0
Thursday 2 Jan 2020 00:16

اسلامی نظام حکومت میں آزادی کا تصور

اسلامی نظام حکومت میں آزادی کا تصور
تحریر: حجہ الاسلام و المسلمین داعی نژاد

سیاسی محققین نے حکومت کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر ژاں ژاک روسو (Jean-Jacques Rousseau) کہتا ہے: "حکومت عوام اور مقتدر اداروں (اسٹبلشمنٹ) کے درمیان پل ہے جو انہیں ایکدوسرے سے مربوط کرتا ہے اور اس کا کام قانون کا اجراء اور سیاسی آزادی کی حفاظت کرنا ہے۔" اس تعریف کی رو سے سیاسی آزادیوں جیسے آزادی اظہار، انتخاب میں آزادی اور سوچنے کی آزادی کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اس معنی میں حکومت منظم انداز میں حکمفرمائی کا نام ہے۔ یعنی افراد کے ایک خاص مجموعے کیلئے قوانین وضع کرنے، اس پر نظارت کرنے اور انہیں اجراء کرنے کا عمل۔بعض اوقات حکومت کا لفظ قوہ مجریہ (ایگزیکٹو) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جبکہ بعض جگہ ریاست کے معنی میں۔ ریاست ایک ایسی علاقائی سالمیت ہے کہ حکومت (قوہ مجریہ کے معنی میں) اس کا اجرائی ونگ ہے۔ ریاست، حکومت سے زیادہ وسیع اور جامع ہوتی ہے۔ ریاست ایک آئین اور قانونی قواعد و ضوابط کی حامل ہوتی ہے جس کے اندر رہتے ہوئے حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔ ریاست چار عناصر سرزمین، عوام، حکومت اور حاکمیت پر مشتمل ہوتی ہے۔

بہرحال، یہاں حکومت سے مراد وہی قوہ مجریہ اور سیاسی طاقت ہے جو ایک معاشرے کے اہداف کے حصول اور مطلوبہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور قواین کے اجرا کیلئے بروئے کار لائی جاتی ہے۔ حکومت کی رائج اصطلاح کا بھی یہی معنی ہے۔ حکومت کی مختلف اقسام ہیں: جمہوری یا عوامی حکومت، آمرانہ حکومت جو طاقت کے زور پر حاصل کی گئی ہو وغیرہ۔ (نہج البلاغہ، خط 53) لہذا ایک حکومت کئی قسم کی ہو سکتی ہے اور ہر قسم کی حکومت میں آزادی کی خاص حدود ہیں۔ مثال کے طور پر آمرانہ حکومت یا ڈکٹیٹرشپ میں انسانوں کی آزادی کا دائرہ وسیع نہیں جبکہ جمہوری اور پارلیمانی حکومتوں میں زیادہ آزادی مہیا کی جاتی ہے۔ نتیجتاً مطلق العنانیت اور تمام اختیارات پر قابض ہونے کے معنی میں طاقت کا انحصار ہر حکومت کی خصوصیات میں سے نہیں اور حکومت کی بعض اقسام میں سیاسی طاقت کی تقسیم انتہائی واضح امر ہے۔

مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اسلامی حکومت میں شہریوں کو کس حد تک آزادی فراہم کی جاتی ہے اور اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اسلامی حکومت ایک قسم کی آمرانہ اور مطلق العنان حکومت ہے یا شہری آزادیوں کے لحاظ کے ساتھ قانون پر مبنی حکومت ہے؟ آیات، روایات اور دینی پیشواوں کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی حکومت الہی قانون پر مبنی حکومت ہے جس میں شہریوں کو اظہار، عقیدے، عمل اور سیاست کے میدانوں میں وسیع پیمانے پر آزادی حاصل ہے۔ ذیل میں مزید وضاحت کی گئی ہے:

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
كٰانَ اَلنّٰاسُ أُمَّةً وٰاحِدَةً فَبَعَثَ اَللّٰهُ اَلنَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ اَلْكِتٰابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ اَلنّٰاسِ فِيمَا اِخْتَلَفُوا فِيهِ وَ مَا اِخْتَلَفَ فِيهِ إِلاَّ اَلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مٰا جٰاءَتْهُمُ اَلْبَيِّنٰاتُ بَغْياً بَيْنَهُمْ فَهَدَى اَللّٰهُ اَلَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اِخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ اَلْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَ اَللّٰهُ يَهْدِي مَنْ يَشٰاءُ إِلىٰ صِرٰاطٍ مُسْتَقِيمٍ (سورہ بقرہ، آیت 213)
ترجمہ: "(پہلے تو سب) لوگوں کا ایک ہی مذہب تھا (لیکن وہ آپس میں اختلاف کرنے لگے) تو خدا نے (ان کی طرف) بشارت دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے اور ان پر سچائی کے ساتھ کتابیں نازل کیں تاکہ جن امور میں لوگ اختلاف کرتے تھے ان کا ان میں فیصلہ کر دے۔ اور اس میں اختلاف بھی انہیں لوگوں نے کیا جن کو کتاب دی گئی تھی باوجود یہ کہ ان کے پاس کھلے ہوئے احکام آچکے تھے (اور یہ اختلاف انہوں نے صرف) آپس کی ضد سے (کیا) تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھا دی۔ اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھا رستہ دکھا دیتا ہے۔"
اس آیت شریفہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام نے اپنی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے انہیں عوام تک پہنچایا اور حاکم وہی انبیاء الہی ہیں۔ یوں نہ صرف دین اور حکومت میں تضاد نہیں پایا جاتا بلکہ انبیاء علیہم السلام کو دینی تعلیمات کی روشنی میں عوام پر حاکمیت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے:
وَ يَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَ اَلْأَغْلاٰلَ اَلَّتِي كٰانَتْ عَلَيْهِمْ (سورہ اعراف، آیت 157)
ترجمہ: "اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے اتارتے ہیں۔"
اس آیت شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف دین اور دینی حاکمیت جو انبیاء علیہم السلام کی رسالت کا حصہ ہے، آزادی سے تضاد نہیں رکھتی اور اجبار اور اختیار سلب ہونے کا باعث نہیں بنتی بلکہ انبیاء علیہم السلام کا مقصد الہی قانون اور تعلیمات حکمفرما کر کے انسانوں کو ان زنجیروں اور رسیوں سے آزاد کروا سکیں جن میں وہ گرفتار ہو چکے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر سے، جو مصر کے والی مقرر کئے گئے تھے فرمایا:
وَ أَشْعِرْ قَلْبَكَ الرَّحْمَةَ لِلرَّعِيَّةِ وَ الْمَحَبَّةَ لَهُمْ وَ اللُّطْفَ بِهِمْ وَ لَا تَكُونَنَّ عَلَيْهِمْ سَبُعاً ضَارِياً تَغْتَنِمُ أَكْلَهُمْ، فَإِنَّهُمْ صِنْفَانِ: إِمَّا أَخٌ لَكَ فِي الدِّينِ وَ إِمَّا نَظِيرٌ لَكَ فِي الْخَلْقِ (نہج البلاغہ، خط 53)
ترجمہ: "اپنے دل کو عوام کی محبت اور ان پر مہربانی سے لبریز کر دو اور ہر گز ان کے ساتھ ایسے درندے کی طرح پیش نہ آنا جو انہیں کھانے میں اپنی غنیمت سمجھتا ہو کیونکہ عوام دو قسم کے ہیں: ایک قسم تمہارے دینی بھائی ہیں جبکہ دوسری قسم مخلوق ہونے کے اعتبار سے تمہارے ہم پلہ ہیں۔"
اس فرمان کے تحت حکومت کا لازمہ عوام اور شہریوں سے محبت، رحمت اور مہربانی ہے نہ آمریت، خودپسندی اور مفاد پرستی۔

اسلامی حکومت کا مقصد حقدار کو اس کا حق دلوانا اور باطل کو دور کرنا ہے نہ طاقت پرستی لہذا مطلق العنانیت پر مبنی نہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"میری نظر میں حکومت کی قدر میرے اس پرانے جوتے سے بھی کمتر ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے حق کا احیاء کروں اور باطل کو دور کروں۔" (نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳)
اسلامی حکومت کا مقصد دین کو زندہ کرنا اور سماجی اصلاحات ہیں۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ وَلَا الْتِمَاسَ شَيْ‏ءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَلَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ وَنُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَتُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ (نہج البلاغہ، خطبہ 131)
ترجمہ: "بار الہا، تو آگاہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم سے سرزد ہوا وہ نہ تو حکومت اور سلطنت کے لالچ کیلئے تھا اور نہ ہی دنیوی مال و متاع کے حصول کیلئے تھا بلکہ صرف اس خاطر تھا کہ تیرے دین کی نشانیاں واپس لوٹا دیں اور تیرے شہروں میں اصلاح اور امن و امان برقرار کریں تاکہ تیرے ظلم کے ستائے بندے امن اور آرام سے رہ سکیں اور تیرے وہ احکام زندہ ہو سکیں جو اب تک متروک ہوتے آئے ہیں۔"
لہذا اسلامی حکومت دین کے احیا اور اجتماعی سکیورٹی اور امن و امان کو یقینی بنانے اور عوام کے حقوق ان تک پہنچانے کیلئے ہے نہ طاقت کے بے جا استعمال کیلئے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
حَقٌّ عَلَى الْإِمَامِ أَنْ يَحْكُمَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ
ترجمہ: "امام کیلئے ضروری ہے کہ وہ الہی قوانین کے تحت حکمفرمائی کرے۔"
یوں حکومت کی بنیاد خود دین ہے اور یہ دین اور حکومت میں تعلق کی اعلی حد ہے اور ایک پہلو سے خودپسندی اور مفادپرستی کی روک تھام کا سبب فراہم کرتا ہے۔
اسلامی حکومت میں اظہار کی آزادی سمیت مختلف قسم کی آزادیاں پائی جاتی ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"پس میرے ساتھ اس انداز میں بات نہ کریں جس انداز میں سرکش بادشاہوں سے بات کی جاتی ہے اور مجھ سے ایسے دوری اختیار مت کریں جیسے غضب ناک افراد سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔ میرے ساتھ ریاکارانہ طرز عمل نہ اپنائیں اور یہ گمان نہ کریں کہ اگر آپ مجھ سے کوئی حق بات کہیں گے تو وہ مجھے بہت گراں گزرے گی ۔ ۔ ۔ ، پس حق کی بات کرنے یا انصاف پر مبنی مشورہ دینے میں ہر گز ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔" (نہج البلاغہ، خطبہ 216)

امام علی علیہ السلام مصر میں اپنے والی مالک اشتر کو مخاطب قرار دے کر فرماتے ہیں:
"اپنے سپاہیوں، ساتھیوں اور محافظین کو ان (عوام) کے راستے سے دور کرو تاکہ وہ کسی پریشانی اور بے چینی کے بغیر کھل کر تم سے بات چیت کر سکیں۔" (نہج البلاغہ، مراسلہ 53) یہاں تک یہ واضح ہو گیا کہ حکومت کا لازمہ مطلق العنانیت اور طاقت کا انحصار نہیں اور اسلامی حکومت ایسی حکومت ہے جس میں مستحقین کے حقوق کی ادائیگی، انصاف پسندی، دین کے اجرا اور سماجی و سیاسی آزادیوں کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات انجام دیئے جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 835967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش