0
Tuesday 24 Dec 2019 08:26

امریکہ کا زوال اور اس کے عوامل(3)

امریکہ کا زوال اور اس کے عوامل(3)
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

گذشتہ سے پیوستہ
لیکن امریکہ میں رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب بڑھتا جا رہا ہے۔ سیاہ فاموں کو روزگار کے مواقع، تعلیم و تربیت کی سہولیات، فلاح و بہبود حتیٰ عام شہری کے حقوق دینے کے حوالے سے بھی تعصب برتا جاتا ہے۔ سیاہ فاموں کو سماجی، تعلیمی، اقتصادی اور فلاحی حوالے سے دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سجمھا جاتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ کے دور میں تو اس کو پوشیدہ بھی نہیں رکھا جاتا۔ ٹرامپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے عمل و کردار سے تعصب جھلکتا ہے اور ڈونالڈ ٹرامپ کی وجہ سے ملک میں سفید فاموں اور سیاہ فاموں کے درمیان نفرت کی خلیج میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ڈونالڈ ٹرامپ نے جس انداز سے مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف بیانات جاری کیے ہیں، اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

ٹیکساس سے ڈیموکریٹ پارٹی کی ممبر پارلیمنٹ مشیلا جیکسن لی کے مطابق
سیاہ اور رنگین فارم امریکی اداروں کی ایک بڑی تعداد کا یہ کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرامپ کے دور صدارت مین ان کے لیے مشکلات بڑھی ہیں۔ اکتوبر 2019ء کے ایک سروے کے مطابق سروے میں شریک دو تہائی افراد کا یہ کہنا ہے کہ قوم پرستی کے مسئلے کے حل کرنے میں ڈونالڈ ٹرامپ کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں۔ سیاہ فاموں کے علاوہ لاطینی امریکہ کے شہریوں نے بھی اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ڈونالڈ ٹرامپ کے آنے سے ان کی سماجی، اقتصادی اور سلامتی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی فیڈرل پولیس نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2019ء میں لاطینی امریکہ کے باشندوں کے خلاف جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق اس سال جرائم کی شرح میں 21۱ فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لاطینی امریکہ کی سیاسی و سماجی دنیا ڈونالڈ ٹرامپ کے بیانات اور نسل پرستانہ موقف کو ان مشکلات کا بنیادی محرک قرار دیتی ہے۔ بعض سماجی ماہرین اس اندیشہ کا اظہار کر رہے ہیں کہ ڈونالڈ ٹرامپ نے اگر یہی سلسلہ جاری رکھا تو 2020ء کے صدارتی انتخابات میں لاطینی امریکہ کے باشندوں کے خلاف نفرتوں میں مزید اضافہ ہوگا، جس سے ان کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہو جائے گی۔ امریکہ کو ایک اور جس بڑی مشکل کا سامنا ہے، وہ آتشی ہتھیاروں کی آزادانہ خرید و فروخت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 43 فیصد گھروں میں کم از کم ایک آتشی ہتھیار ضرور ہوتا ہے۔ امریکی گھروں میں 301 ملین کی تعداد مین پستول، گنین، ریوالور اور اس طرح کے دیگر آٹومیٹک ہتھیار موجود ہیں۔ امریکہ میں سالانہ 30000 ہزار افراد ذاتی ہتھیار سے ہلاک ہوتے ہیں۔

دوچ ولہ سائیٹ کے مطابق امریکہ میں دو سال میں اتنے افراد ذاتی ہتھیاروں کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے، جتنے ویت نام کی جنگ میں امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ امریکہ میں ہتھیاروں تک آسانی سے رسائی نے ڈیموکریٹس پارٹی کے افراد کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے، لیکن دوسری طرف ری پبلیکنز پارٹی کے افراد اس مسئلے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں، کیونکہ ان کے اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ انتخابی مہم میں ان کی مالی مدد کرتے ہیں۔ امریکہ میں تعلیمی اداروں اور پبلک مقامات پر فائرنگ اور ان سے ہلاکتوں کے واقعات روزمرہ کا معمول ہین، لیکن ایوان نمائندگان یا فیصلہ ساز اداروں میں ری پبلیکنز کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہتھیار خریدنے اور رکھنے کے حوالے سے خاطر خواہ قانون سازی نہیں ہوسکتی۔

امریکہ کی رائے عامہ آتشی ہتھیاروں کی ریل پیل، آزادانہ خرید و فروخت اور ملکیت کے مخالف ہیں، لیکن ڈونالڈ ٹرامپ کی پارٹی اور ان کے اراکین اس مسئلے کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ کو اس وقت ایک اور بڑی خطرناک مشکل کا سامنا ہے، جسے طبقاتی تفریق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں امیر اور غریب کے درمیان طبقاتی فاصلہ روز بروز بڑھ رہا ہے، امریکہ میں 2008ء مین ایک ارب ڈالر سے زائد مالکیت کے حامل افراد کی تعداد 268 تھی 2016ء میں یہ تعداد 608 ہوچکی ہے۔ معروف ماہر اقتصاد جان فیسو کے مطابق سرمایہ دار پہلے سے زیادہ سرمایہ دار ہوچکا ہے اور بہت جلد سرمایہ دار ہوا ہے، یہ مسئلہ اس بات کا باعث بنا ہے کہ امریکہ کے امیر معاشرے میں مصرفیت یعنی کنزیورازم بہت بڑھ گیا ہے۔

اس وقت امریکی معاشرہ کی مجموعی دولت کا 88 فیصد دو طبقات کے ہاتھوں میں ہے جبکہ دوسری طرف 39 ملین امریکی حکومت سے غذائی اشیاء کے طلبگار ہیں۔ گذشتہ ایک عشرے میں امریکی سرمایہ داروں میں دیوالیہ ہونے کا خوف عروج پر پہنچ چکا ہے اور پراپرٹی کا بزنس پہلے والی سطح پر نہیں آسکا ہے۔ گھروں سے محروم افراد کی ایک یونین نے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اس کے مطابق گذشتہ دس برسوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکی معاشرے میں موجود یہ طبقاتی اختلافات سیاسی میدان میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈیمو کریٹس معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے حکومتی حمایت اور مالی اعانت کا مطالبہ کرتے ہیں اور سرمایہ داروں سے ٹیکسوں میں اضافے کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف ری پبلیکنز ٹیکسوں میں کمی اور حکومتی حمایت کو اس مسئلے کا حل قرار دیتے ہیں۔ امریکہ میں ستمبر 2011ء میں جو تحریک چلی تھی، وہ بنیادی طور پر اسی طبقہ بندی کے خلاف تھی اور اس وقت عوام نے نعرہ لگایا تھا کہ سرمایہ دار طبقہ ایک فیصد اور عوام 99 فیصد ہیں۔ اس تحریک کا بنیادی ہدف معاشرے میں عدم مساوت کا خاتمہ تھا۔

امریکہ کے زوال پذیر شعبوں میں ایک انسانی حقوق کا شعبہ بھی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی میں سب سے زیادہ امریکی قیدیوں کے حقوق کی پامالی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق امریکہ میں قیدیوں سے غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق امریکہ کی اکثر جیلوں میں قیدیوں کے حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور بہت سے قیدیوں کو بغیر کسی جرم یا وجہ کے انفرادی جیل میں رکھا جاتا ہے۔ معروف تحقیاتی ادارے پیو کے مطابق دنیا میں موجود تمام قیدیوں میں سے ایک تہائی قیدی امریکہ میں ہیں اور ایک لاکھ افراد میں سے 754 امریکی جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ امریکہ میں قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، وہان اس سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم بھی بڑھ رہی ہے، جو کسی بھی معاشرے کے انحطاط اور حکومت کے زوال کی علامت ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 834066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش