QR CodeQR Code

مغربی تہذیب اور نفسیاتی مسائل

25 Dec 2019 07:50

اسلام ٹائمز: معروف رائٹر مائیکل بیرکجی کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی نوجوان نسل میں افسردگی اور ڈیپریشن بڑھ رہا ہے اور گذشتہ برسوں کی نسبت اس میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس مصنف کی رائے میں احساس تنہائی اور افسردگی مغربی نوجوانوں میں روز بروز بڑھ رہا ہے، جسکی وجہ سے معاشرے میں کشیدگی اور نفسیاتی و سماجی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور بعید نہیں کہ یہ بیماری مستقبل میں وبائی صورت اختیار کر لے۔


تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

آج دنیا کا ایک بڑا حصہ حس مغربی معاشرہ کو اپنی فلاح و نجات کا باعث سمحھتا ہے، وہ اندر سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔ مغربی تہذیب و تمدن کے ساتھ مغربی طرز زندگی نے انسانی زندگی کو نئی نئی مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ مغرب کا اسلوب زندگی فطرت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناپائیدار ثابت ہوا۔ اوپر سے صنعتی زندگی نے انسان کو ایک مشین میں تبدیل کر دیا ہے۔ مغرب کا مشینی انسان اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے اور یہی مغربی معاشرے کے انحطاط کی علامت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی سید علی خامنہ ای کی طرف سے جاری کردہ گام دوم دستاویز میں جدید اسلامی تمدن کی تشکیل و احیاء کی بات کی گئی ہے۔ رہبر انقلاب جدید اسلامی تمدن کی تشکیل کو انداز زندگی اور زندگی کے طرز عمل سے منسلک کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب تک اسلوب زندگی پر توجہ نہیں دی جائے گی، جدید تمدن کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی مغربی دانشوروں کی مغرب کی طرز زندگی کے بارے میں تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آج مغربی تہذیب و تمدن انحطاط کا شکار ہے، یعنی حقیقت میں رو بہ زوال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی گام دوم نامی دستاویز میں نوجوانوں سے خواہش کرتے ہیں کہ مغربی معاشرے کے بارے میں تحقیق و تجزیہ کریں اور مغربی معاشرے کو درپیش سماجی مشکلات کو بھی مدنظر رکھیں۔ مغربی معاشروں کو لائق بڑی بیماریوں میں سے ایک افسردگی اور ڈیپریشن کی بیماری ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس کو سائیلنٹ ایبڈمی یعنی خاموش وبا سے تعبیر کیا ہے۔ نفسیاتی و سماجی ماہرین کے مطابق جدید معاشرے کو وسیع طور پر افسردگی جیسی بیماری کا سامنا ہے۔ صحت کے عالمی ادارے نے 2017ء میں ایک سلوگن دیا تھا "اے افسردگی آئو آپس میں گفتگو کریں۔" اس عالمی تنظیم نے صحت کے عالمی دن کے موقع پر ڈپیپریشن اور افسردگی کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں سے قرار دیا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق اس وقت دنیا مین تیس کروڑ سے زیادہ افراد جن میں سے اکثریت مغربی ممالک کی ہے، ڈیپریشن کے مرض کا شکار ہیں۔ اس تعداد میں 2005ء سے 2015ء تک اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صحت کے عالمی ادارہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس بیماری پر قابو پانے کے لیے سالانہ ایک کھرب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں نفسیاتی مسائل کی صورتحال اور وجوہات مختلف ہیں۔ ہر ملک منفرد انداز سے اس چیلنج سے دوچار ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے عوام جنگ، اقتصادی مشکلات، معاشرتی ناہمواری اور عدم مساوات کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہیں، لیکن ترقی یافتہ ممالک میں یہ بیماری ان کی غیر متوازن طرز زندگی سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔ اس میں صنعتی اور مشینی انداز حیات کے علاوہ شور و غل، ماحولیاتی الودگی، شراب کا استعمال اور روحانی و معنوی اقدار سے دوری کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ سماجی تعلقات کا نہ ہونا، خاندانی سسٹم کی تباہی اور رات دن مادی سہولیات کی دوڑ میں مصروفیت اس بیماری کی بنیادی وجوہات ہیں۔

آج مغربی دنیا میں گوشہ نشینی، سماجی تعلقات میں سرد مہری اور باہمی رابطوں میں کمی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ برسوں ایک بلڈنگ اور ایک دوسرے کے ہمسائے میں رہ کر افراد ایک دوسرے کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں ایک ہی محلے اور علاقے کے لوگ روبوٹ کی طرح روزانہ سفر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا حال احوال تک پوچھنے کی زحمت نہیں کرتے، آج خاندان کے قریبی افراد بھی بالمشافہ ملاقات کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے اور وہ بھی گفتگو کی بجائے ٹیکسٹ اور تحریری پیغامات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ احساسات  و جذبات سے خالی یہ رابطے آئے دن باہمی تعلقات کو سرد سے سرد تر کر رہے ہیں، کیونکہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بالمشافہ ملاقات سے احساسات و جذبات کا جو اظہار ہوتا ہے، وہ کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ مغربی ماحول میں انسان کا پیشتر وقت کارخانے، فیکٹری یا دفتر میں گزرتا ہے۔ امور میں یکسانیت اور کام کا دبائو ذہن کو تھکا دیتا ہے اور جب جاب کے بعد تھکا ماندہ گھر پہنچتا ہے تو اہل خانہ کے ساتھ بھی مطلوبہ گرمجوشی کے ساتھ برتائو نہیں کر پاتا، جس کا نتیجہ عاطفی و جذباتی تعلقات میں سرد مہری۔
آجاتی ہے۔

نامی کتاب کے مصنف اسٹیفن ایلڈاری لکھتے ہیں ڈپریشن آج کے معاشرے کی فطری بیماری نہیں ہے, بلکہ یہ صنعتی زندگی کا نتیجہ ہے۔ منصنف کے نزدیک ڈیپریشن کی بنیادی وجہ مغربی طرز زندگی اور انسانی جینیٹک میں پایا جانے والا تضاد ہے۔ مغربی انداز زندگی انسان کی فطری مساحت سے میل نہیں کھاتا۔ افسردگی یا ڈیپریشن ایک طویل پریشانی کا نتجہ ہوتی ہے۔ طویل پریشانی کا انسانی ذہن اس طرح جواب دیتا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں بعض انسانوں میں ڈپیریشن کا ردعمل ہفتوں اور مہینوں تک جاری رہتا ہے اور یہ صورت حال انسانی ذہن کے لیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ مغربی دنیا میں ماہرین نفسیات اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈپیرپشن اور افسردگی کی وجہ سے بے خوابی، غیر ضروری غصہ، برین ہیمرج اور حتی انسان کے مدافعاتی نظام کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

مغربی ماہرین نفسیات اس کیفیت سے نکلنے کے لیے جہاں سکون اور ادویات کے استعمال کا کہتے ہیں، وہاں طرز زندگی کو تبدیل کرنے پر بھی تاکید کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات و افسردگی کا کہنا ہے کہ آٹھ گھنٹے سے کم نیند افسردگی، اضطراب اور بے چینی میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سالانہ اسی ملین افراد کم خوابی کا شکار ہوتے ہیں اور یہی مسئلہ ان کے ڈیپریشن کا باعث بنتا ہے اور یہ اوسط مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ ہے۔ ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایک بڑی تعداد جو سکون آور ادویات استعمال کرتی ہے، وہ ان میڈیسن کی وجہ سے افسردگی و ڈیپریشن میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں 35 فیصد شہری ہر روز تین قسم کی میڈیسن استعمال کرتے ہیں، جن میں اکثریت ان کو افسردگی میں مبتلا کرتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ اور برطانیہ میں ڈپیریشن کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں سالانہ 5 کروڈ چھ لاکھ افراد ڈپیریشن کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کی امریکہ کے کئی آزاد اور غیر جانبدار ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے۔ بعض انسٹی ٹیوٹس اس سے زیادہ تعداد کے قائل ہیں، کیونکہ بہت سے افراد اس بیماری میں ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے۔ برطانیہ میں گذشتہ سال 64 میلیون افراد نے ڈیپریشن کے علاج کے لیے ڈاکٹروں سے نسخے لکھوائے ہیں، یہ اعداد و شمار گذشتہ دس برسوں کے مقابلے میں 100 فیصد زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ میں اقتصادی ناہمواری، جاب سے عدم اطمینان اور بچوں سے جنسی زیادتی کی وجہ سے وجود میں آنے والے ڈیپریشن کے مریضوں کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ کمیرج یونیورسٹی کی تحقیقات کے مطابق برطانیہ میں بڑی عمر کے افراد میں سے دو تہائی افراد روحانی و سماجی مشکلات کی وجہ سے اضطراب و افسردگی جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔

دو عشرے قبل افسردگی کی بیماری کو بڑی عمر کی بیماری سمجھا جاتا تھا، لیکن مغربی ممالک سے موصولہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اب یہ بیماری بچوں اور نوجوانوں میں بھی سرایت کر رہی ہے۔ برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے دفاع کے لیے سرگرم ایک ادارے کی تحقیقات کے مطابق 2015-2016ء میں بچوں اور نوجوانوں کی نفسیاتی مشکلات اور ان کو ڈپیریشن سے نجات دلانے کے لیے ڈاکٹر صاحبان نے بارہ ہزار مشاورتی چیک اپ کیے ہیں۔ یہ تعداد 2017ء اور 2018ء میں دوگنا ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس میں 88 فیصد لڑکیوں نے ڈاکٹروں سے ضروری مشاورت کے لیے رجوع کیا ہے۔ عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق شمالی یورپ کے باشندے دنیا میں سب سے زیادہ خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اب وہاں سے بھی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ افسردگی اور ڈپیریشن کا مرض بڑھ رہا ہے۔ کوپن ہیگن کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق شمالی یورپ کے بارہ فیصد باشندے نہ صرف مطمئن زندگی نہیں گزار رہے، بلکہ اپنے آپ کو رنجیدہ اور غم زدہ شہری تسلیم کرتے ہیں۔ یہ اوسط 18 سے 23 سال کے افراد مین تیرہ فیصد سے زیادہ ہے۔

فن لینڈ جسے 2018ء کا شاد ترین اور خوشبخت ترین ملک قرار دیا گیا تھا، وہاں بھی افسردگی بڑھ رہی ہے۔ اس ملک میں خودکشی کرنے والے افراد میں سے دو تہائی افراد کی عمریں 15 سے 24 سال ہیں۔ ان ممالک میں نوجوانوں کے ساتھ عمر رسیدہ افراد بھی تنہائی اور افسردگی سے دوچار ہیں اور فیزیکل مشکلات کی وجہ سے اپنی زندگی کو دشوار قرار دیتے ہیں۔ معروف رائٹر مائیکل بیرکجی کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک کی نوجوان نسل میں افسردگی اور ڈیپریشن بڑھ رہا ہے اور گذشتہ برسوں کی نسبت اس میں اضافے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس مصنف کی رائے میں احساس تنہائی اور افسردگی مغربی نوجوانوں میں روز بروز بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں کشیدگی اور نفسیاتی و سماجی مشکلات بڑھ رہی ہیں اور بعید نہیں کہ یہ بیماری مستقبل میں وبائی صورت اختیار کر لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 834739

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/834739/مغربی-تہذیب-اور-نفسیاتی-مسائل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org