0
Thursday 2 Jan 2020 09:32

عابدہ آل علی (ع)

عابدہ آل علی (ع)
تحریر: ظہیر عباس جٹ
Zaheerabasjut@gmail.com

جب زمانہ جاہلیت میں عورت کو زندہ دفن کیا جاتا تھا تو عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اس وقت پیامبر اکرم (ص) پر سب سے پہلے ایمان لانے والی ملیکہ العرب جناب سیدہ خدیجہ بنت خویلد نے اسلام کیا قبول اور اپنا سب کچھ اسلام کی خاطر قربان کر دیا۔ اسلام کی دوسری خاتون جناب سیدہ فاطمہ زہراء (ص) نے اپنے پیارے بابا اور امیرالمومنین علی (ع) کی اسلام کی خاطر ہر قدم پر مدد کی، حتی کہ اولین شہیدہ ولایت قرار پائیں۔ تیسری وہ خاتون جس کی کبھی گھر سے باہر آواز کسی نے نہ سنی تھی، لیکن اسلام کی خاطر اپنے پیارے بھائی حضرت امام حسین (ع) کے ساتھ مدینہ سے مکہ، مکہ سے کربلا، کربلا معلی میں اپنے سامنے بھائی و بھتیجوں اور اصحاب امام حسین (ع) کو شہید ہوتے دیکھا، اسوقت اپنی پاک چادر کو اسلام کی خاطر قربان کیا اور دشمن کو چپ کرا دیا اور دشمنوں کے سوئے ہوئے  ضمیروں کو جھنجھوڑا۔

نام: زینب بنت علی
والدہ کا نام: فاطمہ بنت محمد
ولادت باسعادت: پانچ جمادی الاول سن 5 ھجری
القاب: عقیلہ بنی ہاشم، عالمہ غير معلمہ، کاملہ، فاضلہ، عابدہ آل علی، محدثہ، موثقہ، عارفہ، نایبۃ الزہراء، ملیکہ النساء، زاہدہ، صدیقہ۔
مقام ولادت: مدینہ منورہ
وفات: پندہ رجب سن 63 ھجری
مدفن: دمشق
زوجہ: عبداللہ بن جعفر
اولاد: محمد، عون، علی، عباس، ام کلثوم.
زندگی: 57 سال

عظمت جناب سیدہ زینب (س):
امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں: آپ بحمداللہ ایسی عالمہ ہیں، جس نے کسی معلم کے سامنے زانوئے ادب تہ نہیں کئے۔ ایسی دانا اور علم والی ہیں، جس نے کسی سے سیکھا نہیں۔1 جناب زینب (س) تفسیر قرآن کریم کے لیے خاص درس دیتی تھیں، جس میں بہت خواتین شرکت کرتی تھیں۔2 جناب زینب (س) جب امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتی تھیں، امام حسین (ع) آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔3 جناب زینب (س) بافضیلت ترین خواتین میں سے تھیں۔ ان کی منزلت اس سے کہیں زیادہ سنہرے حروف میں ذکر کی جانی چاہیئے۔ ان کی عظمت و جلالت، قوت استدلال، بلوغ عقل، فصاحت زبان، ثبات قلب کا یہ عالم تھا کہ گویا کوفہ و شام میں اپنے بابا امیرالمومنین علی (ع) کے لہجے میں خطبات دیئے۔ابن زیاد اور یزید کے سامنے آپ کا احتجاج ایسا تھا کہ ان کو خاموش کرا دیا۔ یہاں تک کہ وہ بدکلامی و سب و شتم پر اتر آئے، جو عاجز و لاچار اور دلیل نہ رکھنے والوں کا اسلحہ ہوتا ہے۔ جناب زینب (س) کا یہ کام کوئی تعجب کی بات نہیں تھا، وہ شجرہ طیبہ اور نسل پاک ہاشمیہ کی ایک شاخ تھیں۔4

عبادت:
حضرت زینب الکبری (س) راتوں میں مصلیٰ عبادت پر ہوتی تھیں۔ جناب زینب (س) کی اپنی زندگی مبارکہ میں کبھی نماز شب بھی قضا نہیں ہوئی۔ آپ (س) اس قدر عبادت گزار تھیں کہ انہیں عابدہ آل علی کہا جاتا تھا۔ آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں میں بھی ترک نہ ہوئی۔5 جناب فاطمہ بنت امام حسین (ع) فرماتی ہیں: شب عاشور بھی پھوپھی زینب (س) مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں، نماز و راز و نیاز میں مشغول تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔6 جناب زینب (س) کربلا معلیٰ میں امام حسین (ع) کے ساتھ موجود تھیں اور واقعہ کربلا کے بعد جناب زینب (س) کا کردار اسلام میں روز روشن کی طرح واضح ہے۔ تمام  مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی جناب زینب (س) کے خطبات جو اسیری کے عالم میں کوفہ و شام میں دیئے گئے، ان خطبات کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ دشمن اسلام نے جنگ کربلا کے بعد سوچا تھا کہ نواسہ رسول کو شہید کرکے ہم جنگ جیت گئے، لیکن جناب سیدہ زینب (س) کے خطبات نے دشمن کو نہ صرف خاموش کرا دیا بلکہ منوایا کہ حقیقی اسلام کے وارث ہم اولاد رسول (ص) ہیں۔ کوفہ و شام میں اپنے بابا حیدر کرار (ع) کے لہجے میں خطبات دیئے۔

اسلام کا دشمن بڑا چالاک و مکار ہے، کسی نہ کسی طریقے سے خاندان آل اطہار (ع) پر حملے کرتا رہتا ہے، کبھی تاریخ کو موضوع بنا کر، کبھی پیروان مکتب اہل بیت (ع) کے عقائد پر، کبھی مقامات مقدسہ پر حملے کی صورت میں۔ آج سے تقریباً سو سال پہلے اسلام دشمنوں نے جنت البقیع کو مسمار کرا دیا۔ آج دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے مل کر چاہے وه ظاہری دشمن ہو یا اسلام کا لبادہ اوڑھ کر حرم مطهر جناب سیدہ زینب (س) کو شہید کرنے کی ناکام کوششیں کی، لیکن نوکران جنابِ زینب (س) اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے حرم مطهر جناب سیدہ زینب (س) کی حفاظت کی بلکہ دشمن کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کیا، جو دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں نے مل کر فوج تیار کی تھی، اسے شکست فاش دی۔ جناب سیدہ زینب (س) کی اسلام پر اتنی پرخلوص قرباتی تھی کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج اسلام پوری دنیا میں زندہ ہے تو جنابِ زینب (س) کی قربانیوں سے۔ تاریخ اسلام میں جہاں مسلم و غیر مسلم مورخین کچھ لکھنا چاہتے ہیں تو مجبوراً جناب سیدہ زینب کا کردار کربلا لکھنا پڑھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
1۔ طبرسی ج 2، ص 305
2۔ عوالم العلوم ج 11، ص 954
3۔ عوالم العلوم ج 11، ص 955
4۔ اعیان الشریعہ ج 7، ص 137
5۔ جعفر النقدی ص 61
6۔ ریاحین ج 3، ص 62
خبر کا کوڈ : 836060
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش