0
Tuesday 24 Dec 2019 10:05

اندھیر نگری چوپٹ راج

اندھیر نگری چوپٹ راج
اداریہ
دو اکتوبر 2018ء کے دن استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں ایک ایسا اندوہناک سانحہ پیش آیا، جو سفارتی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے، کسی دوسرے ملک میں سفارت خانے کو ایک قتل کی واردات کے لیے استعمال کرنا ایک انوکھی واردات تھی۔ عالمی سفارتی پروٹوکول کے مطابق دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود کسی ملک کا سفارت خانہ یعنی جس حدود اربعہ میں اُس سفارت خانے کی چار دریواریں ہوتی ہے، وہ متعلقہ ملک کی سرزمین تصور کی جاتی ہے۔ یہی وجہ کہ جب کوئی شخص کسی ملک کے سفارت خانے میں پناہ لیتا ہے تو جس ملک کی سرزمین پر وہ سفارت خانہ موجود ہوتا ہے، اُسے بھی اس سفارتخانے کے اندر مداخلت کا حق نہیں ہوتا۔ دو اکتوبر 2018ء کو معروف صحافی اور آلِ سعود حکومت کا مخالف تجزیہ نگار جمال خاشقجی سعودی عرب کے سفارت خانے کے اندر داخل ہوتا ہے اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اُس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بڑے بڑے بریف کیسوں میں ڈال کر غائب کر دیا گیا ہے۔

جمال خاشقجی صحافی تھا اور اس کے سعودی سفارتخانے میں داخلے کی خبر میڈیا تک آگئی تھی، وگرنہ اس ماہرانہ واردات کو دیکھ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی سفارتخانہ اس کام میں خصوصی مہارت رکھتا ہے اور سعودی سفارتکاروں کو دیگر سفارتی امور سکھانے کے ساتھ ساتھ اس کام کی بھی تربیت دی جاتی ہے کہ مخالفین کو سفارتخانے بلا کر کیسے قتل کیا جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہو۔ جمال خاشقجی کا قتل انجام پایا، دنیا بھر میں شور و غل برپا ہوا، ترکی نے بھی بڑا بھرپور اسٹینڈ لیا اور آلِ سعود نے بھی بن سلمان کو اس قتل سے جدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ابتدائی تفتیش کے کے بعد ہی یہ بات سامنے آگئی تھی کہ اس بہیمانہ قتل میں سعودی ولی عہد بن سلمان کا ہاتھ ہے۔ بن سلمان امریکی ٹی وی پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے اس قتل کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ لیکن پیٹرو ڈالر کا کمال دیکھیں کہ جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں جو فیصلہ سامنے آیا ہے، اُس میں بن سلمان اور قتل میں ملوث بن سلمان کے قریبی ساتھی سعود القعطانی کو باعزت بری کر دیا گیا، لیکن پانچ مجرموں کو سزائے موت سنا دی۔

اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر اگنیس کیلا مارڈ سرعام کہہ رہی ہیں کہ اس قتل میں محمد بن سلمان ملوث ہے، لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگی۔ عالمی سطح کے اس قتل پر انصاف کا یہ قتل اور بن سلمان کو بری کرنے کا عمل اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ دنیا میں جنگل کا قانون نافذ ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے، جس دنیا میں اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ سعودی عرب کو صرف زیادہ فنڈز دینے کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے باوجود پر جرم سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے، وہاں خاشقجی کے قاتلوں کو کون سی سزا دے سکتا ہے، جہاں اندھیر نگری ہوتی ہے، وہاں چوپٹ راج ضرور ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 834532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش