QR CodeQR Code

بلتستان، ناکام ترقیاتی منصوبوں کا قبرستان کیوں؟

16 Dec 2019 20:26

اسلام ٹائمز: جب بھی کوئی منصوبہ کسی جگہ منظور ہوتا ہے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہیئے، اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے، کیونکہ ایک منصوبہ ایک بار ٹینڈر اور کئی بار مختلف ہاتھوں سے بکتا ہے تو پیسہ کم ہو جاتا ہے اور اس جرم میں ارباب اقتدار و اختیار کیساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ شریک ہیں۔ خصوصاً انتظامیہ کے لوگ جو دولت مندوں کے سامنے بلی اور غریبوں کے سامنے شیر نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً گلگت بلتستان جیسے چھوٹے شہروں میں بہت سارے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ورنہ چھوٹے سے شہر میں اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو بے مثال شہر بن سکتا ہے۔


تحریر: شیخ فدا علی ذیشان
سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم ضلع سکردو

یوں تو بلتستان کے چپے چپے میں جانے کا اتفاق ہوا اور وقتاً فوقتاً دور دراز علاقوں میں دورے کا اتفاق بھی ہوتا ہے، کیونکہ میں ایک ایسی شخصیت کے ساتھ رہتا ہوں، جس کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے، جس کے اوقات غریبوں کے مسائل کے حل میں گزرتے ہیں، جس کی زندگی کے اکثر ایام سفر میں ہی گزرتے ہیں۔ ایک ایسا مرد حر جو غریبوں کی آواز ہے، مافیا اور چوروں کے خلاف سب سے زیادہ صدائے احتجاج بلند کرنے والا اور ظالم کے خلاف سب سے طاقتور آواز کے مالک عالم مبارز مجاہد ملت آغا سید علی رضوی۔ حالیہ دنوں میں ان کی ہمراہی میں بلتستان کے کچھ علاقوں کا تفصیلی دورہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس مرد حر کی قیادت میں ہم بشو گئے، انتہائی پرخطر اور کٹھن راستوں (ایک تو راستہ بہت ہی تنگ اور برف کی وجہ سے خطرناک) سے ہوتے ہوئے ہم کھر پہنچے، جہاں پر علاقے کے زعماء، علماء اور جوانوں نے گرم جوشی سے استقبال کیا اور مختصر پروگرام منعقد کیا۔

واپسی پہ جب ہم ایک خطرناک موڑ سے مڑ رہے تھے تو سمت مخالف سے گاڑی آرہی تھی، بڑی مشکل سے ہم نے کراس کیا۔ خطرناک راستہ اور راستے کی خستگی کو دیکھ کر ایک عالم سے راستہ اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں پوچھا تو اس نے عجیب داستان غم سنائی، جس نے مجھے بھی ارباب اقتدار کی توجہ مبذول کروانے پر مجبور کیا اور اس تحریر کے ذریعے سے بلتستان کے بارے میں کچھ حقائق ضبط تحریر کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ عوام آگاہ ہوں اور اس مافیا کے خلاف جدوجہد کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر نمائندہ کو اے ڈی پی کے مد میں کڑوروں روپے اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھانے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ مگر بلتستان کے کسی بھی علاقے میں ترقیاتی کام نظر نہیں آتا۔ جس طرح بجلی کی پیداوار کے نام پر لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بلند و بانگ دعوے کے ساتھ پاور ہاؤس بنایا جاتا ہے، جبکہ آئے روز بجلی نہ کہیں نظر آتی ہے اور نہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوتا ہے، بلکہ دن بدن لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یا اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب کے لئے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کی ایک وجہ جو سمجھ آئی، وہ شاید اس دورے کے دوران سنی گئی روداد سے واضح ہو۔ جب میں بشو پہنچا اور وہاں کے مسائل جاننے کی کوشش کی تو ایک صاحب نے کچھ حقائق کا اظہار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس روڈ کے لئے ایک نمائندہ نے ایک کروڑ کا اعلان کیا، مگر ٹھیکہ در ٹھیکہ ہوتے ہوئے ابھی اس منصوبے پر زیادہ سے زیادہ 22 لاکھ خرچ کیا گیا ہے اور اس پیسے کی وجہ سے کچھ بھی کام نہیں ہوا۔ بس دو جگہوں پہ دیوار بنائی گئی ہے اور ایک دو جگہوں پر تھوڑا سا راستہ کشادہ کرنے کے لئے کاٹا گیا ہے اور بس۔ اسی طرح دیگر منصوبوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ چند لاکھ روپے والے منصوبوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جہاں انجیئنر اور ٹھیکے دار کی ملی بھگت سے کھانے اور کمانے کا جن سوار ہوتا ہے۔ مقام افسوس تو یہ ہے کہ ان چوروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لئے تیار نہیں۔

جبکہ ہم سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک منصوبہ مکمل ہونے کے بعد دو سال تک ٹھیکے دار اور انجینئر دونوں ذمہ دار ہیں۔ اگر معمولی بھی کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو ٹھیکے دار کو سخت ترین سزا دی جاتی ہے، جبکہ پاکستان خصوصاً ہمارے خطے میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل مفاد پل اور پاور ہاوس کی تعمیر پر بضد ہیں، کیونکہ اس میں کمانے اور کھانے کے لئے پیسہ بہت ہے۔ جب ایک منصوبہ دو چار بار فروخت ہو جائے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہیئے، اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً کچورا میں تین پاور ہاوس موجود ہیں، مگر دو پاور ہاوسز کی صرف عمارتیں کھڑی ہیں۔ اسی طرح ہرپو پاور ہاوس کی بھی عمارت ہے، مگر بجلی نہیں ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستانی اداروں خصوصاً گلگت بلتستان میں نوکری بکتی ہے، ضمیر کا سودا ہوتا ہے، مگر افسوس! یہاں تو کمیشن پر ٹھیکہ بھی بکتا ہے اور جب ایک ٹھیکہ ایک دو تین بار بک جائے تو جتنا پیسہ اس منصوبے پہ لگنا چاہیئے اتنا پیسہ نہیں لگتا جتنا اس کام کیلئے ضروری ہوتا ہے، نتیجتاً کسی بھی علاقے میں کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔

ایک مثال سکردو شہر کی سڑکوں کی بھی ہے۔ شہر کی مختلف سڑکوں کو ری کارپٹ کرایا گیا، مگر تین ماہ کے قلیل عرصے میں ری کارپیٹنگ کا نام و نشان مٹ گیا ہے۔ سڑکیں پھر سے کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کچورا پل کسی ٹھیکے دار کو ٹھیکہ ملا تھا، اس نے کسی دوسرے ٹھیکے دار کو فروخت کیا۔ کتنے ہی پاور ہاوسز کی بڑی بڑی عمارت تو نظر آتی ہے، مگر کہیں بجلی نظر نہیں آتی۔ پھر اس سے زیادہ افسوس اور دکھ ان بے حس بیورکریٹس اور مفاد پرست کمیشن خوروں پر ہوتا ہے، جو جو پاور ہاوس کی عمارت بنانے پہ بضد نظر آتے ہیں، خصوصاً مقپون پاور ہاوس۔ جس کی تعمیر پر اہل مفاد بضد ہیں جبکہ اہل علاقہ مخالف ہیں۔ کیا عمارت تعمیر کرنا کافی ہے؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری عمارتیں بالکل تیار ہیں بلکہ کچھ تو بوسیدہ ہوگئی ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ کسی جگہ منظور ہوتا ہے تو جتنا پیسہ خرچ ہونا چاہیئے، اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا ہے، کیونکہ ایک منصوبہ ایک بار ٹینڈر اور کئی بار مختلف ہاتھوں سے بکتا ہوا پیسہ کم ہو جاتا ہے اور اس جرم میں ارباب اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ کچھ خاص لوگ شریک ہیں۔ خصوصاً انتظامیہ کے لوگ جو دولت مندوں کے سامنے بلی اور غریبوں کے سامنے شیر نظر آتے ہیں۔ نتیجہ گلگت بلتستان جیسے چھوٹے شہروں میں بہت سارے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہونے کے باوجود کہیں پر بھی کوئی کام نظر نہیں آتا۔ ورنہ چھوٹے سے شہر میں اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو بے مثال شہر بن سکتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 833142

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/833142/بلتستان-ناکام-ترقیاتی-منصوبوں-کا-قبرستان-کیوں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org