0
Sunday 15 Dec 2019 16:40

خیبر پختونخوا میں منظم دہشتگرد گروہ پھر سے سر اٹھانے لگے

خیبر پختونخوا میں منظم دہشتگرد گروہ پھر سے سر اٹھانے لگے
رپورٹ: ایس علی حیدر

بدقسمتی سے خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے جس کی زندہ مثال ایک ہی روز میں ضلع ٹانک میں دہشت گردی کے اوپر تلے دو واقعات ہیں۔ دونوں ہی واقعات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کے علاقے گومل میں دہست گردوں نے اسوقت دستی بم سے حملہ کیا جب پولیس موبائل میں سوار اہلکار اور افسران گشت پر تھے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایک دہشت گرد موقع پر ہلاک ہوگیا تھا جس سے دیگر بارودی مواد بھی قبضے میں لے لیا گیا۔ ہینڈ گرینیڈ کے دھماکے کے نتیجے میں ایس ایچ او عنایت اللہ، ہیڈ کانسٹیبل شفیق احمد، ڈرائیور سید رحمٰن، کانسٹیبل کوثر، عامر نوید اور راہ گیر حبیب اللہ زخمی ہوئے۔ چند گھنٹے بعد ضلع ٹانک ہی کے گاؤں مانجھی خیل میں دوسرا دلخراش واقعہ اسوقت رونما ہوا جب دو ایف سی اہلکار نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد واپس چیک پوسٹ پر ڈیوٹی کیلئے آرہے تھے۔ نامعلوم دہشت گردوں نے فرنٹیئر کور کے دو اہلکاروں حسن اور یاسین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں نے جام شہادت نوش کیا۔ 13 دسمبر 2019ء جمعہ کے روز ضلع ٹانک میں رونما ہونے والے دونوں واقعات میں دہشت گرد ملوث رہے ہیں۔ دہشت گردوں نے پولیس اور ایف سی کو نشانہ بنایا۔

افسوسناک واقعات میں دو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ایس ایچ او سمیت متعدد اہلکاروں کے زخمی ہونے کے باعث پوری قوم بالخصوص صوبہ کے عوام افسردہ ہیں۔ ضلع ٹانک کی سرحدیں قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان اور ایف آر ٹانک سے لگی ہوئی ہیں، یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد انتہائی آسانی سے ضلع ٹانک میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی کارروائیاں سرانجام دیتے ہیں۔ ماضی میں جنوبی وزیرستان دہشت گردوں کا گڑھ رہا ہے، تاحال حکومت کے حمایت یافتہ مسلح افراد وانا جنوبی وزیرستان اور ضلع کے دوسرے علاقوں میں موجود ہیں۔ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹھکانے تباہ کرنے اور اس کی طاقت کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا گیا، لیکن وہ محض دعوے ثابت ہوئے۔ آج سے تین ماہ قبل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے ڈاکٹر حنان وزیرستان سمیت کئی افراد کو اغواء کیا گیا وہ تاحال طالبان کی تحویل میں ہیں۔ ان کی بازیابی کیلئے کوششیں نہیں ہو رہی ہیں، ان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں حکومت سے ان کی بازیابی کی اپیل کی گئی ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک کی سرحدیں ایک جانب جنوبی وزیرستان اور نیم قبائلی علاقے ایف آر ٹانک سے لگی ہوئی ہیں تو دوسری جانب وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگھم پر واقع ہے۔

جنوبی وزیرستان اور ڈیرہ اسماعیل خان دونوں ٹربل ایرباز تصور کئے جاتے ہیں، ان اضلاع میں دہشت گردوں کی موجودگی خارج از امکان نہیں۔ جنوبی وزیرستان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے دو سابق ارکان قومی اسمبلی مولانا نور محمد اور مولانا معراج الدین سمیت دیگر اہم رہنماؤں اور شخصیات دہشت گردی کا شکار ہوئیں ہیں۔ ضلع ٹانک میں ہونے والے دونوں واقعات سے قبل 12 دسمبر 2019ء میں دمغار سوات کے مقام پر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے فیروز شاہ ایڈوکیٹ کو قتل کیا گیا، ان تینوں واقعات کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے۔ خیبر پختونخوا کے بنددوستی اور قبائلی اضلاع کے بدامنی کی لپیٹ میں آنے کے باعث شہریوں کی پریشانی بڑھنے لگی ہے۔ ٹانک میں مذکورہ دونوں واقعات سے قبل بھی دلخراش واقعات رونما ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں کے دوبارہ سر اُٹھانے کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سکیورٹی پر سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ اسوقت صوبہ کے قبائلی اضلاع باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت کئی علاقے بدترین بدامنی کی لپیٹ میں آنے سے شہریوں کی تشویش بڑھنے لگی ہے۔

پشاور کے نئے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود نے چارج سنبھال لیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ صوبہ میں دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی کمر توڑنے کیلئے کونسے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ یقیناََ کور کمانڈر سے صوبہ کے عوام نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ صوبہ میں لاپتہ کئے جانے والے افراد کی تعداد بڑھنے لگی ہے، لوگوں کو لاپتہ کرنے کی بجائے اگر دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے تو بہتر ہوگا، جس موثر انداز میں دہشت گرد دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اس سے صوبہ کا امن ایک بار پھر تہہ بالا ہونے کا اندیشہ ہے۔ محکمہ انسداد دہشت گردی، پاک فوج، پیرا ملٹری فورسز اور پولیس کو مل کر دہشت گردوں کے خلاف مربوط کارروائیاں کرنا ہونگی ورنہ صوبہ میں ایک بار پھر بدامنی کی بدترین لہر اٹھے گی جس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ صوبہ میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے پیدا ہونے والی بے چینی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ شدت پسند صوبہ میں منظم دہشت گرد کارروائیاں کرنے کیلئے متحرک ہوئے ہیں جن کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 832905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش