0
Saturday 21 Dec 2019 00:20

کوالالمپور سربراہی اجلاس، کیا عالم اسلام میں ایک نیا اتحاد طلوع ہو رہا ہے

کوالالمپور سربراہی اجلاس، کیا عالم اسلام میں ایک نیا اتحاد طلوع ہو رہا ہے
تحریر: مہدی پور صفا

آرگنائزیشن فار اسلامک کانفرنس یا او آئی سی عالمی سطح پر اسلامی ممالک کی سب سے پرانی تنظیم تصور کی جاتی ہے۔ یہ تنظیم تشکیل پانے کے بنیادی محرکات میں سے ایک 1969ء میں شدت پسند صیہونی عناصر کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو آگ لگائے جانے کا ناگوار واقعہ تھا۔ اس وقت تک تقریباً 57 اسلامی ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں۔ او آئی سی اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی مصر، سعودی عرب، عراق اور لیبیا جیسے عرب اسلامی ممالک سے شدید متاثر تھی۔ البتہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ ممالک اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جاری جدوجہد میں صف اول شمار کئے جاتے تھے، لہذا یہ امر توقعات کے مطابق تھا۔ مزید برآں، بین الاقوامی سطح پر سیاست کی دنیا میں سب سے زیادہ محبوب سیاسی شخصیات کا تعلق بھی عرب دنیا سے ہی تھا۔ البتہ آج تقریباً نصف صدی گزر جانے کے بعد یہ احساس کیا جا رہا ہے کہ او آئی سی اپنے اصلی اہداف سے بہت دور ہوچکی ہے۔ دوسری طرف اس تنظیم میں بنیادی حیثیت کے حامل عرب ممالک جیسے عراق، شام، لیبیا اور مصر اس وقت اندرونی مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ سعودی عرب اور اس کے حامی بعض دیگر عرب ممالک نے اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کرنے کے ساتھ ساتھ او آئی سی کو اپنی ذاتی جاگیر میں تبدیل کر دیا ہے۔

جب او آئی سی اپنے ہی اہداف کی مخالف تنظیم میں تبدیل ہوگئی
اس مسئلے کا آغاز مغربی ایشیاء خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے آغاز سے ہوا۔ اس وقت سعودی عرب نے محسوس کیا کہ خطے میں جنم لینے والی تبدیلیاں اس کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں، کیونکہ اس اسلامی بیداری کی تحریک کی نوعیت جمہوری تھی، جبکہ آل سعود رژیم کی فطرت آمرانہ اور مستبدانہ ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر خلیجی ریاستوں میں بھی اسی قسم کا احساس پیدا ہوا۔ لہذا سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات، بحرین اور کویت جیسی حکومتوں کو اپنے ساتھ ملانا شروع کر دیا۔ 2013ء میں 25 ارب ڈالر خرچ کرکے مصر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالفتاح السیسی کے ذریعے فوجی بغاوت اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے سعودی عرب کے اقدامات میں سے ایک ہے۔ اس اقدام کے ذریعے سعودی عرب اور اس کے ہم نوا عرب حکمرانوں نے مصر میں اپنی مرضی کا ڈکٹیٹر عوام پر مسلط کر دیا۔ مزید برآں، سعودی عرب نے خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے بہانے بڑے پیمانے پر جارحانہ اقدامات شروع کر دیئے، جن میں عراق اور شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد اور حمایت اور یمن کے خلاف جنگ کا آغاز شامل ہیں۔

داعش کی شکست کے بعد ان کے مراکز سے فاش ہونے والی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس تکفیری دہشت گرد گروہ کو بالکان اور مشرقی یورپ کے بعض ممالک جیسے بلغاریہ اور پولینڈ سے اسلحہ خریدنے کیلئے مالی مدد دیتا رہا ہے۔ خریدے گئے اسلحہ کا زیادہ تر حصہ ترکی اور اردن منتقل ہونے کے بعد تکفیری دہشت گرد گروہوں جیسے النصرہ فرنٹ اور داعش کے سپرد کیا گیا تھا۔ یمن میں منصور ہادی کی حکومت گر جانے کے بعد اسے اقتدار میں واپس لوٹانے کیلئے فوجی جارحیت بھی خطے میں سعودی جارحانہ پالیسیوں کی ایک مثال ہے۔ آل سعود رژیم کی یہ نئی پالیسی ولیعہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی زیر نگرانی جاری ہے اور اس کے ذریعے سابق سعودی فرمانروا کی اعتدال پسندانہ پالیسی کو ترک کر دیا گیا ہے۔

سعودی ولیعہد اپنی اس جارحانہ پالیسی کے ذریعے دیگر عرب ممالک کو اپنے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ 2017ء میں قطر کے خلاف زمینی، سمندری اور ہوائی محاصرہ اسی پالیسی کی ایک کڑی تھی۔ آل سعودی رژیم کی ایک اور خطرناک پالیسی جس میں متحدہ عرب امارات بھی اس کے ساتھ شریک ہے، اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے پر مبنی ہے۔ اگرچہ اب تک رائے عامہ کی شدید مخالفت کے باعث سعودی حکومت اس بارے میں کوئی اہم قدم اٹھانے میں ناکام رہی ہے، لیکن گاہے بگاہے سعودی اور اماراتی حکمرانوں کی اسرائیلی حکام سے ملاقاتوں پر مبنی خبریں منظر عام پر آنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ طور پر ان ممالک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں، جبکہ او آئی سی کی تشکیل کا بنیادی ترین مقصد غاصب اسرائیلی رژیم کا مقابلہ کرنا اور قدس شریف کی حمایت کرنا تھا۔

ایران اور ترکی محاصرہ توڑتے ہیں
خود مختار اسلامی ممالک حتی عرب ممالک کی جانب سے آل سعود رژیم کی ایسی یکطرفہ پالیسیوں کی مخالفت ایک واضح امر تھا۔ شام اور عراق جیسے عرب ممالک تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے پنجوں سے آزاد ہونے کے بعد اب تک بارہا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل بلاک کی جارحانہ اور مستبدانہ پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرچکے ہیں۔ دو اہم اور موثر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ترکی اور ایران نے بھی ہمیشہ سے ایسی صورتحال کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔ ایران اس وقت خطے میں یمنی عوام اور ملک کا دفاع کرنے میں مصروف انصاراللہ تنظیم کا سب سے بڑا حامی ہے اور اس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ 2015ء سے شروع ہونے والی سعودی جارحیت کے خلاف ملک کا دفاع یمنی عوام کا مسلمہ حق ہے۔

جب سعودی عرب اس کے حامی چند عرب ممالک نے قطر کے خلاف شدید پابندیوں اور محاصرے کا اعلان کیا تو ایران کے ساتھ ساتھ ترکی نے بھی اس محاصرے کو توڑنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ ترکی نے ممکنہ سعودی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے فوجی بھی قطر بھیجے۔ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشگی کے بہیمانہ قتل کے بعد سعودی پالیسیوں کے خلاف دنیا بھر میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔ اس وقت یوں محسوس ہو رہا ہے، گویا اسلامی دنیا میں ایک نیا اتحاد تشکیل پانا شروع ہوگیا ہے اور اس کا نکتہ آغاز ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں حالیہ سربراہی اجلاس ہے۔

جب جنوب مشرقی ایشیاء میں سعودی سرمایہ کاری پر پانی پھر گیا
جنوب مشرقی ایشیاء کا خطہ ایسا خطہ شمار ہوتا ہے، جو بے پناہ اقتصادی اور سیاسی مواقع سے سرشار ہونے کے باوجود اسلامی ممالک کی بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا اس خطے کے دو اہم اسلامی ملک ہیں۔ یہ دو ممالک جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اقتصادی اتحاد کے تحت انجام پانے والی اقتصادی ترقی میں اہم اور بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ انڈونیشیا اس وقت آبادی کے لحاظ سے ایشیاء کا سب سے بڑا ملک ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ 4 کھرب ڈالر پر مشتمل جی ڈی پی کی بدولت 2030ء میں دنیا کی دسویں اقتصادی طاقت بن جائے گا۔ انہی مواقع کو دیکھتے ہوئے سعودی فرمانروا ملک سلمان نے 2016ء میں انتہائی پرتپاک انداز میں اس خطے کا دورہ کیا، جس کا نتیجہ سابق وزیراعظم نجیب رزاق کے دور میں ملائیشیا کی جانب سے ایک ایران مخالف بیانیہ جاری ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔

اسی طرح انڈونیشیا اور ملائیشیا میں شیعہ قوتوں کو کچل کر وہابی دینی مدارس کا قیام بھی سعودی فرمانروا ملک سلمان کے اس دورے کے اثرات جانے جاتے ہیں۔ لیکن گذشتہ ایک برس میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں اس خطے میں سعودی عرب کی تمام سرمایہ کاری اور کوششوں پر پانی پھر گیا ہے۔ ملائیشیا میں نجیب رزاق کی جگہ مہاتیر محمد برسراقتدار آئے، جن کی عمر اس وقت 93 سال کے لگ بھگ ہے۔ نجیب رزاق پر سعودی عرب سے رشوت وصول کرنے کا الزام تھا اور انہیں اقتدار سے علیحدگی کے بعد قانونی اداروں نے اپنی تحویل میں لے عدالتی کاروائی کا آغاز کر دیا۔

مہاتیر محمد نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ یمن کے خلاف سعودی عرب کے فوجی اتحاد سے دستبردار ہوگئے۔ اگرچہ ان کا یہ اقدام علامتی تصور کیا جاتا تھا، لیکن اس نے سعودی اتحاد کے جواز کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ دوسری طرف انڈونیشیا نے بھی سعودی عرب کے حمایت یافتہ سلفی گروہوں سے درپیش خطرات کا احساس کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ملک میں سعودی عرب کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کا آغاز کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ 2019ء کے موسم سرما میں انڈونیشیا اور ملائیشیا دونوں نے سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا دورہ کینسل کرا دیا۔ کوالالمپور کے حالیہ اجلاس میں بھی دونوں ممالک کے سربراہان نے سعودی عرب کے مقابلے میں نیا بلاک تشکیل دینے کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی عرب، اسلامی ممالک کا نیا بلاک تشکیل پانے سے خوفزدہ
جب سعودی عرب کے دباو کے نتیجے میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کوالالمپور سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا تو اس نئے بلاک کی تشکیل سے متعلق سعودی حکام کا خوف کھل کر سامنے آگیا۔ ایران، ملائیشیا، ترکی اور قطر کے سربراہان مملکت کا ایک میز پر بیٹھنا سفارتی میدان میں سعودی عرب کیلئے ایک ڈراونے خواب سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح اسلامی ممالک کی تنظیم کی جانب سے سخت بیانیہ جاری کئے جانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ریاض کیلئے کس حد تک دردناک ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ کوالالمپور سربراہی اجلاس میں ملائیشیا کے صدر مہاتیر محمد اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی گفتگو کا اصل موضوع او آئی سی کی عدم افادیت رہا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ابھرتے ہوئے اس نئے اسلامی بلاک نے ثابت کر دیا ہے کہ نہ تو سعودی عرب اسلامی دنیا کا نمائندہ ملک ہے اور نہ ہی دین محمدی ص سے متعلق ریاض کی تعبیر معتبر تعبیر ہے۔

اس اجلاس نے نہ صرف دین مبین اسلام کی دکھائی جانے والی سعودی تصویر پر سوالات اٹھائے بلکہ عراق اور شام جیسے ممالک کو بھی سعودی عرب سے دور کر دیا۔ دوسری طرف اس اجلاس میں شریک ممالک کی صلاحیتیں تمام عرب ممالک کی صلاحیتوں سے بڑھ کر ہیں۔ یہ نیا اتحاد دیگر خود مختار طاقتوں جیسے روس اور چین سے اتحاد قائم کرکے عالمی اور خطے کی سطح پر ایک بھاری وزن میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی صورتحال مغربی طاقتوں کو بھی نہیں بھائے گی، کیونکہ وہ ایران کے مقابلے میں عرب بلاک کی تقویت میں مصروف ہیں۔
خبر کا کوڈ : 833926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش