1
Thursday 19 Dec 2019 18:14

مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی چوتھی نسل کی جنگ

مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کی چوتھی نسل کی جنگ
تحریر: ہادی محمدی

امریکہ نے مغربی ایشیا خطے میں اپنا سابقہ اثرورسوخ واپس لوٹانے کیلئے اب تک کئی منصوبے تیار کئے ہیں جو سب کے سب ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں سے تازہ ترین منصوبہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے ذریعے خطے میں طویل المیعاد شیعہ سنی مذہبی جنگ آغاز کرنے کی کوشش تھی۔ لیکن اسلامی مزاحمتی بلاک نے اس کی یہ سازش محض تین برس کے اندر ہی ناکام بنا دی۔ داعش کی ناکامی کے بعد اب امریکہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ایک اور سازش پر کاربند ہے جو خطے میں چوتھی نسل کی جنگ پر مبنی ہے۔ یہ جنگ مغربی ایشیا کی اقوام اور ممالک کے خلاف ایک وقت پر کئی قسم کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے پر استوار ہے۔ یہ ہتھکنڈے انٹیلی جنس وار، میڈیا وار، نفسیاتی جنگ، اقتصادی جنگ، ثقافتی یلغار اور دہشت گرد عناصر کی حمایت پر مشتمل ہیں۔ یہ تمام ہتھکنڈے ایک عنوان یعنی سکیورٹی و فوجی جنگ کے تحت انجام پا رہے ہیں۔ اس جنگ کا مقصد خطے میں امریکہ کا کھویا ہوا اثرورسوخ اور رعب و دبدبہ واپس لوٹانا ہے۔
 
اس کا ثبوت واضح ہے اور امریکہ اور اس کے تمام تزویراتی ادارے واضح طور پر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ مغربی ایشیا خطے میں ان کا دسیوں سالہ پرانا اثرورسوخ تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی پریشانی صرف یہ نہیں کہ اسے مغربی ایشیا میں اسٹریٹجک شکست ہو رہی ہے اور وہ یہ خطہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہا ہے بلکہ اس کی اصل پریشانی یہ ہے کہ امریکہ کی شکست کے بعد خطے میں امریکہ نواز قوتیں یعنی اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور رجعت پسند عرب سلطنتیں بھی دم توڑ دیں گی۔ امریکہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے پر اس کی گرفت ختم ہونے کا نتیجہ یہاں موجود امریکہ نواز این جی اوز، حکومتوں، تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لہذا امریکہ اور مغربی طاقتیں ان عرب حکمرانوں کو پوری طرح دوہنے میں مصروف ہیں۔ مزید برآں، ان عرب ممالک کی تمام تر ریاستی صلاحیتیں اور قومی وسائل بھی امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی خدمت میں پیش کر دی گئی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال متحدہ عرب امارات کی جانب سے ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے دیگر ممالک کے خلاف اپنی تمام تر میڈیا، انٹیلی جنس اور سفارتی صلاحیتیں اسرائیل اور امریکہ کے سپرد کر دینا ہے۔
 
امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف بھرپور اقتصادی جنگ کی پالیسی اختیار کی تھی جس کا مقصد ایران کو اپنے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنا تھا لیکن اب تک اس کے تمام حربے ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں اور وہ اپنے مطلوبہ مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ لہذا اب امریکہ نے خطے کی پٹھو حکومتوں کی مدد سے ایران کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد ایران سمیت اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر ممالک جیسے عراق، لبنان، شام اور حتی یمن میں افراتفری اور بحران پیدا کرنا ہے۔ امریکہ کی جانب سے شروع کی گئی یہ انتہائی پیچیدہ جنگ مختلف قسم کے ہتھکنڈوں پر مشتمل ہے جن میں ہر ہتھکنڈہ اپنی مخصوص افادیت کا حامل ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل کو درپیش اصل مسئلہ وقت کا ہے کیونکہ وہ محسوس کر رہے ہیں کہ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے خطے پر ان کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے اور اس کا فائدہ ایران سمیت اسلامی مزاحمتی بلاک میں شامل دیگر قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔
 
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے خطے میں شروع کی گئی یہ حالیہ جنگ ایک فیصلہ کن جنگ ہے جس پر ان کی زندگی اور موت کا انحصار ہے۔ یہاں اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ اس جنگ کے ظاہری ہتھکنڈوں سے مقابلہ ضروری ہے لیکن جسے اس جنگ میں بنیادی محوریت حاصل ہے وہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔ اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو امریکی انٹیلی جنس عہدیداران دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد عناصر ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں مختلف قسم کے دہشت گردانہ نیٹ ورکس تشکیل دے رکھے ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے ان کی بھرپور مدد اور حمایت کرتے ہیں۔ زمین پر انجام پانے والے تمام دہشت گردانہ، سفارتی، اقتصادی، ثقافتی اور میڈیا اقدامات کی منصوبہ بندی اور سرپریستی کا کام انہی امریکی انٹیلی جنس عہدیداران کے ذمے ہے۔ ہم مغربی ایشیا میں آج جو ناگوار واقعات اور حادثات بھی دیکھ رہے ہیں وہ درحقیقت امریکہ کے انہی انٹیلی جنس عہدیداران کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اس ناپاک سازش کو ناکام بنانے کیلئے تہران میں دوسری سکیورٹی نشست کا انعقاد ہوا ہے جس میں ایران کے علاوہ روس، چین، بھارت، تاجکستان، افغانستان اور ازبکستان کے سربراہان نے بھی شرکت کی ہے۔ امید ہے مستقبل قریب میں اس بارے میں موثر اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
 
خبر کا کوڈ : 833703
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش