0
Wednesday 25 Dec 2019 14:23

گھوم جا

گھوم جا
تحریر: سید توکل حسین شمسی

بچپن میں ایک تماشہ دیکھا کرتے تھے، بچہ جھمورا، آنکھیں بند کر اور گھوم جا، گھوم گیا، کیا دیکھتا ہے، ہر بار جب وہ بچہ گھومتا تھا تو کچھ نیا ہی دیکھتا تھا، سننے والوں کو اس جھمورے کی چرب زبانی بڑی لبھاتی تھی۔ شاید وہ جو کچھ کہتا تھا، اس کا مطلب بھی نہیں سمجھتا تھا، اس کے سمجھنے کے صرف وہ کچھ سکّے ہوتے تھے یا تھپکی جو اس کو شاباشی میں دی جاتی تھی۔ آج زندگی کی چونتیس بہاریں گزرنے کے بعد پت جھڑ میں، ہوا میں اپنے ہی گرد جھومتے رقص کرتے پتوں کو دیکھا تو خیال آیا کہ وہ بچہ جھمورا کوئی اور نہیں بلکہ عوام تھی، جو آنکھیں بند کرکے اپنے ہی پاؤں پر گھوم جاتی تھی اور سمجھتی تھی کہ منظر بدل گیا۔ حقیقت میں کچھ بدلا نہیں، وہی ہے جو مداری دکھانا چاہتا ہے، وہ آگے آنے والی ہماری ہی زندگی کی اگلی قسمت دکھاتا تھا، لیکن وہ ایک مداری تھا، اب بےشمار مداری ہیں، عوام بھی اب گھوم گھوم کر چکرا گئی ہے، لیکن چکر سمجھ نہیں پا رہی۔ اب اس کو اس چکرا چکری سے جان چھوڑانا ہے۔

آج کیوں نہ ان چند صفحوں پر ریورس چکر لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ کیا چکر تھا۔
بچہ جمھورا آنکھیں کھول اور واپس گھوم جا، کیا دیکھتا ہے، قطاریں ہیں اور جمہوریت کے نعرے ہیں، پارٹی فنڈ کے نام پر 2 کروڑ کی ٹکٹ ہے، جمھورے یہ جمہوریت کیا ہے، استاد جمھورے سے ہی تو جمہوریت ہے، نہ کر جمھورے، تیری تو آنکھیں ہی بند تھیں، تجھے کیسے پتہ؟ ٹکٹ تیری مرضی سے نہیں دیا جاتا، پارٹیوں کی مرضی سے دیا جاتا ہے، پھر وہ ٹکٹوں والے ووٹ دیتے ہیں، تیرا تو بس انگوٹھا کالا ہے۔ اقبال کا خواب، قائد کی تعبیر اسلامی تھیں، جس میں سارے جمھورے آنکھیں بند کرکے اسلام پر عمل پیرا ہوسکتے۔ جمہوریت اگر اکثریت ہے تو پھر تیرے مذہب میں، قرآن میں، تیرے رب کے کلام میں 53 سے زیادہ آیات میں اکثر جھوٹے، اکثر فاسق، اکثر کافر، اکثر ناشکرے، بے عملے، نافھم کیوں کہا گیا۔؟ کیونکہ جمھوریت نے ابراہیم (ع) کے لئے آگ جلائی تھی، موسی (ع) کی غیر موجودگي میں گوسالہ کو منتخب کیا تھا، مکہ میں رسول (ص) کے گھر کا محاصرہ کیا تھا، کربلا برپا کی تھی۔

پہلے اسلامی ہو جا، پھر سارے جمھورے ایک ہی صف میں ہونگے، ورنہ دیوانے اور دانے سب برابر ہیں، شہر کے پاگل خانے پر نہ تیری عدالت حکم لگاتی ہے، نہ خالق، پھر اس کی رائے سے نظام کیسے چلتا ہے، یہ چکر کیا ہے؟ ایک شہر میں بریانی  ایک پارٹی کی بٹتی ہے، جھنڈے ایک پارٹی کے لہراتے ہیں اور جیت دوسری پارٹی جاتی ہے، کیونکہ ایک صاحب رات کی تاریکی میں صلاح الدین بن کر چند مداریوں سے تمام بچے جمھوروں کے ووٹ خرید لیتے ہیں، پھر وہی جمھورے جنہوں نے آنکھیں بند کرکے مہر لگائی ہوتی ہے، کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی چکر ہوگیا ہے۔ جمھوریت میٹھی باتیں، اچھا احساس، جو ہر جمھورے کو محسوس کرنا ہوگا، ویسے بھی اگر یہ لفظ بولا جائے تو نجانے کیوں منہ میں پانی بھر آتا ہے۔

شاید یہ اس کے نسوانی اتار چڑھاؤ کی دین ہو، جمھوری خواتین کا میک اپ بھی جمھوریت کا حصہ ہے، کاش تھوڑی جمھوریت کی گالوں پہ بھی لالی ہوتی، اس کے بھی میچینگ لباس زیب تن ہوتا تو کوئی جمھورا اس سے ہراساں نہ ہوتا، کاش وہ بڑی حویلیوں کی باندی نہ ہوتی، کاش ہوس پرستوں نے اس کا دامن داغدار نہ کیا ہوتا تو آج ہر جمھورے کی لیلیٰ ہوتی، کاش ہر سیج پر اس کو نئے انداز میں پیش نہ کیا جاتا، پھر کسی جمھورے کو اس کی ادائیں طوائف گونے نہ لگتیں۔ قصہ مختصر، جمھورا جمھوریت کو ماں کے روپ میں دیکھتا ہے، جو اپنے حصے کا لقمہ، بھوک سے نڈھال بچوں کو دینا چاہتی ہے، لیکن یہ ایوانوں والے اسے ایک رات کی دلہن سمجھ کر، اس کا سارا بناؤ سنگار چاٹ گئے، اب جمھورے کا ممتا سے تعلق واجبی سا رہ گيا ہے۔

چل چھوڑ ذرا اور گھوم جا، ورنہ جمہوریت والے ماریں گے اور دل جمھوریت کا جلے گا۔ اب بتا کیا دیکھتا ہے، پرانی ٹرینیں ہیں، خسارے ہی خسارے ہیں، جمھورے جہاں ماتحت کو چھٹی اور دستخط کے لئے شیرینی ساتھ لانی پڑے، اس کا خسارہ کون بھرے، پردیس میں ایک ڈبے میں چالیس مسافر ہوتے ہیں، چار سو نہیں، ہر ڈبے کی اپنی کنٹین ہوتی ہے، پھیری والے نہیں۔ چائے پانی مہمان نوازی ہوتی ہے، کمائی نہیں۔ بندہ سوار کراچی سے ہوتا ہے، ٹکٹ خانیوال سے لاہور کی۔ اس ادارے کی حالت اس بوڑھی عجوزہ جیسی ہے، جس کے کھیسے سے پوتے چپکے سے پیسے چورا لیتے ہیں، پھر وہ اپنا پیٹ چھپانے کے لئے کسی کو بتاتی بھی نہیں ہے۔ آج ریلوے کے کتنے اسٹیشن بھوت بنگلے اور آثار قدیمہ بن چکے ہیں، کتنی بارونق پھاٹکوں نے پھاٹک نما کا روپ دھار لیا ہے۔

دنیا کے کتنے ہی ایسے ملک ہیں، جو زیر زمین چلنے والی تیز ٹرینوں کی گولڈن جویلیاں منا رہی ہیں اور میرے وطن کے کتنے نونہالوں نے کتنی ہی پٹڑیوں پر کھیل کود کر جوانی سے بڑھاپے کا سفر طے کر لیا، لیکن وہ ٹرین کی عاشقانہ چال، اونچے سروں کے وہ راگ کہ جس کے آگے ہر صدا بے صدا تھی، کبھی گوش گزار نہ کرسکے، رات کی تاریکی میں اس کے سر کچھ اور ہی عاشقانہ ہوتے، جو دن کے اجالے میں ہر گھر کے آنچل میں چلنے والی چھوٹی چھوٹی، کندھے اور ننھے ہاتھوں سے جڑی ٹرین کے ڈبوں میں اضافہ کر جاتے، جن کی توتلی، چک چک پاں پاں، دادیوں کے دل مسرور کر جاتی۔ جمھورا، استاد سمجھ نہیں آتی، چھوڑ جمھورے عشق و عاشقی کا  اک سفر تھا، جو بنیے کے ہاتھ لگ گیا، تو آنکھیں کھول اور گھوم جا، کیا دیکھتا ہے، کالی پینٹ اور کالا کوٹ، بغل میں انصاف دبائے، عدالت کے باہر ہی فیصلے سنا رہے ہیں۔؟ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے حق میں فیصلہ ہو ، پھر تم نے وہ کہنا ہے جو میں کہہ رہا ہوں، جو ہوا سو بھول جاؤ۔

سچ کہا جمھورے، فیصلہ جج نہیں، وکیل کرتے ہیں، تبھی تو گاڑی کے کاغذ نہیں، اپنا کارڈ دکھاتے ہیں، جج بھی صاحب کے ساتھ بیٹھتے ہیں، اتنا اونچا کہ غریب کی سوچ اور پہنچ دونوں ہی سے دور، جن کو اللہ نے علی بنایا تھا، وہ منبر سے نیچے اتر کر دکۃ القضاء پہ فیصلے دیا کرتے تھے، پھر مجرم بھی ہاتھ کٹاتے اور کہتے مجھے انصاف مل گیا۔ آج انصاف کا مطلب ہے میرے حق میں فیصلہ، آج پیسے لے کر انصاف سے بچانے والے کا لباس کالا ہے، یہ دل کی سیاہی ہے، جو رگوں میں پھیل کر لباس تک کو سیراب کر رہی ہے۔ چل چھوڑ جمھورے، ان سے پنگا نہ لیں، ان کے پاس انصاف بھی ہے اور ڈنڈے بھی، تو آنکھیں کھول اور گھوم جا، گھوم گيا، کیا دیکھا، اب کوٹ کالے نہیں سفید ہیں، یہ تو کوئی مسیحا ہیں، جو دردمندوں کا علاج کرتے ہیں، نہیں جمھورے باہر سے آنے والی آوازیں سن، ایک کڑک دار نسوانی آواز پیسے نہیں ہیں تو باہر دفعہ ہو جائیں، ڈاکٹر صاحب بغیر فیس کے چیک نہیں کرتے۔

پہلے آٹھ مہینے تسلی دی جاتی ہے کہ آپ کا بچہ نارمل ہوگا ان شاء اللہ، پھر ایک دم سے کہا جاتا ہے کہ دل کی دھڑکن محسوس نہیں ہو رہی، فوراً آپریشن، لیکن اگر آپ ان سے کہہ دیں کہ بچہ نارمل ہوا تو آپ کی فیس ڈبل، پھر دیکھیں کیا معجزہ ہوتا ہے، وارث سے لکھوایا جاتا ہے، ان مسیحاؤں سے بھی ہر آپریشن سے پہلے اللہ کے کلام پر ہاتھ رکھ کر لکھوائے جانے کا قانون کیوں نہیں۔؟ آج کتنی ہی مائیں اپنے بچوں کو خود اٹھانے کے قابل نہيں، دایہ جس کو اسلام نے ماں کہا ہے، وہ اس کاروبار کی ایجنٹ ہیں، دواء اپنی بچت دیکھ کر لکھی جاتی ہے، مردوں تک سے اپنا حصہ وصول کیا جاتا ہے، غریب علاج کے لئے در بہ در ہوتے ہیں اور امراء ملک بدر، جمھورے تو بھی سادہ ہے، یہ مسیحائی نہیں کا روبار ہے، جس میں کبھی نقصان نہیں ہوتا، چھوڑ ان سے ڈر کر رہ، شیطان سے زیادہ لوگ ان سے پناہ مانگتے ہیں، یا اللہ وکیلاں تے ڈاکڑاں تو بچاویں۔

تو آنکھیں کھول اور گھوم جا، گھوم گیا، کیا دیکھا، استاد پولیس والے ہیں، ڈر لگ رہا ہے، آپ اجازت دیں تو میں آنکھیں بند کر لوں، نہ ڈر، یہ بیچارے سستے پہ مان جاتے ہیں، ان بیچاروں کی تو تنخواہ تھوڑی ہے، اچھا اس لئے استاد یہ ہر چیز مانگ کر کھاتے ہیں، کوئی چائے پانی، کوئی روٹی شوٹی لیاؤ، تبھی، میں سمجھ گيا استاد، یہ بیچارے اپنے صندوقوں کو بڑے بڑے زنجیروں میں جکڑ کر، ناکہ لگاتے ہیں اور پورے محکمے کا لنگر اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ پہلا محکمہ ہے جو خود کفیل ہونے کے ساتھ ساتھ مل جل کر کھاتا ہے، جمھورے یہ محکمہ بڑا ہمدرد بھی ہے، اتنا ہمدرد کہ بعض دفعہ تو ملزم اور مدعی کی پہچان ہی ختم ہو جاتی ہے، لیکن اکثر یہ بیچارے سیاسوں سے ڈرتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان کے لئے ہوئے سو روپے بڑے ہی حرام سمجھے جاتے ہیں اور جو پورا ملک کھا جاتے ہیں، ان کو قومی ہیرو کہا جاتا ہے، جمھورے، ایک ڈاکٹر اگر بیماری کی تشحیص کے بغیر فیس لے تو وہ اسی طرح حرام جیسے رشوت، ایک وکیل اگر جان بوجھ کر اپنے پیسے بنانے کے لئے کیس لمبا کرتا ہے تو آپ اس کے گھر کا پانی نہیں پی سکتے، کیونکہ اس کی حرمت شراب سے کم نہیں۔ جمھورے آنکھیں کھول اور گھوم جا، استاد اب جمھورا چکرا گیا ہے اور گھومے گا تو پھر آپ کہیں گے کہ جمھورا بھی بوٹے کی طرح گالیاں نکالتا ہے، جمھورے کو ہوش آنے دیں، پھر دیکھیں جمھوریت بھی ویسی ہو جائے گی، جیسی قائداعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر جمہوریت سے پہلے اسلامی نہ ہوا تو پھر وہ بت پرستوں کے لئے ہے بت شکنوں کے لئے نہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 834756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش