0
Wednesday 25 Dec 2019 22:11

پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں؟

پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں؟
رپورٹ: ایس اے زیدی

اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، گو کہ مسلم دنیا امت مسلمہ کے مسائل اور ایشوز پر منتشر نظر آتی ہے، تاہم کسی واحد مسلمان ملک کیلئے ایٹمی قوت کا حامل ہونا ایک انفرادیت ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے امریکہ کی جانب سے اکثر خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور بعض اوقات تو اس قسم کے مطالبات بھی سامنے آئے کہ اسلام آباد کے ایٹمی اثاثوں کو دہشتگردوں سے خطرہ ہے، لہذا اقوام متحدہ انہیں اپنی تحویل میں لے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو امریکہ، اسرائیل اور بھارت ہمیشہ سے اپنے وجود یا اپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھتے آئے ہیں، گو کہ امریکہ بظاہر پاکستان کو اپنا دوست ملک قرار دیتا ہے اور اسے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے شائد براہ راست تو کوئی خطرہ نہ ہو، تاہم اپنے عالمی ایجنڈے اور عزائم میں یقینی طور پر واشنگٹن کیلئے اسلام آباد کے ایٹمی ہتھیار ایک خطرہ ضرور ہیں۔ پاکستان کی پڑوسی ملک اور روایتی حریف ہندوستان کیلئے باقاعدہ حملہ آور نہ ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار ہی ہیں۔

رواں سال بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ حالات اور پھر بھارتی پائلٹ کا پاکستانی حدود میں داخلہ اور گرفتاری پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے تھے کہ شاید بھارت کا ٹارگٹ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تھے اور اسے اس کارروائی میں اسرائیل کی معاونت حاصل تھی۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار استعماری قوتوں کیلئے نہ صرف درد سر ہیں بلکہ ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح مسلم امہ کو دفاع کے اس اعزاز سے محروم کیا جائے۔ اگر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کا جائزہ لیا جائے تو ان کے تحفظ کیلئے مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم ہے، اس حوالے سے باقاعدہ نظام اور فورس موجود ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں کے مطابق بھی ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا پابند ہے اور ایٹمی اثاثوں کا دفاع خود اسلام آباد کیلئے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت رہی ہو، تاہم ایٹمی ہتھیاروں کے معاملہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔ اس حوالے سے حکومت، فوج، سکیورٹی اداروں کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ بھی ہمیشہ سے انتہائی محتاط رہی ہے۔

ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت میں دیگر اداروں کیساتھ ساتھ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور نیشنل سکیورٹی ڈویژن اینڈ اسٹریٹجک پلاننگ کا کردار بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، ان ذمہ داران کے پاس ملک کے اہم راز ہوتے ہیں اور وہ اسی تناظر میں ملک کی سکیورٹی پالیسز کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے معروف محقق اور ماہر بین الاقوامی امور ڈاکٹر معید یوسف کو معاون خصوصی برائے قومی سلامتی مقرر کیا۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر معید یوسف نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر اور پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ بین الاقوامی تھنک ٹینکس اور جامعات کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔ ڈاکٹر معید کی تحقیق کا مرکز جنوبی ایشیاء کو درپیش دفاعی خطرات، جنوبی ایشیائی ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور خطے سے غربت کے خاتمے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ ہے۔ ڈاکٹر معید یوسف امریکی ادارے یو ایس آئی پی سے کم و بیش 10 برس منسلک رہے ہیں۔ 17 اکتوبر 2019ء کو ڈاکٹر معید یوسف نے چیئرمین اسٹریٹیجک پالیسی پلاننگ سیل کا عہدہ سنبھالا تھا، سیل کے چیئرمین کی حیثیت سے وہ قومی سلامتی کمیٹی کے رکن بھی تھے۔

تجزیہ کار اوریا مقبول جان نے ڈاکٹر معید یوسف کی تعیناتی کے حوالے سے بعض اعتراضات اٹھائے ہیں، جس کے بعد اس اہم معاملہ پر نیا پنڈورا بکس کھل گیا ہے۔ اوریا مقبول جان نے ایک نجی ٹی وی چینل نیو ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی امریکہ کے خاص آدمی کو سونپ دی ہے۔ انہیں نیشنل سکیورٹی ڈویژن اینڈ اسٹریٹجک پلاننگ کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ وہی ادارہ ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں کی نگرانی کرتا ہے۔ اوریا مقبول جان نے الزام عائد کیا کہ معید یوسف امریکہ کا خاص آدمی ہے۔ اس کے استدلال میں اوریا مقبول جان نے ایک واقعہ بھی بیان کیا اور بتایا کہ 4 اکتوبر 2019ء کو ایک امریکی سوشل سائنسدان نے الزام لگایا تھا کہ معید یوسف پاکستانی ایجنٹ ہے، اس لیے اس کو امریکہ سے نکالا جائے، لیکن امریکیوں نے اس کا دفاع کیا اور کہا کہ یہ ہمارا بندہ ہے اور اب یہ "ساڈا بندہ" پاکستان آگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہمارے نیوکلیئر اثاثوں کا معاملہ ہے اور اس کی نگرانی پر ایک ایسا آدمی جو ساری زندگی امریکہ میں رہا ہو اور نیوکلیئر فری ماحول کی بات کرتا ہو، اس کو رکھ لیا گیا ہے، عمران خان شاید کوئی راستہ بنانا چاہتے ہیں، لگتا ہے کہ پاکستان امریکی اور چینی تنازعے میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ گو کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں، تاہم اوریا مقبول جان کے اس دعوے کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ میں اہم ذمہ داریوں پر رہنے والے شخص کی پاکستان میں نیشنل سکیورٹی کے حوالے سے اہم منصب پر تعیناتی عجلت میں کیا جانے والا فیصلہ ثابت نہیں ہونا چاہیئے۔ پاکستان موجودہ ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں اس ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ  کے حوالے سے کسی نئے پنڈورا بکس کو کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کی قومی سلامتی اور ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کے حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جاسکتی، عمران خان حکومت کو اس حوالے سے جلد سرکاری موقف بیان کرنے اور خدشات کو دور کرنے کی ضروت ہے۔
خبر کا کوڈ : 834796
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش