0
Wednesday 1 Jan 2020 20:07

امریکہ کیخلاف عراقی عوامی غیض و غضب

امریکہ کیخلاف عراقی عوامی غیض و غضب
تحریر: ارشاد حسین ناصر

عراق میں شامی سرحد کے نزدیک صوبہ الانبار کے ایک علاقے میں حشد الشعبی سے وابستہ عراقی جہادی گروہ کتائب حزب اللہ کے بیس کیمپ پر امریکی حملے نے عراق میں امریکی موجودگی اور دہشت گردی کے خاتمے کے نام پہ ناامنی کی سازشوں کو طشت از بام کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اتوار 29 دسمبر کو امریکی فضائی فورس نے کتائب حزب اللہ کے بیس کیمپ پر حملہ کیا، جس میں 25 مجاہدین شہید اور 55 زخمی ہوگئے تھے۔ کتائب حزب اللہ، حزب اللہ لبنان اور ایران سمیت عراقی حکومت و سیاسی قیادت نے اس حملے کی مذمت کی تھی اور اسے عراقی سالمیت کے خلاف قرار دیا تھا۔ حشد الشعبی نے اس پر کہا تھا کہ امریکہ کو اس کا جواب دیا جائے گا، جو اس حملے سے بھی سخت ہوگا۔ گذشتہ روز بغداد میں قائم امریکی سفار خانے کے سامنے شہداء کے جنازوں کا لایا جانا تھا جبکہ ایک بڑا ہجوم امریکہ کے خلاف نعرے بلند کرتا پہنچا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ عراقی عوام شدید غم و غصہ میں ہیں۔ در حالینکہ اس مظاہرے میں حشد الشعبی کے مرکزی قائدین بھی شریک تھے، مگر امریکی جارحیت اور بدمعاشی کے خلاف عراقی عوام کا غم و غصہ شدید طور پہ نظر آ رہا تھا۔ عربی میں "شیطان اکبر" امریکہ کے نعرے بھی لگ رہے تھے، جو فکر امام خمینی کے عکاس تھے، اس لئے کہ سب سے پہلے امام خمینے (رہ) نے امریکہ کو شیطان اکبر کہا تھا۔ عراق میں امام خمینی کے نام کے نعرے سن کے دنیا بھر کے انقلابی و نظریاتی لوگوں کو ایک تازہ ہوا کا جھونکا ملا ہے اور امریکہ کی رسوائی اور شکست سے ان کے چہرے کھل اٹھے ہیں۔

جیسا کہ کہا گیا کہ حشد الشعبی کی قیادت صبح سے مظاہرین کے ساتھ امریکی سفارت خانے کے باہر موجود تھی۔ جس میں فالح الفیاض، ابو مہدی مہندس، ہادی العامری اور کتائب حزب اللہ کے قیس خز علی نمایاں طور پہ نظر آئے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی سفیر پہلے ہی اس جگہ سے جا چکے تھے۔ جب مظاہرین سفارت کی طرف بڑھے تو سفارت خانے کی سکیورٹی نے آنسو گیس کے شیل چھوڑے، جن کیوجہ سے بعض مظاہرین زخمی ہوئے ہیں اور ردعمل میں مظاہرین نے سفارت کے انٹری گیٹ اور کیبن کو آگ لگائی اور استقبالیہ میں داخل ہوئے۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ امریکی سفیر کے علاوہ بقیہ تمام عملہ سفارت خانے کے اندر ہی موجود تھا۔ اطلاعات کے مطابق عراقی وزیر داخلہ بھی موقع پر پہنچ گئے تھے۔

بغداد کے منطقہ خضراء میں آمد و رفت چونکہ گذشتہ مظاہروں کیوجہ سے ممنوع تھی، اس وجہ سے مظاہرین کی تعداد کم اور امریکی سفارت خانے کے سامنے اکٹھے ہونے کا ہدف صرف ایک احتجاجی مظاہرہ یا احتجاجی کیمپ لگانا تھا، لیکن سفارت خانے کی سکیورٹی کی فائرنگ کیوجہ سے صورتحال قدرے خراب ہوئی ہے، جسے قیادت کے موقع پر ہونے کے باعث کنٹرول کر لیا گیا۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال میں کہ جب عراق کا ہاتھ امریکہ کے اوپر ہے اور امریکہ نے 2008ء کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور پارلیمنٹ سمیت بیرونی دنیا سے بھی امریکہ کے عراق سے انخلاء کے مطالبے ہو رہے ہیں تو ایسی صورتحال میں ایسا کوئی اقدام جو امریکہ کو ظالم سے مظلوم بنا دے، درست نہیں ہے اور میڈیا ظاہراً بات اسی طرف لے جانا چاہتا ہے کہ عراقی خصوصاً حشد الشعبی کے لوگ امریکی سفارت خانے پر حملہ آور ہوگئے ہیں، جو کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

ویڈیو فوٹیجز میں یہ دیکھا اور سنا جا سکتا ہے کہ مظاہرین "اللہ، اللہ اکبر، امریکا شیطان الاکبر" امریکی سفارتخانے کے باہر پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے ہیں، جبکہ مظاہرین نے امریکی سفارت کے گیٹ سمیت اس کے ایک حصے کو آگ لگا دی۔ بعض رپورٹس کے مطابق امریکی سفارتخانے کے محافظین کے ہاتھوں 20 مظاہرین زخمی ہوئے ہیں، جس کے بعد مظاہرین نے سفارتخانے کے باہر دھرنا شروع کیا۔ مظاہرین عراق سے امریکی انخلا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے حشد الشعبی کے شہداء کے جنازے امریکی سفارتخانے کے سامنے لائے گئے، جو عراق کے مغرب میں امریکی بمباری کے نتیجے میں شہید ہوئے تھے۔ ہادی العامری، شیخ قیس الخز علی، صالح الفیاض اور ابو مہدی مہندس سمیت دیگر سیاسی رہنمائوں نے بھی سفارتخانے کے سامنے جلوس جنازے میں شرکت کی۔ ادھر وزیراعظم عادل عبد المہدی نے حشد الشعبی کے اڈے پر امریکی بمباری کے سانحے کے خلاف تین دن قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ سرحدی شہر القائم میں حزب اللہ عراق کے اڈوں پر امریکی بمباری کے نتیجے میں 25 مجاہدین شہید اور 55 زخمی ہوگئے تھے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر امریکی سفارت کاروں یا سفارت خانے کو مظاہرین کے ہاتھوں نقصان پہنچتا ہے تو یہ عراق کے حق میں نہیں جائے گا۔ احتجاجی مظاہرے کی حد تک بات ٹھیک ہے۔ عین ممکن ہے کہ مظاہرے میں چند شرپسند عناصر بھی ہوں یا سفارت خانے کو اندر سے آگ لگا دی جائے۔ موقع پر موجود عراقی قیادت کو سمجھداری اور بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جس سے غم و غصے کا پیغام بھی منتقل ہو جائے اور نقصان بھی نہ ہو، جبکہ یہ بھی خیال ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو ذلیل کرنے پر آتا ہے تو وہ اس طرح ذلیل کرتا ہے۔۔۔۔ وہ امریکا جس نے ایران سے مقابلے کے لئیے عراق میں اپنے تسلط کے لئے پہلے صدام کو کھڑا کیا، پھر اسی امریکا نے اسے مارا، پھر اب اپنے مطلب کی حکومت بنانے کے لئے جب سے لیکر اب تک 4 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی جو چیز ہاتھ آرہی ہے، وہ ذلت و رسوائی اور شکست ہاتھ آ رہی ہے۔

"امریکی صدر ٹرمپ نے خود کہا کہ عراق میں 4 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی اپنے فوجیوں سے ملنے چھپ کر جانا پڑتا ہے" یاد رہے کہ امریکہ صدر کم از کم دو دفعہ عراق خفیہ اور بغیر اطلاع کے امریکی فوجیوں کو ملنے امریکی فوجی اڈے پر گیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کے باہر عراقی مظاہرین کا احتجاج دوسرے دن بھی جاری ہے۔ کچھ دیر قبل امریکی سفارت خانے کے دوسرے دروازے کو بھی نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ امریکی حکومت نے بغداد میں قائم اپنے سفارت خانے اور عملے کی حفاظت کے لیے فوری طور پر مزید کمانڈوز بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکی جنگی ہیلی کاپٹر امریکی سفارت خانے کے اوپر پرواز کرنے لگے اور مظاہرین کے سروں پر فلر چھوڑے گئے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ نے سفارت کے کچھ عملے کو عقبی دروازے سے تو کچھ کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سفارت خانے سے نکال لیا اور بعض کو سفارت خانے کے اندر خفیہ پناہ گاہوں کے دروازے کھول کر وہاں پہنچا دیا گیا ہے۔

مظاہرین نے رات سے ہی امریکی سفارت خانے کے سامنے دھرنا دے رکھا ہے، اب حشدالشعبی کی قیادت کے اعلان پر مظاہرین امریکی سفارت خانے سے کچھ فاصلے پر چلے گئے ہیں اور وہاں دھرنا دے چکے ہیں۔ دھرنا جاری ہے اور مطالبات سامنے آچکے ہی۔ بغداد میں امریکی سفارت خانے کے باہر دھرنا دینے والوں کے چند مقاصد اور مطالبات:
٭امریکی فضائیہ کے حشد الشعبی کے فوجی مرکز پر حملے کی مذمت، جس میں 78 افراد شہید اور زخمی ہوئے تھے۔
٭ امریکہ کی طرف سے عراقی خود مختاری کی خلاف ورزی کی مذمت۔
٭ حکومت اور سیاستدانوں میں موجود کالی بھیڑوں کی مخالفت اور مذمت۔
٭امریکی سفیر کے عراق سے اخراج کا مطالبہ۔
٭پارلیمان ایک باوقار اور شجاعانہ قرارداد کے ذریعے قابض امریکی افواج کے عراق سے انخلا کی منظوری دے۔
٭امریکی فضائی حملوں میں 2014ء سے اب تک شہید ہونے والے شہداء کی فیملیز کو خون بہا ادا کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی کئی ایک بار امریکی فورسز نے عام عوام کو اپنی بمباری کا نشانہ بنایا ہے، جس میں متعدد شہادتیں واقع ہوئیں۔
٭امریکہ کی پشت پناہی سے سیاسی اور اقتصادی امور میں رائج حصہ بندی کا خاتمہ اور ایک قومی سیاسی نظام کا قیام۔

عراق کے شہر بغداد میں واقع امریکی سفارتخانے پر عوامی غیض و غضب اور غم و غصہ کے نتیجہ میں پیش آنے والے واقعات کی ذمہ داری امریکی صدر نے ایران پر عائد کی ہے اور دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اس سب کا ذمہ دار ہے، جسے اس کا جواب دیا جائے گا، جبکہ امریکہ یہ بھول گیا ہے کہ اسی عراق کے شہر کربلا اور نجف میں ایرانی قونصلیٹس کو بھی جلایا گیا ہے، جس پر وہ خوشیاں منا رہے تھے اور آگ لگانے والے نقاب پوش ایران کے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے۔ بعد ازاں ان میں سے بعض گرفتار بھی ہوئے اور انہوں نے سعودی سفارت سے بھاری رقوم لینے کا اعتراف بھی کیا۔ یہ ایک حقیقیت ہے کہ عراق میں امریکہ اور سعودیہ سمیت اس کے اتحادیوں کو بری طرح شکست ہوئی ہے، داعش کی شکست دراصل امریکہ، سعودیہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست تھی، جسے عراقی عوام نے اپنے ہزاروں شہداء کی قربانیوں سے ممکن بنایا، اب بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد میں ناکام ہوگا، اس نے جو گڑھا ایران کیلئے کھودا تھا، اب اس میں خود گرا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 835943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش