0
Wednesday 25 Dec 2019 23:19

مشترکہ اسلامی کرنسی کی ضرورت کیوں ہے؟(3)

مشترکہ اسلامی کرنسی کی ضرورت کیوں ہے؟(3)
تحریر: ایل اے انجم

ڈالر بطور ہتھیار

کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دور کا سب سے بڑا مالیاتی فراڈ ہے۔ بریٹن ووڈز ایگریمنٹ کے بعد دنیا بھر میں ڈالر کی جہاں چودھراہٹ قائم ہوئی، وہاں سافٹ وار میں ایک اہم اوزار امریکہ کے ہاتھ لگ گیا۔ امریکہ اپنے قوانین کے تحت ہر اس ملک پر جرمانہ کرسکتا ہے، جس نے امریکی کرنسی میں تجارت کی ہو، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کی کمپنی BNP Paribas پر محض اس جرم میں 9 ارب ڈالر کا جرمانہ کیا کہ اس کمپنی نے ایران، کیوبا اور سوڈان کے ساتھ بزنس کیا تھا، روس، چین سمیت کئی یورپی کمپنیاں بھی ڈالر گردی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ کسی بھی بین الاقوامی بینک کو امریکی حکومت بلیک میل کرسکتی ہے، تاکہ وہ امریکی حکومت کے احکامات مانے، کیونکہ امریکا میں بینکنگ کی اجازت کا لائسنس منسوخ کرنا یا امریکی ڈالر میں کاروبار سے روکنا اس بینک کو دیوالیہ کرسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی اثاثوں کی منتقلی کا 80 فیصد ڈالر کی شکل میں ہوتا ہے اور (SWIFT (Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication کے ذریعے انجام پاتا ہے۔

اگرچہ SWIFT کا مرکزی دفتر برسلز میں واقع ہے مگر اس پر امریکا کا مکمل کنٹرول ہے، چونکہ امریکا کسی بھی ملک پر تجارتی پابندیاں عائید کرنے کے لیے SWIFT کو استعمال کرتا ہے، اس لیے روس نے کسی ایسے خطرے سے بچنے کے لیے اپنا الگ متبادل SWIFT نظام بنا کر تیار رکھا ہے، جو عالمی سطح پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ روس کے کئی بینکوں نے چین کا سویفٹ سسٹم (China International Payments System) استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اکتوبر 2019ء سے ترکی نے روس کا سویفٹ سسٹم استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اگست 2018ء میں جرمنی نے بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ امریکی ڈالر کی بالادستی کے خلاف ایک الگ یورپی مونیٹری فنڈ ہونا چاہیئے اور اس کا اپنا آزادانہ سویفٹ سسٹم ہونا چاہیئے۔ 31 جنوری 2019ء کو فرانس نے سوئفٹ کا متبادل INSTEX پیش کر دیا ہے، تاکہ یورپی ممالک امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت جاری رکھ سکیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اقدامات امریکا کے دشمنوں کی بجائے دوست کر رہے ہیں۔

جس کے پاس یہ طاقت ہو کہ وہ بڑے ممالک کے بڑے بینکوں کو کنگال کرسکے، وہ ان بڑے ممالک کی حکومت پر بھی حاکمیت رکھتا ہے۔ سویٹزرلینڈ کے سب سے پرانے بینک Wegelin کی مثال بالکل واضح ہے۔ (FATCA (Foreign Account Tax Compliance Act وہ قانون ہے، جو دنیا بھر کے بینکوں کو امریکا کا مالیاتی جاسوس بنا دیتا ہے۔ چونکہ امریکا خود اپنے بینکوں کو اس قانون سے آزاد قرار دیتا ہے، اس لیے دنیا بھر کا  کالا دھن (بلیک منی) اب صرف امریکا میں چھپانا ممکن رہ گیا ہے۔ امریکا کا سب سے طاقتور ہتھیار گولی نہیں چلاتا، نہ اُڑتا ہے، نہ پھٹتا ہے۔ یہ نہ آبدوز ہے نہ ہوائی جہاز ہے، نہ ٹینک ہے نہ لیزر، امریکا کا سب سے طاقتور جنگی ہتھیار آج ڈالر ہے۔ امریکا اسے مہارت سے استعمال کرتے ہوئے دوستوں کو نوازتا ہے اور دشمنوں کو سزا دیتا ہے۔ دنیا بھر کی بچت کا 60 فیصد، عالمی ادائیگیوں کا 80 فیصد اور تیل کی عالمی خریداری کا لگ بھگ سو فیصد امریکی ڈالر کی صورت میں انجام پاتا ہے۔ ڈالر سے صرف اسلامی ممالک کو ہی نہیں بلکہ کئی مغربی اور افریقی ممالک کو بھی شدید پریشانی ہے۔ اس لیے سارے حل کی تلاش میں ہیں۔ ملائیشیاء سمٹ میں مشترکہ اسلامی کرنسی کی تجویز اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

ڈالر نہیں سونا
دنیا بھر میں جہاں ڈالر پر اعتماد کم ہو رہا ہے، وہاں اس کا متبادل سونا جمع کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین نے بڑے پیمانے پر سونا خریدنا شروع کر دیا ہے، ہیروں کے کاروبار سے منسلک ایک بڑی روسی کمپنی نے حال ہی میں ڈالر کی بجائے روبل میں عالمی تجارت کے نئے نظام کا تجربہ کیا، روسی کمپنی نے چین اور انڈیا کے ساتھ تجارت کے دوران پچاس فیصد ٹرانزکشن نئے نظام کے تحت روبل میں کیا گیا۔ یورپی ملکوں نے سونا جمع کرنا شروع کر دیا ہے، یورپی ملک پولینڈ نے گذشتہ دو عشروں کے دوران پہلی مرتبہ اپنے سونے کے ذخائر میں اضافہ کیا۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے ہنگری کے مرکزی بینک (ایم این بی) نے بھی اکتوبر میں سونا خریدتے ہوئے اپنے سونے کے ذخائر میں ایک ہزار فیصد کا اضافہ کیا۔ پہلے اس مشرقی یورپی ملک کے پاس تین اعشاریہ ایک ٹن سونا تھا، جو اب اکتیس اعشاریہ پانچ ٹن ہوگیا ہے۔

کیا ہنگری اور پولینڈ اپنے ہاں معاشی صورتحال کے بارے میں پریشان ہیں؟ کیا وہ ڈالر کا استعمال کم کرنا چاہتے ہیں یا انہیں ممکنہ یورپی پابندیوں کا خدشہ ہے؟ ہنگری اور پولینڈ کی طرف سے سونے کی خریداری کا تعلق اس سے بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے ممالک ڈالر سے دوری اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان ممالک کے خیال میں ان کا ڈالر پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے اور انہیں اپنے مالیاتی ذخائر ڈالر سے کسی دوسری شکل یا کرنسی میں منتقل کرنا چاہیئں۔ دنیا میں ڈالر کو محفوظ کرنسی کے طور پر کم استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ترکی اور قزاقستان نے اپنی اپنی ملکی کرنسیوں کے تبادلے میں باہمی تجارت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح جرمنی اور چین بھی یوآن اور یورو میں تجارت کرنے پر رضامند ہوچکے ہیں۔ پاکستان اور چین نے بھی یوآن میں تجارت پر اتفاق کیا ہے۔ چین نے 2007ء کے بعد سے سونے کی خریداری میں ایک ہزار فیصد تک اضافہ کیا ہے۔ روس اور چین بڑی مقدار میں سونا جمع کر رہے ہیں۔

چین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی کرنسی یوآن کو ڈالر کے مقابلے میں لانے کیلئے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے، 2009ء میں چین نے یوآن کو پہلی بار بین الاقوامی تجارت میں تجرباتی طور پر متعارف کرایا اور پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر آسیان کے دس ممالک کے ساتھ باہمی تجارت یوآن میں شروع کی۔ یہ تجربہ کامیاب رہا اور اس کے بعد سے چین نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 2010ء میں چین نے ماسکو انٹر بنک کرنسی ایکسچینج میں روبل کے ساتھ یوآن میں تجارت کا معاہدہ کر لیا۔ اس سے اگلے سال اس نے جاپان کے ساتھ اپنی کرنسی میں تجارت کا معاہدہ کر لیا۔ 2013ء سے آسٹریلوی ڈالر کے ساتھ یوآن میں لین دین کا معادہ ہوا۔ اسی سال یوآن دنیا کی آٹھویں بڑی تجارتی کرنسی بن گیا۔ دو سال کے بعد یعنی 2015ء میں یہ دنیا کی پانچویں بڑی تجارتی کرنسی قرار پایا۔

یوآن یا مشترکہ اسلامی کرنسی؟
3 نومبر 2016ء کو یوآن کو ڈالر اور یورو کے بعد دنیا کی تیسری گلوبل ریزرو کرنسی قرار دے دیا گیا۔ امکان یہی ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے کی کامیابی کے بعد جو ممالک اس سے منسلک ہوں گے، ان کی باہم تجارت ڈالر میں نہیں بلکہ یو آن میں ہوگی۔ جہاں تک اسلامی ممالک کی مشترکہ کرنسی کا تعلق ہے، وہ ایک خواب ضرور ہے لیکن تعبیر ناممکن نہیں، امریکہ نے اسی خطرے کو بھانپتے ہوئے سعودی عرب کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو سمٹ سے باہر کر دیا، تاکہ کوئی نیا اسلامی بلاک وجود میں نہ آسکے اور مشترکہ اسلامی کرنسی کی طرف پیشرفت نہ کی جا سکے۔ حالیہ کچھ عرصے میں سعودی عرب شدید مشکلات سے دوچار ہے، عرب اور اسلامی ممالک پر سعودی دبائو خاصا حد تک بے اثر رہا ہے، قطر کی اقتصادی اور جغرافیائی ناکہ بندی جو کہ بری طرح ناکام ہوئی، کے بعد پاکستان جیسے چند مملک کے علاوہ دیگر ممالک میں سعودی اثر و رسوخ ختم ہوچکا ہے۔ ترکی، ملائیشیاء اور ایران کئی میدانوں میں خود کفیل ہونے کے ساتھ ایک بڑی طاقت بھی ہیں اور وہ یہ صلاحیت بھی رکھتے ہیں کہ ایک مشترکہ اسلامی کرنسی جس کی بنیاد مستحکم ہو وجود میں لا سکیں۔(ختم شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماآخذ
https://ur.wikipedia.org/wiki/%DA%A9%D8%A7%D8%BA%D8%B0%DB%8C_%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%B3%DB%8C
https://www.wikiwand.com/ur/%DA%A9%D8%A7%D8%BA%D8%B0%DB%8C_%DA%A9%D8%B1%D9%86%D8%B3%DB%8C
https://advancepakistan.com/2018/04/03/yuan-vs-dollar/
https://economictimes.indiatimes.com/news/international/business/how-the-us-has-made-a-weapon-of-the-dollar/articleshow/65715068.cms?from=mdr
https://dailyreckoning.com/the-u-s-dollar-a-victim-of-its-own-success/
https://www.ft.com/content/5694b0dc-91e7-11e9-aea1-2b1d33ac3271
https://www.aljazeera.com/news/2018/08/turkey-lira-crisis-180814132601100.html
https://www.peakprosperity.com/mike-maloney-one-hell-of-a-crisis/
خبر کا کوڈ : 834749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش