0
Wednesday 18 Dec 2019 12:49

جنرل مشرف کو سزائے موت، سابق افسروں کا موقف

جنرل مشرف کو سزائے موت، سابق افسروں کا موقف
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پاکستان میں سربراہان حکومت یعنی وزرائے اعظم کو سزائے موت اور قید کی سزائیں دی گئیں ہیں، لیکن کسی فوجی آمر کو پہلی دفعہ سزا سنائی گئی ہے۔ پاکستان کے سابق صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے واضح طور پر اس فیصلے کی آئین اور قانون کی بالادستی کی علامت قرار دیا ہے۔ جبکہ حکمران جماعت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب افواج پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ عساکر پاکستان اضطراب، غم اور غصے کا شکار ہیں۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا بالخصوص سرکاری اور نجی ٹیلی ویژن چینلز پر تبصرے کرنے والے سابق جرنیلوں اور ریٹائرڈ فوجی افسران نے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے غیر متوازن اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔ جبکہ بعض سابق فوجی افسروں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے موقف کی تائید کی ہے۔ پاکستانی سیاست اور چاروں طرف سے درپیش ملکی و بین الاقوامی چیلنجز اس وقت گھمبیر صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ غداری کا جو لفظ استعمال کیا گیا، یہ کسی بھی فوج افسر کے لئے بہت نقصان دہ جس سے فوج کا بھی مورال گرتا ہے، اگر عمر قید ہوتا یا پھر غداری کا الزام نہیں لگتا تو شاید فوج کی طرف سے اتنا سخت ردعمل بھی نہیں آتا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے اور پھانسی کے مشہور کردار جنرل فیض علی چشتی نے کہا کہ کوئی تو جرم کیا ہو گا جو عدالت نے قصو ر وار قرار دیا، ملک و قوم کیخلاف قدم اٹھانے والوں کو پکڑا جائے۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ مشرف اپنے خلاف الزامات کا موثر دفاع کرتے تو شاید عدالت سزا نہ سناتی۔ میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ مشرف کیخلاف فیصلہ افسوسناک، فوج کی توہین ہوئی، آئین توڑنا ایک سزا ہے تو ہمیشہ ہونی چاہیے کبھی حلال اور کبھی حرام نہیں ہونا چاہیے، جس شخص نے دو جنگیں لڑیں جس نے اولاد کا نام تک اس شہید ساتھی کے نام پر رکھا، جس نے جنگ میں ان کے ہاتھوں میں شہادت پائی اگر وہ شخص غدار ہے تو پھر ہمیں حب الوطنی کی نئے سرے سے تعریف کرنی پڑے گی کہ محب وطن کون ہوتا ہے غدار کون ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب جج صاحبان نے پی سی او کے تحت حلف اٹھا لیا تو جائز ہے جب ٹیک اوور کی توثیق کر دی سپریم کورٹ ہی کے ایک بنچ نے جس میں جسٹس افتخار چوہدری بھی شامل تھے، جنرل مشرف کو اجازت دی کہ اس آئین کو جب چاہیں تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ فوج کے ترجمان نے جو ردِ عمل دیا وہ بہت ہلکا ہے شاید اس سے زیادہ ہونا چاہیے فیصلہ آنے سے پہلے اظہار کر دیا گیا تھا کہ یہ ہونے والا ہے پھر ہم کیا سمجھیں کیا اس کورٹ کو پہلے سے ہدایات دی گئیں تھیں یا یہ سمجھیں کہ کورٹ اپنے فیصلے پر بات چیت کر رہی تھی یا افشاں کر رہی تھی، طیارہ کیس والے باہر گھوم رہے ہیں مزے سے اور جو طیارہ میں موجود تھا اس پر سارا الزام لگا دیا جائے یہ کورٹ کی من مانی ہے جس ایکشن کو چاہے معاف کر دے جو لوگ ساتھ تھے ان کو مقدمے میں شامل نہیں کیا گیا۔ میجر جنرل (ر) محمد منشی نے کہا کہ جنرل مشرف کے حوالے سے فیصلہ غیر متوازن ہے، آئینی و قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، فیصلے سے افواج کا حوصلہ پست ہو گا، ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ فیصلے کے پیچھے سیاسی جماعتیں اور عالمی قوتیں ہیں۔ ڈیفنس فورسز ویٹنرز ایسوسی ایشن پاکستان کے رہنمائوں کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد حمید، ایئر کموڈو (ر) اظہر حیات، بریگیڈیر ( ر) صفدر حسین اعوان، وائس ایئر مارشل انور محمود خان، بریگیڈیٹر (ر) نجم الثاقب، لیفٹیننٹ کرنل (ر) چوہدری محمد اسلم، کرنل (ر) طاہر حسین کاردار نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ایسوسی ایشن کے انفارمیشن سیکرٹری مبارک احمد اعوان نے کہا کہ پرویز مشرف کی اس ملک کے لیے 40سالہ خدمات ہیں، وہ آرمی چیف اور صدر پاکستان رہ چکے ہیں وہ کیسے غدار ہو سکتے ہیں؟، مشرف کے کیس میں آئینی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اور انکو سنے بغیر فیصلہ دیا گیا ہے، جنرل مشرف محب وطن جرنیل ہیں ۔عدالت نے فیصلہ عجلت میں اور غلط وقت پر دیا ہے۔ ریٹائرڈ فوجی افسران کی تنظیم پیسا کے جنرل سیکرٹری بریگیڈیئر (ر) مسعود الحسن نے کہا کہ دوران سماعت اس وقت کے وزیر اعظم کو بھی سننا چاہئے تھا کہ پرویز مشرف نے ججز کے خلاف نظر بندی کا حکم از خود دیا تھا یا اس میں وزیر اعظم کی رائے شامل تھی، اس فیصلے میں مشرف کے وکلاء کا کوئی کردار نہیں رہا اور نہ ہی پرویز مشرف کو دفاع کا موقع دیا گیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ ایک کسان سے لے کر وزیراعظم تک کوئی بھی عدالتی نظام سے مطمئن نہیں، جیسا عدالتی نظام ہے، ویسے ہی فیصلے آرہے ہیں۔ تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف کو جو سزا دی گئی ہے وہ قانون کے مطابق ہی ہو گی اور انہوں نے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کی ہوگی تو سزا ہو ئی ہے، در حقیقت جنرل پرویز مشرف نے نہ خود اور نہ ہی ان کے وکلا ء نے بہتر انداز میں دفاع کیا۔ طلعت مسعود نے کہا کہ پرویز مشرف اگر عدالت میں پیش ہوتے یا ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خلاف الزامات کا موثر دفاع کرتے تو شاید انہیں عدالت سزا نہ سناتی، اب جنرل پرویز مشرف کو چاہئیے کہ وہ اعلیٰ عدالتوں میں بھر پور طریقے سے اپنا دفاع کریں اگر وہ واپس نہیں آسکتے تو ویڈیو لنک کے ذریعے ہی اپنا دفاع کریں تو فیصلہ مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے کہا کہ پرویز مشرف نے کوئی تو جرم کیا ہو گا جو عدالت نے انہیں قصو ر وار قرار دیا، انہوں نے پنجابی میں کہا کہ جس نے کج کیتا اے او پکتے، جنہوں نے ملک و قوم کیخلاف کوئی قدم اٹھایا ہے انہیں پکڑا جائے۔

فیض علی چشتی نے کہا کہ میں 40سال سے فوج سے باہر ہوں، فوج میں کیا ردعمل ہے مجھے علم نہیں ، میجر جنرل (ر) یعقوب خان نے کہا کہ عدلیہ نے اپنی اتھارٹی بتائی ہے اس فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں مقدمہ چلے گا اور پھر صدر کے پاس اپیل جائے گی، اس سزا پر فوری عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔ میجر جنرل (ر) نور حسین نے کہا کہ میرے خیال میں یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ اور فوج کیلئے تاریک دن ہے، سزائے موت دینے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، جنرل پرویز مشرف نے ملک و قوم اور فوج کیلئے شاندار خدمات سر انجام دی ہیں، ان کی خدامات کو یکسر نظر انداز کر دیاگیا، یقیناً اس فیصلے کو فوج کے اندر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا، ماڈل ٹائون میں جو کچھ ہوا اس کا ابھی تک عدلیہ نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ امجد شعیب نے کہا گذشتہ ماہ چیف جسٹس پاکستان کے اشاروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی سخت فیصلہ آنے والا ہے چیف جسٹس کھوسہ ریٹائرمنٹ سے پہلے میڈل لیکر جانا چاہتے تھے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ عدالتی تاریخ کا سیاہ باب ہے اس کو قوم نہیں بھول سکی اور بہت کوشش کے بعد بھی اس داغ کو دھویا نہیں جا سکا۔

انکا کہنا تھا کہ ایمرجنسی نافذ کرنا پرویز مشرف کا شخصیتی فیصلہ نہیں بلکہ کابینہ کا فیصلہ تھا جس میں کابینہ نے جنرل مشرف سے سفارش کی اور پھر انہوں نے اپنے اس اختیار کا استعمال کیا لہذا اگر پرویز مشرف کی اگر غلطی ہے تو پھر اس وقت کی کابینہ بھی اس میں شامل تھی، ججز کی سیاسی وابستگیاں ہیں وہ میرٹ کے اوپر نہیں چل پاتے ججز کی تعیناتی کے لئے ایک صاف و شفاف نظام اور طریقہ کار مقرر کرنے کی ضرورت ہے اسحاق ڈار اور نواز شریف کی اولادوں سمیت بہت سے لوگ ملک سے مفرور ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، ان کے کیسز ان کی واپسی سے مشروط کئے گئے ہیں سیاسی جماعتیں اس فیصلے سے بہت خوش ہیں اس سے دوریاں بڑھیں گی اور فوج کا عمل دخل تھا کرپشن کی روک تھام کے لئے وہ رک جائے گا، جس طرح ضمانتیں دی جار ہی ہیں مجرم اور ملزم ملک سے باہر بھیجے جا رہے ہیں اس سے نظام پر سوالات اٹھ رہے ہیں مشرف کو سزا دینے کی حد تک تو ٹھیک ہوتا لیکن غداری کا لیبل لگانے سے فوجی جوانوں میں جو سرحدوں پر فراض انجام دے رہے ہیں، ان کے مورال میں کمی آئے گی اس سے جنرل باجوہ اور تمام فوجی افسران کے اوپر پریشر آئے گا اور ان کو مشکلات پیش آئیں گی۔

تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے کہا کہ پرویز مشرف کی سزا پر فوج کا ردعمل بالکل ٹھیک ہے، یہ پلس رپورٹ ہوتی ہے یہ ٹروپس،ینگ آفیسرز کے احساسات ہیں جو پہنچائے گئے ہیں صرف ایک آدمی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، حکومت کہہ رہی ہے معاونین کا نام ڈالیں وہ بھی نہیں ڈالا جاتا، روزانہ کی بنیاد پر سماعت، ڈیفنس ٹیم کو سنتے نہیں جنرل مشرف کو ویڈیو بیان کا کیوں نہیں ٹائم دیتے، کیا ایمرجنسی ہے کہ دو دن کے اندر فیصلہ سنانا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان مُکہ اٹھا کر کہتے ہیں کہ ہم جنرل کا فیصلہ سنانے والے ہیں اس سے پتا چلتا ہے آپ نے کیا سوچا ہوا تھا اور کیا فیصلہ آنے والا ہے، جب یہ چیزیں نظر آتی ہیں تو پھر انصاف نظر نہیں آتا، یہ بات غیرانسانی اور غیر اخلاقی ہے اور انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ واضح رہے پاکستانی سیاست میں سول ملٹری تعلقات شروع سے ہی پیچیدگی کا شکار ہے ہیں، عالمی طاقتوں نے ہر فوجی آمر کی سرپرستی کی ہے، امریکہ کے ایماء پر لڑی گئی جنگوں نے ملک کو تباہ کیا لیکن ان جنگوں میں شرکت کے فیصلے کرنیوالوں سے کسی نے حساب نہیں لیا، عدالتوں نے ہر مارشل لاء کو قانونی جواز فراہم کیا، یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی فوجی آمر کیخلاف عدالت نے سزاء سنائی ہے، لیکن اب یہ بحث غدار کون کے سوال کو لیکر کوئی اور رخ اختیار کر سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 833451
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش