QR CodeQR Code

ملائیشیاء کانفرنس کے خلاف سعودی دباﺅ

23 Dec 2019 13:29

اسلام ٹائمز: او آئی سی اسرائیل کیخلاف 1969ء میں معرض وجود میں آئی تھی۔ آج او آئی سی پر مسلط ممالک ہی اسرائیل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ سعودی عرب نے اسرائیل کیخلاف نبردآزما فلسطینیوں کی تنظیم حماس کو دہشتگرد قرار دے رکھا ہے۔ نیز یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی بہت جلد مصر کی طرح اسرائیل کو کھلے عام ایک جائز ریاست تسلیم کر لیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر او آئی سی کی مزید کیا ضرورت باقی رہ جائیگی۔


تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان میں سعودی سفارت خانے نے اگرچہ یہ بیان جاری کیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان پر ملائیشیاء کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے لیے کوئی دباﺅ نہیں ڈالا، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے سعودی عرب ہی کی خوشنودی کے لیے کانفرنس کا اصل محرک ہونے کے باوجود اس میں شرکت نہیں کی۔ اس سلسلے میں اتنے حقائق سامنے آچکے ہیں کہ اب یہ معاملہ کوئی خفیہ راز نہیں رہا۔ سب سے اہم بیان اس حوالے سے یقیناً ترک صدر رجب طیب اردگان کا ہے، جنھوں نے خود سے یہ اعلان کرنا ضروری سمجھا کہ پاکستان نے کوالالمپور کانفرنس میں سعودی عرب کے دباﺅ کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔ سعودی عرب نے پاکستان سے کہا کہ اگر آپ نے اس کانفرنس میں شرکت کی تو پاکستان کے سٹیٹ بینک میں سعودی عرب نے جو رقم عاریتاً رکھوائی ہے، وہ نکلوا لی جائے گی، نیز سعودی عرب میں موجود پاکستانیوں کو نکال باہر کیا جائے گا اور ان کی جگہ بنگلہ دیشیوں کو بھرتی کر لیا جائے گا۔ صدر اردگان نے اس کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی اس کانفرنس میں عدم شرکت پر اظہار افسوس کیا۔ نیز انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی وجہ سے ایسا دباﺅ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مزید براں وزیراعظم عمران خان کی اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے بھی اظہار افسوس کیا ہے۔

سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ نے بھی اس سلسلے میں بہت سی خبریں دی ہیں، جن سے بلی کے تھیلے میں رہ جانے کا کوئی امکان نہیں بچتا۔ سعودی عرب کے سرکاری اخبارات العرب اور الشرق الاوسط نے ملائیشیاء کانفرنس کو ریاض اور او آئی سی کے خلاف بغاوت قرار دیا ہے۔ اخبارات نے لکھا ہے کہ اسلام پسندوں کا ایک چھوٹا سا گروہ چاہتا ہے کہ او آئی سی جو سعودی عرب کے ماتحت کام کر رہی ہے، کی جگہ لے سکے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے اس میں شرکت نہ کرکے یہ بغاوت ناکام بنا دی ہے۔ العرب نے یہ بھی لکھا ہے کہ مہاتیر محمد کا یہ بیان کہ یہ اجلاس ریاض کے خلاف نہیں، اپنے آپ کو کسی سازش سے مبرا قرار دینے کی ایک کوشش ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب کا اس اجلاس پر بہت سخت دباﺅ تھا، تاکہ او آئی سی کے مقابلے میں کوئی اور تنظیم نہ بن سکے۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے نے بھی رپورٹ دی ہے کہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے مہاتیر محمد سے ٹیلی فون پر کہا کہ اہم اسلامی مسائل کو او آئی سی کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے، جس کا مرکز جدہ ہے۔ دوسری طرف ترک صدر اردگان نے کہا ہے کہ او آئی سی اپنی عدم فعالیت کی وجہ سے مسئلہ فلسطین میں کوئی پیش رفت نہیں کرسکی۔ مسلمان اسی لیے فرقہ واریت اور انتشار کا شکار ہیں۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب کے ذرائع ابلاغ نے کوالالمپور کانفرنس کو مسجد ضرار قرار دیا ہے۔ الشرق الاوسط نے اس نشست کے لیے ”مضر“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اخبار نے قطر پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ خلیجی ممالک کا حصہ ہونے کے باوجود انہیں اہمیت نہیں دے رہا اور ایران و ترکی کے ساتھ روابط کو فروغ دے رہا ہے۔ الشرق الاوسط نے یہ بھی لکھا ہے کہ کوالالمپور کا اجلاس وزیراعظم پاکستان عمران خان کی شرکت نہ کرنے کی وجہ سے انعقاد سے پہلے ہی ناکام ہوگیا۔ ”العہد الجدید“ نے اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر لکھا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزیراعظم ملائیشیاء مہاتیر محمد پر زور دیا تھا کہ وہ کوالالپور کا اجلاس منسوخ کر دیں۔ العہد الجدید نے یہ بھی لکھا ہے کہ محمد بن سلمان اس اجلاس پر شدید غصے میں تھے، انہوں نے مختلف طریقوں سے اسے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے والد پر زور دیا کہ وہ مہاتیر محمد سے رابطہ کرکے کہیں کہ وہ اجلاس منسوخ کر دیں اور اگر وہ تسلیم نہ کریں تو انہیں دھمکی دی جائے۔ جب شاہ سلمان کے کہنے کے باوجود اجلاس منسوخ نہ کیا گیا تو انہوں نے دھمکی دی کہ ہم آپ کو دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیں گے۔ البتہ مہاتیر محمد نے شاہ سلمان سے کہا کہ ملائیشیاء میں اسلامی ممالک کی منعقد ہونے والی نشست سعودی عرب کے خلاف نہیں ہے۔

یاد رہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں چار اسلامی ممالک کے سربراہوں کے علاوہ عالم اسلام کی بہت ممتاز سیاسی، سماجی اور دینی شخصیات نے شرکت کی۔ پاکستان سے ڈاکٹر عطاء الرحمن شریک ہوئے، جو رابطة المدارس العربیہ کے نائب صدر ہیں۔ اس ادارے سے نو سو سے زیادہ مدارس وابستہ ہیں اور یہ جماعت اسلامی کی ایک ذیلی شاخ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے سربراہ مولانا عبدالمالک ہیں، جو جامعہ المنصورہ کے سربراہ ہیں۔ پاکستان سے دوسری اہم شخصیت مشاہد حسین سید کی قرار دی جاسکتی ہے، جو سینیٹر ہیں اور اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی راہنماء ہیں۔ وہ سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے بھی سربراہ ہیں۔ اگرچہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی، تاہم نیویارک میں پاکستان، ملائیشیاء اور ترکی کے سربراہوں نے جس ٹی وی چینل کے منصوبے پر اتفاق کیا تھا، اس کا اعلان اس کانفرنس میں کیا گیا ہے۔ پہلے اعلامیے میں پاکستان کو اس منصوبے کا حصہ قرار نہیں دیا گیا تھا، لیکن تصحیح شدہ اعلامیے میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ ٹی وی چینل انگریزی زبان میں ہوگا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان آہستہ آہستہ کوالالمپور کانفرنس کے فیصلوں کا حصہ بنتا چلا جائے گا۔

علاوہ ازیں ایک نشریاتی ادارے کے مطابق دفتر خارجہ کے اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کوالالمپور سربراہ کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے وزیراعظم آفس نے دفتر خارجہ کی سفارشات کو نظر انداز کیا، جس کی وجہ سے پاکستان کو سفارتی سطح پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس مضمون کے آخر میں ہم اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے کہ او آئی سی سے عالم اسلام عام طور پر مایوس ہوچکا ہے۔ اس پر سعودی عرب کی گرفت نے اس کے اندر سے نہ فقط تحرک اور فعالیت کی روح کو نکال دیا ہے، بلکہ اس کا رخ اس کی تشکیل کے مقاصد سے بھی موڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں ایک عرصے سے یہ فکر موجود ہے کہ او آئی سی اگر فعال نہیں ہوتی تو عالم اسلام کے اہل حل و عقد کو کوئی دوسری تدبیر کرنا چاہیئے۔ او آئی سی اسرائیل کے خلاف 1969ء میں معرض وجود میں آئی تھی۔ آج او آئی سی پر مسلط ممالک ہی اسرائیل کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ سعودی عرب نے اسرائیل کے خلاف نبردآزما فلسطینیوں کی تنظیم حماس کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ نیز یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی بہت جلد مصر کی طرح اسرائیل کو کھلے عام ایک جائز ریاست تسلیم کرلیں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر او آئی سی کی مزید کیا ضرورت باقی رہ جائے گی۔


خبر کا کوڈ: 834366

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/834366/ملائیشیاء-کانفرنس-کے-خلاف-سعودی-دباﺅ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org