10
Friday 27 Dec 2019 21:33

اسرائیل 2020ء میں جنگ کیلئے آمادہ

اسرائیل 2020ء میں جنگ کیلئے آمادہ
تحریر :  محمد سلمان مہدی
 
عالمی سیاست کے مغربی بلاک کے ترقی یافتہ ممالک میں سپاہ دانش (تھنک ٹینک) کا تصور موجود ہے۔ یہ مختلف موضوعات کے تحت مختلف شعبوں کے مسائل پر ماہرانہ رائے جمع کرتے ہیں۔ تدابیر یا ممکنہ راہ حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ یونائٹڈ اسٹیٹس امریکا ہو یا برطانیہ، وہاں ان کی حیثیت ریاستی سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ البتہ اب پاکستان اور ایران جیسے ممالک میں بھی ایسے ادارے اہمیت اختیار کرچکے ہیں، گو کہ عوامی سطح پر یہ اب بھی بہت زیادہ معروف نہیں۔ اسی طرح فلسطین پر قابض اسرائیل میں بھی ایسے ادارے موجود ہیں اور ان میں سے ایک یروشلم انسٹی ٹیوٹ فار اسٹراٹیجی اینڈ سکیورٹی بھی ہے۔ 2017ء میں معرض وجود میں آنے والا یہ ادارہ مضبوط اسرائیل کی سلامتی کے لئے ماہرانہ رائے پیش کرنے کا دعویدار ہے۔ سابق اسرائیلی حکام بھی اس کا حصہ ہیں اور اس ادارے نے سال 2020ء کا امکانی منظر نامہ پیش کیا ہے۔
 
مقبوضہ یروشلم میں قائم اس تھنک ٹینک نے اعلیٰ ترین اسرائیلی حکام کے لئے سال 2020ء کا ایک فرضی منظر نامہ پیش کیا ہے۔​ اسکا عنوان ہے ”پیشن گوئی 2020:  آزمائشیں و مواقع برائے اسرائیل۔“ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے کا عنوان ہے  ”رجحانات اور انکے مضمرات برائے اسرائیل۔“ اسی کے تحت اسرائیلی حکومت کو جنگ کے لیے آمادہ رہنے کا بھی کہا ہے۔ مسلمانوں اور عربوں میں خاص طور پر فلسطین، لبنان، ایران اور خلیجی عرب ممالک کے حوالے سے جو پیشنگوئی کی گئیں ہیں، اس سے عالم اسلام و عرب کو بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ روس اور چین کے حکمرانوں کو بھی اس منظر نامے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ اسرائیل اپنے ناجائز مفاد کے لئے امریکا پر اعتماد کرتا ہے۔ اس کا منصوبہ بہت سادہ و آسان ہے کہ چین سے تعلقات کو اس طرح کم ترین سطح پر رکھے کہ امریکا کو اعتراض نہ ہو، جبکہ روس کے لئے اس کا منصوبہ مختلف ہے۔ یعنی روس کو ایران اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرے اور بدلے میں امریکا کو روس کے مقابلے میں ٹھنڈا رکھے۔
 
چونکہ یہ ادارہ مضبوط اسرائیل کا اعلانیہ ہدف رکھتا ہے، اس لئے یہ پیشن گوئیاں اور اس میں مجوزہ تدابیر بھی اسرائیلی مفاد کو مدنظر رکھ کر پیش کیں ہیں۔ مقبوضہ یروشلم پر مکمل قبضے کو قانونی شکل دینے اور اس کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے پر مبنی تجاویز بھی شامل ہیں۔ یعنی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) شہر میں نسلی بنیادوں پر یہودی بستیاں بنانا اور عرب مسلمانوں پر مشتمل اکثریت کو ختم کرنا۔ یاد رہے کہ امریکا نے مقبوضہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے۔ مگر، اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے یہودی بستیاں بنانا بھی ممنوع ہیں تو یروشلم بھی اسرائیل کا حصہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ پیشن گوئیوں میں فلسطین کے حامی ممالک حتیٰ کہ ترکی بھی اور یروشلم میں موجود عرب قوم پرست یا اسلامی حلقوں کا بھی تذکرہ ہے اور انہیں مخاصمانہ ایکٹر قرار دیا گیا ہے۔ ترکی سے براہ راست مکمل سطح کی محاذ آرائی سے منع کیا گیا ہے۔ البتہ ترکی کو اس پالیسی سے پیچھے دھکیلنے کے لئے قبرص اور یونان سے اسرائیل کے تعلقات کو زیادہ مستحکم کرنے کا کہا گیا۔
 
فلسطین کے مغربی کنارے میں محمود عباس کی جانشینی کے بحران کے باوجود فلسطینی انتظامیہ امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبوں کی مخالف رہے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی پالیسی ماضی کی نسبت زیادہ بڑی فوجی کارروائی (یعنی جنگ) کی تیاری کرے۔ حماس کو ڈرا کر رکھے کہ اسرائیل سے وقتی طور پر سمجھوتے پر راضی ہو جائے۔ جہاد اسلامی فلسطین کو ایران کا حامی بیان کیا گیا ہے۔ البتہ غزہ پر بڑے فوجی حملے کا مطلب یہی ہوگا کہ بلاتفریق حماس و جہاد اسلامی۔ لبنان میں حزب اللہ کا بہانہ بناکر بلا اشتعال از خود جنگ کرنے کی تیاری کا بھی کہا گیا ہے۔ یعنی اسرائیل کو فلسطین و لبنان سے خود اسرائیل کو جنگ لڑنے کا کہا گیا ہے۔
 
البتہ ان پیشن گوئیوں کے دوسرے حصے کا عنوان ہے غیر متوقع موڑ ہے۔ یعنی صورتحال غیر متوقع طور پر کسی اور رخ پر مڑ جائے اور اس منظر نامے میں سرفہرست ہے خلیجی عرب ممالک کی ایران سے جنگ۔ غیر متوقع رخوں کے حوالے سے یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب و متحدہ عرب امارات کی ایران سے کشیدگی کم کر لینا یا ایران سے تعلقات قائم کرکے اسرائیل کو ایران کا سامنا کرنے کے لئے تنہا چھوڑ دینا۔ ممکنہ غیر متوقع موڑ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روس موثر طور پر اسرائیل کو شام میں ایرانی اہداف پر حملوں کی مخالفت کر دے۔ یا امریکا کی طرف سے ایران کے ساتھ کوئی نئی نیوکلیئر ڈیل کر لینا کہ جس میں ایران سے وہ مطالبات منظور نہ کروانا، جو اسرائیل چاہتا ہے۔ غرضیکہ اردن اور مصر اور عراق و لبنان کے حوالے سے بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔
 
لیکن اسرائیل کو سال 2020ء میں جن منظر ناموں کے لئے تیاریاں کرنے کا کہا گیا ہے، ان کو ایک جملے میں پیش کیا جائے تو مقاومت کے محور یا مقاومتی بلاک کو ہی اصل ہدف قرار دیا گیا ہے۔ اس پر کھل کر لکھا گیا ہے اور زایونسٹ یا نسل پرست اسرائیل کو کہا گیا ہے کہ 2020ء کی دوسری ششماہی میں بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ایران مزید شدت کے ساتھ کارروائیاں کرے یا اسرائیل کے ساتھ زیادہ وسیع پیمانے پر لڑائی کرے۔ چونکہ یہ خدشہ ہے کہ امریکا ایران مذاکرات کا سلسلہ چل نکلے۔ یاد رہے کہ ان مذاکرات کو اسرائیل کے لئے مشکل قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو اپنے طور پر ایران سے نمٹنے کے لئے تیار رہنے کا کہا گیا ہے۔
 
قصہ مختصر یہ کہ اسرائیلی ادارے نے یورپ اور بھارت سمیت پوری دنیا کے اہم ممالک کے حوالے سے تدابیر تجویز کیں ہیں۔ یعنی فلسطین اور کشمیر کے حامی ممالک یا اسلامی تحریکوں کے خلاف 2020ء میں اسرائیلی منصوبے یہی ہوں گے۔ خلیجی عرب ممالک کے ذریعے بھارت کو بھی ایران کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مطلب یہ کہ بھارت کی اہمیت پاکستان کی نسبت زیادہ ہوچکی ہے۔ یعنی خلیجی عرب ممالک بھی بھارت کو ترجیح دیتے ہیں تو اس کا ایک سبب اسرائیل بھی ہے۔ کیونکہ بھارت کو بھی مکمل طور پر اسرائیلی مفاد کا تابع کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کے ہمنوا ممالک کی طرف سے گرین سگنل کے بعد ہی بھارت نے کشمیر کے ایشو پر پانچ اگست کا سانحہ برپا کر دیا۔

مگر، او آئی سی کے دو اہم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اور ان کے ساتھ ساتھ بحرین بھی کھل کر بھارت کا ساتھ دیتے رہے۔ اسرائیل میں یہ پیش گوئیاں اب عوام و خواص کے حلقوں میں موضوع بحث ہیں۔ صحافی و دانشور اس پر تجزیہ و تحلیل پیش کر رہے ہیں۔ 2020ء میں جنگ بھی غیر متوقع نہیں ہے۔ 2019ء اس حقیقت کے ساتھ ختم ہو رہا ہے کہ اسرائیل عالم اسلام و عرب کے ان حکمرانوں کو ساتھ ملا کر فلسطین دوست، کشمیر دوست مسلمانوں کے خلاف نمایاں طور پر صف آراء ہے۔ یہ ریاست پاکستان کے لئے بہت بڑا سبق بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 835166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش