممالک خصوصاً افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا یقینی بنائیں گے تاکہ امریکا پر پڑنے والا اربوں ڈالرز سالانہ کا جنگی بوجھ کم ہو اور یہ رقم امریکی عوام پر خرچ کی جائے۔ صدر ٹرمپ جو پہلے پہل پاکستان کو ٹارگٹ کرتے نظر آتے تھے، بعدازاں انہیں پاکستان کے اس موقف کی جانب لوٹنا پڑا جو پاکستان امریکا سمیت دنیا بھر کو باور کراتا نظر آتا تھا کہ امریکا اور نیٹو افواج افغانستان پر اپنا تسلط قائم نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان کی بنائی جانے والی کٹھ پتلی حکومتیں یہاں اپنی رٹ قائم کر سکتی ہیں اور وہی ہوا کہ اٹھارہ سال تک امریکا اور دیگر مغربی ممالک یہاں اربوں کھربوں ڈالرز خرچ کر کے اپنی افواج بھجوا کر بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکے اور یہاں ہونے والے ردعمل کے باعث امریکا اور نیٹو افواج ایک ایسی دلدل میں دھنستی چلی گئیں جہاں سے نکلنا ممکن نظر نہیں آ رہا تھا اور یہاں کی مقامی انتظامیہ انہیں کسی قسم کی مدد دینے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ بعدازاں نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے امریکا نے پاکستانی موقف سے رجوع کیا اور پاکستان نے اپنا موثر کردار ادا کرتے ہوئے امریکا اور طالبان کو ایک میز پر لانے کیلئے بنیادی کردار ادا کیا اور دوحہ میں ہونے والے نوادوار کے بعد جب معاہدہ فیصلہ کن موڑ پر پہنچا تو خود صدر ٹرمپ نے کابل میں ایک حملے کو جواز بناتے ہوئے معاہدے کے اعلان کو معطل کرنے کا اعلان کیا۔

جس پر طالبان نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ جب معاہدے پر دستخط ہی نہیں ہوئے تو خلاف ورزی کا کیا سوال۔ ان کا کہنا تھا کہ بالآخر امریکا کو طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے رجوع کرنا پڑے گا اور ایسا ہی ہوا اور مذاکراتی عمل چل پڑا۔ نئی صورتحال میں بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا طالبان کے درمیان نو مختلف ادوار میں طے شدہ چیزوں پر دوبارہ غور و خوض کیوں؟۔ طے شدہ امور پر پیش رفت کر کے افغانستان میں امن عمل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس میں رکاوٹ کون ہے۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت اور افغانستان میں موجود اشرف غنی انتظامیہ ہے جو یہ بات ہضم نہیں کر پا رہے کہ افعانستان میں پھر سے طالبان کا تسلط قائم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ امریکا میں موجود اپنی لابی کو متحرک کئے ہوئے ہیں۔ پینٹاگان اور دیگر امریکی ذمہ داران نے پہلے بھی اس دباؤ میں ٹرمپ پر معاہدہ معطل کرنے پر زور دیا اور اب بھی وہ نہیں چاہیں گے کہ معاہدہ پر دستخط ہوں، لیکن یہ معاہدہ امریکی ضرورت ہے اور امریکا سمجھتا ہے کہ اس معاہدہ کی صورت میں اس کے مفادات بھی یقینی بن سکتے ہیں اور افغانستان میں امن کے قیام میں بھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکا خطہ میں اپنے اتحادی بھارت کو مذکورہ معاہدہ میں سازش کے تحت شامل کرنے سے باز رہے اور اپنی کٹھ پتلی اشرف غنی انتظامیہ کو اس کا آلہ کار بننے پر زور نہ دے، تب ہی امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔

بھارتی میڈیا میں امن معاہدہ کو بھارت کیلئے اقتصادی خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے افغان امن عمل کی کامیابی دراصل خطہ میں پاکستان کی اہمیت اور سی پیک کے مستقبل کے حوالہ سے اہم ہے کیونکہ افغانستان میں امن صرف پاکستان کی ضرورت ہی نہیں خود علاقائی فورسز خصوصاً چین، روس اور ایران بھی اپنے اپنے مفادات میں افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں افغانستان کی صورتحال کو کیش کرانا چاہتے ہیں۔ اقتدار سے دوری کا خوف اشرف غنی انتظامیہ کو جینے نہیں دے رہا۔ امن معاہدے کی ضرورت ان واقعاتی حقائق سے بخوبی عیاں ہے کہ افغانستان میں انتخابات کے تین ماہ بعد بھی نتائج کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔ کم از کم آدھے ملک پر طالبان کا تسلط مستحکم ہے اور ان کی کارروائیاں جاری ہیں۔ دو عشروں سے جاری اس خوں ریزی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ اور طالبان اور پھر خود افغان قوتوں کے درمیان پائیدار امن سمجھوتہ عمل میں آئے، اس کے تحت عوام کا حقیقی اعتماد رکھنے والی منتخب اور بااختیار حکومت جلد ازجلد قائم ہو، پھر پوری عالمی برادری افغانستان کی تعمیر نو کے لیے اس حکومت سے مکمل تعاون کرے تاکہ گزشتہ صدی کے آخری عشروں سے جنگ کی تباہ کاریوں کے شکار اس ملک کی تعمیر نو کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 832791
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش