0
Saturday 28 Dec 2019 08:46

لیبیاء نئے معرکہ کا منتظر

لیبیاء نئے معرکہ کا منتظر
اداریہ
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں عرب اسپرنگ یا اسلامی بیداری کی تحریک نے جن ملکوں میں قدیمی آمریتوں کو سرنگون کیا، ان میں لیبیا بھی شامل ہے۔ حسنی مبارک، بن علی کے ساتھ کرنل قذافی بھی اپنی عوام کے غم و غصے کا شکار ہوگئے۔ بن علی کچھ عرصہ پہلے مرحوم ہوگئے اور حسنی مبارک کو ابھی تک مصری فوج نے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ کرنل قذافی کا انجام انتہائی بھیانک تھا، لیکن قذافی کے بعد ملک لیبیاء کا انجام اس سے بھی زیادہ بھیانک نظر آرہا ہے۔ لیبیا شمالی افریقہ کا انتہائی اسٹریٹجک ملک ہے۔ یورپ کا ہمسایہ ہونے اور دنیا کے بہترین کوالٹی کے تیل کے مالک کی حیثیت سے لیبیاء سامراجی طاقتوں کے لیے ہمیشہ سونے کی چڑیا رہا ہے۔ لیبیا میں اس وقت دو گروہ آپس میں برسرپیکار ہیں، ایک گروپ کی جنرل خلیفہ ہفتر قیادت کر رہا ہے، جسے قومی فوج کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف قومی وفاق کے نام سے ایک گروہ ہے، جس کا مرکز طرابلس میں ہے اور اس نے باقاعدہ پارلیمنٹ اور حکومت تشکیل دے رکھی ہے۔ اس گروہ کی قیادت فائز السراج کے پاس ہے، جو اپنے آپ کو وزیراعظم بھی کہتا ہے۔

قومی وفاق کے اس دھڑے کو اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتی ہے اور فائز سراج کو عالمی اداروں میں لیبیاء کا نمائندہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان کئی سالوں سے خانہ جنگی جاری ہے۔ دونوں کے پیچھے مختلف ممالک سرگرم عمل ہیں۔ خلیفہ ہفتر کو مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی واضح حمایت حاصل ہے اور اس کا نعرہ انتہاء پسند مذہبی گروہوں کو لیبیاء مین شکست دینا ہے۔ لیبیا میں گذشتہ چند دنون سے صورت حال اس لیے بھی مزید بحرانی ہوگئی ہے کہ ترکی بھی اس جنگ میں کود پڑا ہے۔ رجب طیب اردوغان نے اس سلسلے میں تیونس کا دورہ کیا نیز فائز سراج کو یقین دلایا ہے کہ اس نے جس وقت بھی باقاعدہ مطالبہ کیا، ترکی کی فوج ان کی مدد کے لیے طربلس پہنچ جائے گی۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق لیبیاء کے وزیراعظم فائز السراج نے ترکی حکومت سے فوج بیھجنے کا سرکاری مطالبہ کر دیا ہے اور پہلے سے تیار ترکی لیبیاء کے لیے فوج بھیجنے مین مصمم ہے۔

مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور یونان سمیت کئی ممالک ترکی کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں، لیکن حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ رجب طیب اردوغان یہ قدم اٹھا لین گے۔ ترکی کو اس حوالے سے قطر کی بھی پس پردہ حمایت حاصل ہے۔ قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ ترکی نے شام میں لڑنے والے مذہبی جنونیون کو لیبیاء بھیجنا شروع کر رکھا تھا، جو فائز السراج کے ساتھ مل کر خلیفہ ہفتر کے مقابلے میں لڑ رہے ہیں۔ لیبیاء کے اس بحران کا کیا حل نکلے گا، اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، لیکن ترکی نے بیک وقت کئی محاذ کھول دیئے ہیں۔ کیا خلافت عثمانیہ کی بحالی کے شوق میں مبتلا رجب طیب اردوغان تمام محاذوں پر کامیابی حاصل کر لے گا۔ یہ وہ سوال ہے، جس کے جواب کا سب کو انتظار ہے۔
خبر کا کوڈ : 835198
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش