1
Monday 30 Dec 2019 22:59

ایف اے ٹی ایف کے بانی ممالک، منی لانڈرنگ کا عالمی مرکز

ایف اے ٹی ایف کے بانی ممالک، منی لانڈرنگ کا عالمی مرکز
تحریر: علی احمدی

امریکہ نے ایران کے خلاف شدید ترین اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ امریکہ کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ اپنے مخالف ممالک پر دباو بڑھانے کیلئے عالمی اداروں کو استعمال کرتا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت امریکہ کی سرکردگی میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے بنایا گیا عالمی ادارہ ایف اے ٹی ایف بھی ایران کے خلاف سرگرم عمل ہو چکا ہے۔ اس ادارے کے 41 قوانین ہیں اور ایران اب تک ان میں سے 39 قوانین کو لاگو کر چکا ہے جبکہ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے باقی دو قوانین لاگو کرنے کیلئے ایران پر بے تحاشہ دباو ڈالا جا رہا ہے۔ جبکہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس نے اس ادارے کے تمام 41 قوانین لاگو کئے ہوئے ہوں۔ حتی خود یورپی ممالک میں سے بھی کچھ ایسے ہیں جو اس ادارے کے شدید مخالف ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کو چلانے والے ممالک خود عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کے مراکز بنے ہوئے ہیں۔ لہذا اس وقت ایران کے اندر بعض اقتصادی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ایران ایک ایسے ادارے کی سرپرستی کیوں قبول کرے جس کے چلانے والے خود ہی اس کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی میں مصروف ہیں اور اپنے مخالف ممالک کیلئے اسے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟

ایف اے ٹی ایف کے حامی ماہرین کا دعوی ہے کہ دنیا بھر میں ایف اے ٹی ایف کے لاگو کردہ قوانین کی پابندی کی جا رہی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور ایسے ممالک میں حکومتی سطح پر منی لانڈرنگ کا سلسلہ جاری ہے جو نہ صرف ایف اے ٹی ایف کے رکن ہیں بلکہ ان کی حیثیت سرپرست رکن کی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جو عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کی روک تھام کا دعویدار ہے لیکن خود شدید ترین کرپشن اور لاقانونیت کا شکار ہے۔ معروف امریکی اخبار فنانشل ٹائمز نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دیگر ممالک میں قانون کی بالادستی کیلئے ان پر دباو ڈالتا رہا ہے لیکن خود شدید ترین لاقانونیت اور کرپشن کا شکار ہے۔ رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ امریکہ دنیا میں منی لانڈرنگ کی سب سے بڑی جنت ہے۔ امریکہ کی وزارت خزانہ کی جانب سے شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس ملک میں سالانہ 300 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ البتہ حقیقی رقم اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس سے زیادہ بدتر مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ میں منی لانڈرنگ کرنے والی کمپنی کا محاسبہ کرنے کا سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ امریکہ میں کوئی ایسا قانونی ادارہ ہی موجود نہیں جو بینکوں کے علاوہ دیگر مالی اداروں اور تنظیموں پر نظر رکھ سکتا ہو۔ لہذا حال ہی میں ایف اے ٹی ایف کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکہ میں اس ادارے کے قوانین کے اجرا کو کمزور، بہت کمزور اور عدم اجرا جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود ایف اے ٹی ایف نہ صرف امریکہ پر تنقید نہیں کرتا بلکہ امریکہ اس ادارے کے پالیسی میکر ممالک میں شامل ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کے دیگر سرپرست ممالک جیسے سوئٹزرلینڈ بھی منی لانڈرنگ کے خلاف بنائے گئے قوانین سے آزاد ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی حالیہ رپورٹ میں سوئٹزرلینڈ کو بھی منی لانڈرنگ کے خلاف قوانین کے اجرا کے حوالے سے کمزور قرار دیا گیا ہے۔

عالمی میڈیا میں ایسی بہت سی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن میں خود ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کے بینکوں میں وسیع پیمانے پر انجام پانے والی منی لانڈرنگ سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر انجام پانے والی منی لانڈرنگ کا بڑا حصہ خود ان ممالک میں انجام پاتا ہے جو ایف اے ٹی ایف اور منی لانڈرنگ سے مقابلے کے دعویدار ہیں۔ ان میں یورپی ممالک اور امریکہ سرفہرست ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کا بانی رکن ہونے کے ناطے اپنے ممالک میں اس ادارے کے قوانین کو بھرپور انداز میں لاگو کر چکے ہوں گے لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کے بڑے بڑے بینک منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ وال اسٹریٹ جورنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کینیڈا کے دو تہائی بینک منی لانڈرنگ کے خلاف بنائے گئے قوانین لاگو نہیں کر رہے۔ اسی طرح یورپ کے پانچ بڑے بینک جن میں برطانیہ کے دو بینک ایچ سی بی سی اور بارکلیز، فرانس کے دو بینک بی این پی پیریباس اور سوسیٹے جنرل اور اسپین کا سینٹینڈر بینک شامل ہیں منی لانڈرنگ کا شکار ہیں۔
 
خبر کا کوڈ : 835675
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش