0
Monday 23 Dec 2019 21:39

کوالالمپور سمٹ، ایک روشن صبح کی امید

کوالالمپور سمٹ، ایک روشن صبح کی امید
تحریر: سید اسد عباس

یہ بیسویں صدی کے آغاز کی بات ہے کہ جب سعودیہ کے شاہ عبد العزیز اپنے والد عبد الرحمن بن فیصل کے ہمراہ کویت میں تین کمروں کے مکان میں پناہ گزین تھے۔ عالم اسلام آل عبد العزیز، آل خلیفہ، آل ثانی، آل نہیان جو آج عالم اسلام کی قیادت کے مناصب پر فائز ہیں یا اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتے ہیں، کے ناموں سے آگاہ نہیں تھا۔ 1902ء میں عبد العزیز نے ریاض کے گورنر ابن رشید کو ایک چھاپہ مار کارروائی میں قتل کرکے ریاض پر قبضہ کر لیا اور امیر نجد و امام تحریک اسلامی کا خطاب اختیار کیا۔ یہ وہ دور ہے، جب برطانیہ ترکوں کے خلاف رزم آراء تھا، ترک برطانوی حملوں کے سبب اپنے اندرونی معاملات پر زیادہ توجہ نہ دے سکتے تھے۔ اسی عرصے کے دوران شاہ عبد العزیز نے برطانیہ کے ساتھ معاہدہ واران کیا۔ اس معاہدے پر شاہ برطانیہ کی جانب سے خلیج فارس کے چیف پولیٹیکل ریذیڈینٹ سر پرسی کاکس نے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے رو سے: برطانیہ نے ابن سعود اور ان کی اولاد کو نجد کا حکمران تسلیم کر لیا۔ معاہدے کے رو سے بیرونی حملے کی صورت میں آل سعود کو برطانوی اعانت کی یقین دہانی کروائی گئی۔ اس کے عوض ابن سعود نے تسلیم کیا کہ وہ اپنا علاقہ یا اس کا کچھ ظاہری حصہ برطانیہ کی مرضی کے بغیر کسی طاقت کے حوالے نہ کریں گے۔ طے پایا کہ آل سعود اپنے علاقے میں حاجیوں کے قافلے کے راستے کھلے رکھیں گے۔ ابن سعود نے وعدہ کیا کہ وہ کویت، بحرین اور ساحلی امارات کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

برطانیہ سے اس معاہدے کے عوض آل سعود کو ساٹھ ہزار پونڈ سالانہ امداد ملنے لگی، جو بعد میں بڑھ کر ایک لاکھ پونڈ ہوگئی۔ علاوہ ازیں برطانیہ کی جانب سے شاہ عبدالعزیز کو تین ہزار رائفلیں اور تین مشین گنیں بھی تحفے میں ملیں۔ (عبد القیوم، مفتی، تاریخ نجد و حجاز، مطبوعہ رضا پبلیکیشنز مین بازار داتا صاحب لاہور، ص210)
1914ء میں حجاز کے گورنر شریف مکہ نے برطانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے ترک سلطنت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا اور اپنے آپ کو حجاز کا بادشاہ قرار دیا۔ شاہ عبد العزیز اس اعلان پر خاموش رہا۔ 1914ء میں شاہ اہل بادیہ کے نام فرمان جاری کیا کہ وہ اس کی تحریک اخوان میں شامل ہو جائیں۔ ترک سلطنت کے خاتمے کے بعد ابن سعود نے 1924ء میں حجاز پر چڑھائی کر دی اور 1925ء میں ابن سعود، شریف مکہ کے فرار کے بعد پورے جزیرہ نمائے عرب کا بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گیا۔ 1934ء میں جزیرہ نمائے عرب کو سعودی عرب کا نام دیا گیا اور شاہ عبد العزیز السعود اس مملکت کا حکمران بنا۔

ترکوں کے خلاف عربوں کے اس قیام کو انگریز مورخ اسٹینلے لین پول ان الفاظ میں تحریر کر تا ہے: عرب میں انگریزوں نے ایک دوسرے طریقہ سے نمایاں کامیابی حاصل کی۔ کرنل لارنس کی برسوں کی خفیہ کوششیں آخر کار بار آور ہوئیں اور عرب برطانیہ کی سرپرستی اور عرب نیشنلزم کے جوش میں ترکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔(سٹینلے لین پول، سلاطین ترکیہ ، ص 486-87) یہ ہے خادم الحرمین، نجیب الطرفین، شاہوں کے شاہ عبد العزیز اور ان کے خاندان کے اقتدار کی کہانی، انگریزوں نے آل سعود کی طرح خلیج کی دیگر ریاستوں میں مختلف قبیلوں کے وفاداروں کو ریاستیں دیں، جو آج تک ان کے پاس ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے پروردہ یہ شاہ عالم اسلام کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے اور عالم اسلام کا کوئی بھی مسئلہ ان کی اجازت یا مرضی کے بغیر حل ہونا ممکن نہ رہ گیا۔

مسئلہ فلسطین ہو یا مسئلہ کشمیر، افغانستان کی جنگ ہو یا بوسنیا و چیچنیا کے مسلمانوں کی حالت زار، عالم اسلام میں موجود غربت و پسماندگی ہو یا ہماری سائنسی تنزلی، دشمن قوتوں کی ہمارے خلاف میڈیا کمپین ہو یا ہم پر چڑھائی، بادشاہ سلامت کے حکم کے بغیر ان موضوعات پر بات کرنا بھی جرم قرار پایا۔ جب بادشاہ سلامت کوئی اجلاس بلائیں تو پوری امت مسلمہ پر واجب تھا کہ پا برہنہ اس میں شرکت کرے اور اختلاف بالکل نہ کرے، کیونکہ اس کا یہ اختلاف سعودی شاہ سے اختلاف نہیں بلکہ خلیفۃ المسلمین سے اختلاف تصور کیا جائے گا۔ بادشاہ سلامت کی خدمت، ان کا تحفظ، ان کی حکومت کا استحکام تمام مسلمانوں پر لازم قرار پایا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک امت اس اندھی دھونس اور جبری حاکمیت کو قبول کرتی، کسی نہ کسی دن تو عالم اسلام سے اس برطانوی راج کے خلاف آواز بلند ہونی تھی۔ پہلے یہ آواز سعودیہ کے قرب و جوار سے بلند ہونی شروع ہوئی۔ یمن نے اپنے چھوٹے وجود کے ساتھ سعودی حاکمیت کا انکار کیا، شام نے عرب لیگ سے نکلنے کو برداشت کیا، آخری جھٹکا قطر نے دیا۔ اب دنیا کے مسلم ممالک میں سے چند نسبتاً طاقتور ممالک ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہو رہے ہیں۔ جس کی سعودیہ کو خاصی تکلیف ہے۔

کوالالمپور سمٹ بنیادی طور پر مسلم امہ کے ان ارمانوں کا اظہار ہے، جو او آئی سی کے قیام کے وقت مسلمانوں کے دلوں میں موجزن ہوئے، تاہم کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ یہ سمٹ او آئی سی کی عدم فعالیت اور مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے میں مسلسل ناکامی کا حل نکالنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر او آئی سی اپنے اہداف اور مقاصد کو حاصل کر رہی ہوتی تو کسی بھی ایسے فورم کی تشکیل ایک لایعنی عمل تصور کیا جاتا، تاہم آج کوالالمپور سمٹ کو عالم اسلام میں ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سعودیہ اور امارات جو اس سمٹ کو کبھی مسجد ضرار قرار دیتے ہیں اور کبھی اسے روکنے کے لیے مختلف حیلے بہانے آزما رہے ہیں، کو یہ باور کر لینا چاہیئے کہ عالم اسلام ان کی رعیت نہیں ہے۔ ان کی سیادت کا بھرم جو فقط حرمین شریفین کی خدمت کی وجہ سے تھا، اب زیادہ دیر قائم نہیں رہ پائے گا۔

ملائیشیاء، قطر اور ترکی ایران نہیں ہیں، جن پر فرقہ واریت کا الزام لگا کر بھولے مسلمانوں کو مزید بدھو بنایا جائے۔ یہ عالم اسلام کی وہ آواز ہیں، جو گذشتہ نصف صدی سے آپ کے ظاہری ٹھاٹھ باٹھ اور تقدس تلے دبی ہوئی ہے۔ یہ آواز مہاتیر محمد اور سمٹ کے دیگر قائدین کی قیادت میں مزید قوت پکڑے گی اور جلد یا بدیر تمام مسلم ممالک اس کاروان کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ فورم ان شاء اللہ مسلم امہ کے بہت سے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک اہم فورم بنے گا، جیسا کہ اس کے مقاصد میں تحریر ہے: ’’مسلم دنیا کو درپیش مسائل کی شناخت اور حل میں کردار ادا کرنا‘‘
خداوند کریم کوالالمپور سمٹ کے رکن ممالک کو اس سمٹ کے اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ نادان دوست جو اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں، کو ہوش کے ناخن عطا فرمائے۔(امین)
خبر کا کوڈ : 834427
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش