0
Monday 23 Dec 2019 22:13

شہریت کا نیا ترمیمی بل اور ہماری ذمہ داری

شہریت کا نیا ترمیمی بل اور ہماری ذمہ داری
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

شہریت کے قانون کے ترمیمی بل کے ایوان زریں و ایوان بالا میں پاس ہونے کے بعد جیسے ہی صدر جمہوریہ نے اس پر دستخط کر کے اس قانون کو منظوری دی، ویسے ہی پورے ہندوستان بھر کے سیکولر و انصاف پسند حلقے میں ایک بےچینی کی لہر دوڑ گئی اور ہر طرف سے ملک و آئین سے محبت کرنے والے حلقوں  میں اسکے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں، دھیرے دھیرے  مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے، سیکڑوں لوگ مظاہرین پر پولیس کے بے رحمانہ لاٹھی چارج سے زخمی ہیں۔1 سیکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو ابھی تک کم از کم نو لوگ جانبحق ہو چکے ہیں۔2 اے این آئی "نے جانبحق ہونے والوں کی تعداد ۱۰ بتائی ہے۔3 جبکہ اتر پردیش کے ڈی جی پی نے اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ 4 پولیس نے گرچہ چار سے زیادہ جمع ہونے والوں پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ ۱۴۴ لگا دی ہے لیکن مظاہروں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔5

اور واضح طور پر مظاہرین کا غم و غصہ ثابت کر رہا ہے کہ ہندوستانی عوام نے بری طرح تقسیم کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے حق کی آواز بلند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔6 اور وہ حکومت کی جانب سے مسلسل رکاوٹوں حتٰی نیٹ کی بندش کے باجود 7 اپنے حق  کی خاطر لڑنے کے لئے پر عزم ہیں۔ اس قانون کو لے کر جہاں عام طور پر بےچینی پائی جا رہی ہے اور مظاہروں کی بڑھتی تعداد اس بات کا بین ثبوت ہے کہ کس طرح لوگ اس قانون کو اپنی حق تلفی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہیں حکومت کی جانب سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ یہ قانون کسی کے خلاف نہیں ہے جبکہ عملی طور پر ہو وہی رہا ہے جسکے تحت ایک خاص مذہب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اب یہ مسلمانوں کے اوپر ہے کہ وہ کس طرح سے احتجاج کریں کہ انکا حال میانمار و برمہ کے روہنگیائی مسلمانوں جیسا نہ ہو۔

آج جبکہ ہر طرف سے ہر مذہب کے لوگوں کی حمایت مسلمانوں کو مل رہی ہے تو ضروری ہے کہ ایک مضبوط حکمت عملی تیار کی جائے اور  منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھا جائے اس لئے نہیں کہ قانون ہمارے خلاف ہے اس لئے کہ قانون عدل و انصاف کے خلاف ہے ملک کے بنیادی آئین کے خلاف ہے انسانی اصولوں کے خلاف ہے، ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ اس قانون کے خلاف پر زور احتجاج کریں ورنہ آنے والی نسلیں کبھی ہمیں معاف نہیں کریں گی، اس لئے کہ جو کچھ ہم بوئیں گے اس کی فصل ہماری آنے والی نسلیں کاٹیں گی، کیا ہم انکے لئے ذلت و خواری کی میراث چھوڑ کر جائیں گے؟ کہ وہ کہیں ہمارے اجداد نے اگر وقت پر آواز بلند کر دی ہوتی تو آج اتنی ذلت و خواری نہ ہوتی یقینا ہم اپنی نئی نسل کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیں گے، ہماری زندگی تو گزر گئی انکی زندگی کی بہاریں باقی ہیں، ہم ان بہاروں کو اپنی خاموشی سے خزاں میں ہرگزنہیں بدلنے دیں گے۔

کیا ہمارا احتجاج بغاوت ہے:
ہرگز کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آنی چاہیئے کہ ہمارے اعتراض کو بغاوت کا نام دیکر ہمیں مجرم قرار دے دیا جائے گا، اس لئے  احتجاج کا کیا فائدہ الٹا نقصان ہی ہوگا ایسا نہیں ہے ہم اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور ہرگز بغاوت نہیں کر سکتے اسی بنا پر کوئی ہرگز یہ نہ سمجھے کہ ہم وطن و ملک کے کسی قانون کے خلاف  احتجاج بلند کر رہے ہیں ہرگز ایسا نہیں ہے ہمارا احتجاج ہی لاقانونیت کے خلاف ہے ہم اپنے  وطن عزیز سے محبت کرتے ہیں، اسکے آئین سے ہمیں پیار ہے اسکی مٹی میں ہمارے بزرگوں کی یادیں وابستہ ہیں، ہم اس سرزمین پر پھلے پھولے اور اسی کی خاک میں سو جائیں گے، ہم رہیں نہ رہیں یہ ملک رہے گا اور ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب سے پہچانا جائے گا، اس ملک کی پہچان گاندھی جی کے رہنما اصول ہیں انکے انسانی اصولوں سے مولانا ابو الکلام آزاد و بھیم صاحب امبیڈکر کے  افکار سے یہ ملک دنیا میں پہچانا جاتا ہے، لیکن افسوس کے کچھ خاص نظریہ کے حامل افراد مسلسل ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں رچا رہے ہیں اور اس ملک کو ٹکڑے ٹکرے کر دینے کے درپے ہیں۔

وہ ملک جسکی بقا و سالمیت  کے لئے ہمارے بزرگ پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے لیکن انہوں نے غیروں کی غلامی کو قبول نہیں کیا وہ ریشمی رومال کی تحریک ہو یا آزادی کی لڑائی کے دیگر محاذ، ہر مقام پر ہمارے بزرگوں نے ملک و قوم کی خاطر قربانیوں کے جاوداں نقوش چھوڑے ہیں۔ کل ہمارے بزرگوں نے جس آزادی کو حاصل کیا تھا کچھ لوگ پھر اسے غلامی سے بدلنا چاہتے ہیں تو ہم کیسے خاموش تماشائی بنے رہ سکتے ہیں۔ افسوس! آج حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک غلامانہ سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ملک ایک دوسرے طرز کی غلامانہ سوچ کو اختیار کرتا جا رہا ہے، اور واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب اسرائیل اپنے تحفظ کے لئے جو کچھ ضروری ہے انجام دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کیا یہ غلامانہ سوچ نہیں ہے؟ کیا اسرائیل کو ماڈل بنا کر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے؟ وہ اسرائیل جس کے وجود کو گاندھی جی نے مرتے دم تک تسلیم نہیں کیا تھا لیکن بعد میں ۲۹ جنوری ۱۹۹۲ء کو گاندھی جی کے اصولوں سے منحرف ہوتے ہوئے اس وقت کی حکومت نے اسرائیل سے رسمی تعلقات قائم کئے۔8 اور ان میں مسلسل پیشرفت ہوتی گئی۔9

اور اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اسرائیل کے فکر و عمل کو ایک آئیڈیل کے طور پر پہچنوایا جا رہا ہے۔ ایسے میں کیا یہ احتجاج نہیں ہونا چاہیئے کہ آج کیا ہو گیا ہے کہ جس ملک کو گاندھی جی نے مرتے دم تک تسلیم نہیں کیا ہمارا ہندوستان  اسکی فکر و عمل کو اختیار کرنے پر کیوں تلا ہے جبکہ اسکے نقصانات واضح ہیں۔10ان حالات میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام محبان وطن خاص کر ملک کے تمام مستضعفین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام افراد کی شدید مذمت کریں، جو ملک و قوم کو ہوس اقتدار میں نابود و برباد کرنا چاہتے ہیں جو ہزاروں سالہ تہذیب کی بنیادوں کو اکھاڑ پھیکنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ برسوں سے ساتھ رہتے آئے لوگوں کے درمیان مذہبی منافرت کی دیواروں کو مسلسل اونچا کرتے جا رہے ہیں۔

ملک کا اپنی ڈگر سے ہٹنے کا خطرہ:
ان ہونے والے تمام مظاہروں کو لیکر ہمیں سنجیدہ ہونا ہوگا یہ مظاہرے بہترین موقع ہیں، ملک کو اپنی روایتی ڈگر پر واپس لانے کیلئے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم  ایسے عناصر کو لوگوں تک پہچنوائیں جو بظاہر ملک کی ترقی کا نعرہ دے رہے ہیں لیکن ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اسے اپنی ڈگر سے ہٹانا چاہتے ہیں، ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو بتائیں اگر یہ ملک اپنی ڈگر سے ہٹ گیا تو ہر طرف بڑی تباہی آ جائے گی اور شہریت کا ترمیمی بل درحقیت اس ملک کو اسکی ڈگر سے ہٹانے کا ایک اور واضح اعلان ہے، یوں تو اس سے پہلے بھی ایسے اقدامات ہوئے تھے جس سے ملک کی جمہوریت پر حرف آیا تھا لیکن یہ قدم اتنا خطرناک ہے کہ جسے ہر باضمیر محسوس کر رہا ہے یہ وہ قانون ہے جسکے سلسلہ سے ہندوستان کی خفیہ ایجنسیز نے بھی متوجہ کیا ہے کہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا جا سکتا 11ہے۔   اس کے باجود تمام تر ملکی امنیت و سلامتی کے خدشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس بل کو آنا فانا پاس کرا دیا گیا۔ اگر آپ ایوان زریں و ایوان بالا کی کاروائیوں کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ کتنی عجلت سے کام لیا گیا ہے، رات گئے تک ایوان بالا میں بحث ہونا راتوں رات اسکی منظوری ملنا 12 اور فورا صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد اسکو قانونی شکل دے دینا اپنے آپ میں کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔

دال میں کچھ کالا ضرور ہے:
 جس انداز سے یہ بل پاس ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہر ایک آزاد ضمیر انسان کے ذہن میں شکوک و خدشات کا انبار لگا ہوا ہے اور یہی بار بار سمجھ میں آ رہا ہےکہ کچھ تو گڑ بڑ ضرور ہے، دال میں کچھ کالا نہ ہوتا تو اس بل کو پاس کرانے میں کونسی آفت آ رہی تھی۔ ابھی اور بھی بنیادی مسائل باقی ہیں ہندوستان بے روزگاری سے جوجھ رہا ہے مسلسل شرح نمو میں گراوٹ آرہی ہے،13 ایسے میں اس بل کو پاس کرایا جانا   اس سوال کو جنم دیتا ہے کہ اگر سب کچھ آئین ہند و دستور ہند کے مطابق ہو رہا تھا تو اسکے پاس کرانے میں اتنی تیزی کیوں؟
آئین کی رو سے دیئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف:
مظاہروں کے ساتھ ہماری ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ لوگوں کو بتائیں اس ترمیمی قانون کی مخالفت کا ایک بڑا سبب آئین کا تحفظ ہے چونکہ یہ ترمیمی بل بڑے خطرناک انداز میں آئین کو چوٹ پہنچا رہا ہے، اور اگر ہمارا آئین ہی محفوظ نہ رہا تو ملک کا کیا ہوگا، جسکی لاٹھی اسکی بھینس  کا معاملہ ہو جائے گا اور ایک جنگل راج کا سماں ہوگا، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اس بات پر متوجہ کریں کہ ہمارا مظاہرہ آئین کے تحفظ کے لئے بھی ہے، چونکہ یوں تو یہ ترمیمی قانون مختلف زاویوں سے ہندوستان کے آئین کے خلاف ہے ہی ان بنیادی حقوق کے خلاف بھی ہے جو آئین میں ہندوستان  کے دستور سازوں نے اپنے باشندوں کو دیئے ہیں۔

اس لحاظ سے یہ محض دفعہ چودہ کے ہی خلاف نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۱۳/ ۱۴ /اور ۱۵ / اور ان تمام ہی دفعات کے خلاف ہے جہاں لوگوں کے بنیادی حقوق  کے ساتھ واضح طور پر شہری حقوق کو بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ شہریت کا حالیہ ترمیمی بل واضح طور پر بنیادی آئین کی اس شق کے خلاف ہے جس میں صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا جبکہ اس بل کی بنیاد ہی مذہب کے اوپر ہے۔ علاوہ از ایں ہندوستان کے آئین کی  دفعہ 13میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی یعنی اگر آئین میں کسی طرح کی ترمیم ہوتی ہے یا قانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوتا ہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جبکہ شہریت ترمیمی بل شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے اس لحاظ سے  بھی یہ قابل قبول نہیں ہے۔

ماہرین قانون کی طرف رجوع:
ان مظاہروں کے ساتھ ساتھ ہم سب کے لئے ضروری کے ماہرین قانون کی طرف رجوع کریں اور احتجاج کے ساتھ ساتھ قانونی چارہ جوئی بھی کرتے رہیں جیسا کہ کچھ افراد نے ہندوستانی عدلیہ سے رجوع کیا ہے، ہم سب پر لازم ہے کہ جو ہو سکتا ہے اس کیس کی پیروی کے لئے جو بن پڑے انجام دیں اور اپنا پر زور مطالبہ عدالت کے سامنے رکھیں کہ بنیادی دستور العمل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر اس بل پر فوری طور پر روک لگائی جائے تاکہ ہندوستان کی عدلیہ کی مستقل ساکھ پر کوئی حرف نہ آئے۔ اسی کے ساتھ ہمارے لئے ضروری ہے کہ جہاں جہاں تک آواز پہنچا سکتے، وہاں اپنی آواز پہنچائیں۔

صدر جمہوریہ ہند کو مکتوب:
یوں تو جو ہو چکا وہ ہو ہی چکا ہے لیکن ہم جہاں قانونی و سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں وہیں ان راستوں کو ہرگز نہ ترک کریں، جن کے ذریعہ ہم اپنی آواز کو ان مقامات تک پہنچا سکتے ہیں، جنکے پاس یہ اختیار ہے کہ چاہیں تو بل پر نظر ثانی کر کے اس کے نفاذ کو ملتوی کر دیں، جنکے دستخط کے بغیر اس بل کو نافذ نہیں کیا جا سکتا، اور ایسی شخصیت ہندوستان کے قانون کی نظر میں صدر جمہوریہ کی ہے، جنہوں گرچہ اس پر دستخط کر دیئے ہیں لیکن ہم ان تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں، لہٰذا  مناسب ہے کہ صدر جمہوریہ کو بھی مکتوب لکھ کر اس لاقانونیت کے رواج پر متوجہ کریں، جو ہندوستان کی سالمیت کے لئے ایک بڑ خطرہ ہے،  وہ ہماری بات پر دھیان دیں نہ دیں لیکن ہمیں نتیجہ سے قطع نظر یہ کام کرنا چاہیئے چونکہ ہم جو بھی عمل کریں گے وہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔

لہٰذا ضروری ہے کہ اس حساس موقع پر ملک کے صدر جمہوریہ سے درخواست کریں کہ اس بل کے بارے میں نظر ثانی کریں کہ جس بل پر انہوں نے دستخط کئے ہیں یہ چیز ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہو جائے گی، جس طرح ہمارا ان سے کیا گیا مطالبہ محفوظ ہو جائے گا، اسی طرح  نا کا یہ عمل بھی محفوظ ہو جائے گا  کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، دیتے بھی ہیں یا نہیں؟   کل کو کوئی بھی یہ سوال کر سکتا ہے کہ ایک بل جب بنیادی آئین کے خلاف تھا مہاتما گاندھی اور امبیڈکر صاحب کے ترسیم کردہ ملکی خطوط کے برخلاف تھا تو ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے صدر کی جانب سے اسے منظوری کیوں کر ملی، اور اگر آپ کو یہ بل ملک کے آئین کے خلاف نظر آ رہا تھا تو آپ نے اس کی مخالفت میں کیا کچھ کیا، کس حد تک قانونی راہوں پر چلے کتنا اپنے آئینی اختیار کو استعمال کیا۔

ہندوستانی عدلیہ سے درخواست:
ایک بڑی مشکل جس میں یہ ملک گرفتار ہے یہ ہے کہ کچھ لوگ پورے ملک میں ایک ہی آواز سننا چاہتے ہیں انہیں اپنی فکر کے خلاف فکر برداشت نہیں اپنی آواز کے خلاف آواز برداشت نہیں اپنے خیال سے مختلف خیال برداشت نہیں اور اگر کوئی مختلف بات  مختلف فکر مختلف خیال پیش کرتا ہے تو بہت ہی سختی کے ساتھ انتظامیہ اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے جیسا کہ حال ہی میں ہندوستان کے مختلف شہروں اور خاص کر دہلی میں جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں دیکھنے کو ملا  کہ کس بے دردی سے مظاہرین کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی اور عجیب بات یہ ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے مظاہرین کی آواز کو دبانے کے اس عمل کو صحیح بھی قرار دیا گیا ہے۔

ایسے میں ہم ہندوستان کی عدلیہ سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ شہریت بل کی مخالفت میں ہر کھلنے والی زبان کو تحفظ فراہم کیا جائے، اسلئے کہ جو بھی اسکے خلاف بول رہا ہے وہ اسکی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے نہیں بول رہا ہے بلکہ اس کے آئین ہند کے خلاف ہونے کی بنیاد پر بول رہا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جسے  بنیادی دستور میں تسلیم کیا ہے اور ہندوستانی آئین کی دفعہ  ۱۹ کے تحت جہاں پر آزادی کی چھ اقسام کو ذکر کیا گیا ہے وہاں واضح طو پر اظہار رائے کی آزادی اور بغیر اسلحے کے اجتماع کی آزادی کی قانونی حیثیت کو مانا گیا ہے۔ چنانچہ جب ہم آزادی بیان اور اسی سے جڑے غیر مسلح اجتماع کو بنیادی دستور میں دیکھتے ہیں تو ملتا ہے کہ دفعہ 19 میں شہری حقوق کے تحت چھ آزادیوں کی ضمانت دی گئی ہےچھ قسم کی یہ آزادیاں حسب ذیل ہیں:
۱۔ آزادی اظہار رائے
۲۔ بغیر ہتھیار اجتماع کی آزادی
۳۔ آزادی تنظیم
۴۔ ہندوستان میں سفر کی آزادی
 ۵۔ ہندوستان  کے کسی بھی خطے میں سکونت کی آزادی
۶۔ پیشہ، کاروبار یا تجارت کی آزادی

یہ تمام آزادیاں دفعہ 19 میں مذکور ہیں اور کچھ مناسب پابندیوں کے تابع ہیں، جنہیں ریاست کی جانب سے ان پر نافذ کیا جا سکتا ہے۔ آزادی کی جس قسم کو محدود کرنا مقصود ہو اس کے مطابق پابندیوں کو نافذ کرنے کی بنیادیں مختلف ہوتی ہیں، ان میں قومی سلامتی، عوامی نظم و نسق، شرافت اور اخلاقیات، توہین عدالت، جرائم پر اکسانا اور بدنامی شامل ہیں اب اگر کوئی عوامی نظم و نسق کو دھیان میں رکھتے ہوئے قومی سلامتی کا لحاظ کرتے ہوئے شرافت و اخلاق کے اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے احتجاج کر رہا ہے تو کیوںکر اسے روکا جا سکتا ہے، اگر کوئی اپنی زبان کھول رہا ہے اور آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس لئے کھول رہا ہے کہ کوئی بننے والا قانون آئین کے خلاف ہے تو کیونکر اسکی زبان بند کی جا سکتی ہے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے لاقانونیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ان لوگوں پر حملے کئے جا رہے ہیں جو اپنی زبان کھول رہے ہیں اور ان لوگوں کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی ہےجو  آئین ہند کے تحفظ کی خاطر اپنی آواز لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ایسے میں عدلیہ سے گزارش ہے وہ ہمیشہ کی طرح قانون کی بالا دستی کی خاطر  اظہار رائے کہ ساتھ بغیر اسلحے کے اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنائے اور اس بات کی چھان بین بھی کرے کہ بغیر اسلحے کے ہونے والے اجتماع پر اسلحوں کے دہانوں کو کس کے آرڈر پرکھولا جا رہا ہے اور بے گناہوں پر لاٹھیاں ڈنڈے اور گولیاں برسانے والے کون لوگ ہیں کیا انکا تعلق پولیس سے ہے یا پولیس کے لباس میں کچھ غنڈے ہیں جو ملک کے قانون سے کھلواڑ کر رہے ہیں۔

مقام افسوس:
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے قانون کی بالادستی کی حمایت میں ہونے والے احتجاج کو ملک کی سلامتی کے خلاف بتاتے ہوئے پولیس پر حملہ بتاتے ہوئے بری طرح کچلنے کی کوشش میں آئین ہند و وقار ہند کو مجروح کیا، اور ایک بار پھر ان لوگوں کی یاد تازہ کردی جنہوں نے اس ملک پر حکومت کرتے ہوئے بس اپنے اقتدار سے مطلب رکھا تھا، نہ انہیں کسی کے احتجاج سے مطلب تھا نہ کسی کی فریاد سنائی دیتی تھی، وہ طاقت کے نشے میں اتنے دھت تھے کہ اس ملک کے باشندوں کے ہاتھ اوپر کرا کر انکی پریڈ کرایا کرتے تھے اور آج ایک بار پھر ایسا ہی دیکھنے میں آیا کہ پولس نے جامعہ ملیہ کے طلبا کے ہاتھ اوپر کرا کر انکی پریڈ کرائی، کل انگریزوں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ اوپر کرا کے انکی پریڈ کرائی تھی اور آج آزاد ملک کی آزاد پولیس نے وہی کام اپنے ہی مستبقل کے سرمایہ یعنی طلباء کے ساتھ کیا، اور ان کے ہاتھ مجرموں کی طرح اوپر کروا دیئے، بالکل ویسے ہی جیسے کل انگریزوں نے آزاد ہندوستانیوں کے کرائے تھے۔

بس فرق اتنا ہے کہ کل انگریز گھروں میں بلا اجازت گھس جاتے تھے آج کے نام نہاد ہندوستانی قانون کے رکھوالے  تعلیمی اداروں میں گھس رہے ہیں، دہلی کی جامعہ ملیہ کا واقعہ ایک بار پھر یہ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کس سمت جا رہا  ہے۔ یونیورسٹیز میں پڑھنے والے طلباء ہندوستان کا مستقبل ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے اپنے ہی مستقبل  کے سرمایہ کو تاراج کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے ہیں، افسوس کا مقام ہے کہ اب علمی درسگاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں تو عام مقامات کا کیا ہوگا، ہم سب کے سامنے ایک سخت و دشوار مرحلہ ہے ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بھلا کر  اپنے حقوق کے لئے مل جل کر  آگے بڑھیں اگر ہم متحد ہو کر آگے بڑھیں  تو یقینا  ملک کے دشمنوں کو انکی سازشوں میں ناکام بنا دیں گے۔

جاگنے کی ضرورت:
آج ہم سب کو جاگنے کی ضرورت ہے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ شہری ترمیمی بل کیوں ہمارے خلاف ہے؟ کسی کے بہکاوے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے خاص طور پر ان لوگوں کی اپیلوں کو نظر انداز کرنا ضروری ہے جو مسلسل ہمارے خلاف کام کر رہے ہیں، اور مسلسل یہ اپیلیں بھی کر رہے ہیں کہ یہ کام کسی مذہب کے خلاف نہیں ہے مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ایک طرف تو ایسی باتیں ہیں دوسری طرف عملی طور پر مسلمانوں کو ملک سے باہر کا راستہ دکھانے کی کوششیں واضح ہیں، لہٰذا ہم سب کو ان تمام لوگوں کی آواز کو مضبوط کرنا ہوگا جو حق و انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے بعد بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، چنانچہ آسام سے بنگال تک اس کی پر امن مخالفت ہو رہی ہے۔ 14 جب اس مرحلے میں غیر ہمارے ساتھ کھڑے ہیں تو ہم اپنے لئے کیوں نہیں کھڑے ہو سکتے؟ امید کہ ہم سب مل جل کر قوم و ملک کے آئین کو بچانے کے لئے اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے آگے بڑھیں گے، اپنی خطیر ذمہ داری کو سمجھیں گے اور  ملک کے دوست نما دشمنوں کو بے نقاب کرکے انکے اصلی چہروں کو ملک کی عوام کے سامنے لے کر آئیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 834429
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش