1
0
Thursday 26 Dec 2019 14:03

کیا سعودی عرب انڈیا کو بھی ایسی ہی دھمکی دیگا؟؟؟

کیا سعودی عرب انڈیا کو بھی ایسی ہی دھمکی دیگا؟؟؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

انڈیا میں حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شروع ہونے والا احتجاج اب پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ اس وقت تک تقریباً تیس کے قریب لوگوں کی موت ہوچکی ہے اور زیادہ تر مقامات پر پولیس نے براہ راست گولیاں چلائی ہیں۔ احتجاج تو پورے ملک میں ہو رہا ہے، مگر مظاہرین پر تشدد اور گولی مارنے کے واقعات ایسی جگہوں پر ہو رہے ہیں، جہاں بے جی پی کی ریاستی حکومتیں قائم ہیں۔ اترپردیش کو ہی لے لیں، وہاں کی یوگی سرکار نے  مظاہرین کے خلاف ریاستی جبر کی انتہا کر دی ہے، پولیس اور آر ایس ایس کے کارکن مسلمان محلوں میں گھسے ہیں، مسلمانوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور گھروں میں گھس کر بھی توڑ پھوڑ کی ہے اور جاتے ہوئے دھمکیاں دے گئے ہیں کہ ہندوستان ہمارا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ میڈیا پر یہ سب کچھ دکھانے والے صحافیوں کو ریاستی پولیس کی طرف سے دھمکیاں دی گئی ہیں کہ اگر یہ سب نشر کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن آج صرف میڈیا نہیں سوشل میڈیا کا دور ہے، جہاں موبائل سے بنی ویڈیوز پولیس اور سول کپڑوں میں ملبوس لوگوں کی بربریت دکھا رہے ہیں کہ کیسے یہ لوگ گاڑیوں کو توڑ رہے ہیں اور گھروں پر پتھراو کر رہے ہیں۔

ایک اہم ڈویلپمنٹ یہ بھی ہوئی ہے کہ یوگی سرکار نے مسلمانوں کی دکانوں کو سربمہر کرنا شروع کر دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ مظاہروں کے دوران جو نقصان ہوا ہے، اس کو اس میں شریک لوگوں کی پراپرٹیز سے پورا کیا جائے گا۔ ہو یہ رہا ہے کہ سول کپڑوں میں ملبوس آر ایس ایس کے لوگ مظاہروں کے بعد لوگوں کی پراپرٹیز کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بعد میں اس کا الزام مظاہرین پر لگا کر ان کی جائیدادیں ضبط ہو رہی ہیں۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کی پوری پوری مارکیٹوں پر اس بہانے قبضہ کی کوشش ہو رہی ہے۔ دوسری طرف اس احتجاج کا اثر بھی ہو رہا ہے اور لوگوں نے محسوس کر لیا ہے کہ مودی سرکار انڈیا کو پیچھے دھکیل رہی ہے۔ اسی لیے انڈیا کی انتہائی اہم ریاست چھاڑکھنڈ کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو بری طرح شکست ہوئی ہے۔

انڈیا کے وزیراعظم نے دلی میں خظاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون شہریت دینے کا ہے، شہریت لینے کا نہیں ہے، لوگ اس کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ہم نیشنل رجسٹر، جس میں تمام ملک کے لوگوں کو خود انڈیا کا شہری ثابت کرنا ہوگا، کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور اس پر کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں ہوئی، یہ سب پروپیگنڈا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ریاست ہندوستان کا وزیراعظم اتنی ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہا ہے اور اسی دوران بین الاقوامی میڈیا پر خبر آتی ہے کہ انڈیا نے این آر سی کے لیے فنڈز رکھ دیئے ہیں اور جن لوگوں کے نام اس رجسٹر میں نہیں آئیں گے، ان کے لیے آسام میں ڈیٹنشن سنٹرز کی تصاویر بھی منظر عام پر آرہی ہیں۔ اہم بات یہ کہ ریاست کا وزیر داخلہ امت شاہ جو بی جے پی کا انتخابی دماغ بھی ہے، وہ علی الاعلان ایک بار نہیں بار بار یہ کہتا ہے کہ ریاست میں شہریت دینے والی اس ترمیم کے بعد اگلے مرحلے میں این آر سی آ رہا ہے اور وہ صرف آسام کے لیے نہیں ہو گا بلکہ وہ پورے ہندوستان کے لیے ہوگا۔

مسلمان اسی لیے چلا رہے ہیں کہ دیکھو جس ہندو، سکھ، مسیحی یا جین کا نام نہیں آئے گا، وہ یہ ثبوت دے گا کہ وہ پانچ سال سے انڈیا میں رہ رہا تھا تو اسے شہریت مل جائے گی، مگر جو مسلمان رہ جائے گا، اس کے پاس سوائے ملک چھوڑنے یا ڈیٹنشن سنٹر جانے کے کوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔ ہندوتوا ایک خوبصورت نعرے کہ ہم پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ستائے غیر مسلموں کو شہریت دے رہے ہیں، کے تحت مسلمانوں کو سٹیٹ لیس کرنا چاہتی ہے اور یہی ان کا مقصد ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کی نچلے سطح کی قیادت علی الاعلان یہی بات کر رہی ہے۔ ایک چیز جس نے ہندتوا کے راستے میں بڑی دیوار کھڑی کر دی ہے، وہ ہندوستان کی یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس کا احتجاج ہے۔ حیران کن طور پر ان سٹوڈنٹس نے قانون اور آئین کی حمایت میں کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہندوستان کی جامعات کے سٹوڈنٹس جامعہ ملیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ آزادی کی نظمیں پڑھتے ہیں، نئی صبح کے طلوع ہونے کی امید رکھتے ہیں اور بی جے پی کی حکومت کو سیاہ رات سے تعبیر کر رہے ہیں۔

یہاں ہندو، سکھ، مسیحی اور جین مسلمانوں کے ساتھ بلکہ بہت سی جگہوں پر مسلمانوں سے بھی آگے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لاٹھیاں کھا رہے ہیں، آنسو گیس کے گولے برداشت کر رہے ہیں، مگر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ یہ لوگ تہذیب کے علمبردار بن کر ابھرے ہیں اور ہندوستان کو مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کو آئین کا مذاق کہہ رہے ہیں، ان کے چہروں پر امید ہے، ان کی  آواز میں جوش ہے، ان کی آنکھوں میں مستقبل کی چمک ہے اور وہ ہر طرح کے حالات سے ٹکرانے کی آرزو لیے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لاچکے ہیں، ہماری حکومت نے ملائیشیا کے سمٹ کو لات مار کے سعودی کیمپ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہمارے دوستوں کے مطابق یہ فیصلہ ان لاکھوں پاکستانیوں کے روزگار کو بچانے کے لیے کیا گیا، جو سعودیہ میں کا م کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو سعودی حکومت انہیں نکال دیتی اور یہ لوگ وطن واپسی پر مجبور ہو جاتے۔

بالکل درست کہا، ہم بھی حکومت کے اس درد دلانہ موقف کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم نے سعودی کیمپ میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور سعودی عرب نے خود کو امت کا رہبر و رہنما ہونے پر اصرار کیا ہے تو ایسی صورت میں سعودی وزیر خارجہ سے با ادب کہا جائے کہ ہمیں دھمکی دینے میں ایک منٹ بھی نہیں سوچا اور اگر ہم ملائیشیاء چلے بھی جاتے تو بعد میں بھی آپ کے پاس آجاتے، اب ذرا ہمت کریں اور ہندوستان کے بائیس کروڑ مسلمانوں کی مدد کو پہنچیں۔ آپ اور کچھ نہیں کرسکتے تو صرف وہی دھمکی جو آپ نے ریاست پاکستان کو لگائی تھی کہ ہم سارے پاکستانیوں کو دفع دور کر دیں گے، یہی بات انڈیا سے بھی کر دیں، ممکن ہے آپ کی اس عظیم الشان کاوش کے نتیجے میں انڈیا کی حکومت مسلمانوں کے لیے کچھ رحم کر دے اور وہ اس ابتلاء سے نکل سکیں۔ یہ بات ہماری حکومت سے نہ ہوسکے گی اور اگر چھپے الفاظ میں کر بھی دی گئی تو سعودیہ کیا کرے گا، وہ ہمیں معلوم ہے۔ بقول کلب حسین نادر:
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
خبر کا کوڈ : 834918
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

موسوی
Pakistan
احتجاج کے طور پر وحدت المسلمین کو عمران خان کی حکومت سے الگ ھونا چاھئے
ہماری پیشکش