0
Friday 20 Dec 2019 09:52

مہاتیر محمد کا مشورہ اور نئی اسلامی کرنسی

مہاتیر محمد کا مشورہ اور نئی اسلامی کرنسی
اداریہ
ملائیشیاء میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بارے میں مختلف طرح کی آراء سامنے آرہی ہیں۔ کوئی اسے او آئی سی کے مقابل اور کوئی جی آٹھ (G 8) کے مقابلے یا متوازی ایک نیا اقتصادی الائنس قرار دے رہا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے جس شدت سے اس کی مخالفت کی گئی اور بن سلمان اور شاہ سلمان نے جس طرح اپنے اتحادیوں بالخصوص پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو اس میں شرکت سے باز رکھا، اُس سے سعودی عرب کی ساکھ بھی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ شرکت کرکے اس اجلاس میں جان ڈال دی۔ جس سے امریکہ مخالف لابی، غم و غصہ کا شکار اور اسلامی ممالک بالخصوص امریکی مخالف افراد و ممالک اس اجلاس سے نئی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب میں بن سلمان کے اثر و نفوذ میں اضافے نے آلِ سعود کی سابقہ خاموش ڈپلومیسی کو ایک جارحانہ ڈپلومیسی میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس سے آلِ سعود کی اسلامی ممالک پر تسلط پسندی اور توسیع پسندی کی اندرونی و بیرونی خواہشات سب پر عیاں ہو رہی ہیں۔

بن سلمان کے حکم پر پاکستانی وزیراعظم کی ملائیشیاء اجلاس میں عدم شرکت اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ مستقبل کی اسلامی دنیا آلِ سعود حامی اور آلِ سعود مخالف میں اُسی طرح تقسیم ہو جائیگی، جس طرح امریکی صدر نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ جو ہمارے ساتھ نہیں، وہ دہشت گرد ہے۔ آج آلِ سعود نے بھی یہی روش اختیار کر لی ہے کہ جو اُن کے ساتھ نہیں، وہ مسلمان نہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کی اس تاریخی غلطی پر تنقید کرنے والے بہت کچھ لکھیں گے۔ ملائیشیاء کے وزیراعظم مہاتیر محمد، ترک صدر اردوغان اور ایرانی صدر حسن روحانی نے اس کانفرنس میں سعودی عرب یا او آئی سی کا نام لیے بغیر بعض ایسی بنیادی باتیں کی ہیں، جو امت مسلمہ کے لاکھوں دانشوروں اور سماجی ماہرین کو اپنے پلے باندھ لینی چاہیئے۔ مہاتیر محمد نے یہ بات زور دیکر کہی ہے کہ ملائیشیاء سمٹ کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اسلام، مسلمان اور مسلم ممالک بحران کا شکار اور بے یار و مددگار کیوں ہیں۔؟

مہاتیر محمد کا مزید کہنا تھا کہ شاید ہم ان تمام وجوہات کو سامنے لانے کے قابل نہ ہوں، جن کی وجہ سے ہم غم و غصے اور اضطراب کا شکار ہیں، لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ہم غیر مسلموں سے ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس سمٹ میں صدر ایران اور ترک صدر نے بھی جو تقاریر کی ہیں، اُس میں عالمی سامراجی نظام سے چھٹکارا پانے اور مسلمان ممالک کی باہمی تجارت پر تاکید کی گئی ہے۔ صدر ایران نے امریکی ڈالر سے نجات اور مہاتیر محمد نے نئی مسلمان کرنسی دینار کی بات کی ہے۔ مسلمان ممالک کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور مغرب کی مادی تہذیب و تمدن سے دوری اختیار کرتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ دینا ہوگی۔ بقول حکیم الامت علامہ محمد اقبال؎
قوت افرنگ از علم و فن است،  از همین آتش چراغش روشن است
علم و فن را ای جوان شوخ و شنگ،  مغز می باید، نه ملبوس فرنگ
ترجمہ: مغرب نے علم و فن سے طاقت حاصل کی ہے، اس کا چراغ علم سے روشن ہے۔ اے میرے شوخ جوان علم و عقل سے فائدہ اٹھا، نہ کہ مغربی لباس پہن۔
خبر کا کوڈ : 833839
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش