0
Thursday 2 Jan 2020 19:14

ہم تبدیلی کے مارے ہوئے ہیں

ہم تبدیلی کے مارے ہوئے ہیں
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے، جو ہر صورت جاری رہتا ہے۔ اگر مناسبت حکمت عملی اختیار کی جائے اور سخت محنت و جدوجہد سے کام لیا جائے تو حالات میں بہتری کی تبدیلی آتی ہے۔ اگر مطلوبہ قابلیت نہ ہو اور محنت نہ کی جائے تو حالات مزید دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ محترم عمراں خان صاحب نے تبدیلی کے نام پر ووٹ حاصل کیا۔ عوام کو خوش کن خواب دکھائے اور پاکستان کے حکمران بن گئے۔ تبدیلی سے شائد ان کی مراد یہ تھی کہ جو وعدہ بھی  کیا ہے، حکومت ملتے ہی اسے تبدیل کر دوں گا اور مسلسل عوام کش پالیسیاں بنا کر غریب سے دو وقت کا نوالہ بھی چھین لوں گا۔ ابھی دو دن پہلے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے فرمایا کہ نیا سال اچھا ہوگا، یقین کریں کہ اسی وقت سے دل میں دھڑکا سا تھا کہ خدا خیر کرے، اب ضرور کچھ گڑ بڑ ہونے والی ہے، وہی ہوا۔

آج صبح صبح دودھ لینے گیا، دودھ والے کو پچھلے ماہ کا بل دیا، اس نے گن کر کہا جناب پیسے کم ہیں، میں نے کہا کلکولیٹر سے حساب کیا ہے، اتنے دن ہیں اور اتنے دنوں کے اتنے پیسے بنتے ہیں۔ اس پر اس نے کہا کہ جناب آپ نے ایک سو دس روپے کلو کے حساب سے پیسے دیئے ہیں اور دودھ اب ایک سو بیس روپے کلو ہے۔ اس نے چارہ، توڑی اور کھل کے ریٹ کا ایسا حساب کرکے بتایا کہ دودھ کو تو اگلے چند دنوں میں دیڑھ سو تک ہو جانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خان صاحب کو وہ صلواتیں سنائیں کہ میں نے بھاری دل سے اسے اضافی پیسے دیئے اور وزیراعظم کو دعائیں دیتا گھر پہنچا۔ گھر والوں نے کہا کہ گیس ختم ہوگئی ہے، اب گیس لینے گیس والے کے پاس سلَنڈر چینج کرنے پہنچے تو اس نے کہا جناب سلَنڈر دو ہزار روپے کا ہے۔ تعجب سے اسے دیکھا تو اس نے کہا جناب دو ہزار ہی کہا ہے، ایک ماہ پہلے چودہ سو میں ملنے والا سَلنڈر  دو ہزار کا ہوگیا ہے۔

مہنگائی نے غریب آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے، صرف 2019ء میں پٹرول کی قیمتیں چھ مرتبہ بڑھائی گئیں، جانے وہ عمران خان کہاں ہے، جو ہمیں پروجیکٹر لگا کر سمجھایا کرتا تھا کہ تیل کا اصل لیٹر تو پنتیس روپے ہے، باقی سب تو وہ جگا ٹیکس ہے، جو عوام کی جیب  سے لوٹا جاتا ہے۔ سننے والے یہ سمجھنے لگے تھے اور خواہش کر رہے تھے کہ عمران خان صاحب جیسے ہی وزیراعظم بنیں گے، شائد یہ جگا ٹیکس ہٹا دیا جائے گا اور پٹرول چالیس روپے لیٹر ہو جائے گا، مگر کہاں جی؟ بقول مرزا اسداللہ خان غالب:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکل


بجلی کی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے، خان صاحب کے نئے سال کے تحفے میں بجلی کی قیمتوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ خبر کے مطابق نیپرا نے بجلی ایک روپے 56 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اکتوبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا، جس کا اطلاق ماہانہ 50 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین پر نہیں ہوگا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر ساڑھے 14 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑےگا۔ ویسے خان صاحب نے بہت احسان کیا ہے کہ پچاس یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو اس اضافے سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ ایک دوست نے اس پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا کہ پچاس یونٹ وہی استعمال کرسکتے ہیں، جو بجلی فقط موم بتی ڈھونڈنے کے لیے ہی استعمال کرتے ہوں۔ خان صاحب جس کو آپ عوام کے لیے ڈاکہ کہا کرتے تھے اور جس کی  وجہ سے آپ حکمرانوں کو چور فرمایا کرتے تھے، اب ذرا اس ماہ کا بل ہی اٹھا کر دیکھ لیں، پتہ چل جائے گا کہ اصل بجلی پانچ سو کی استعمال ہوئی ہے، باقی سب تو جانے کون کون سے چارجز لگا کر بل پندرہ سو کا کر دیا گیا ہے۔

ویسے لفظ ِ تبدیلی ایسا بدنام ہوا ہے کہ اب پی ٹی آئی کے دوستوں کے سامنے بھی اسے دہرایا جائے تو وہ بھی شرمندہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور موضوع تبدیل کر دیتے ہیں۔ کچھ دن پہلے پنجاب یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس تھی، ایک مہمان برطانیہ سے تشریف لائے تھے اور مہمان خصوصی کا اعزاز بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے مغرب میں ہونے والی پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھی یہ تبدیلی چاہیئے اور اس بات پر ذرا زور دیا۔ خالص علمی گفتگو چل رہی تھی، پروفیسرز اور پی ایچ ڈی سکالرز سامعین میں شامل تھے، مگر جیسے ہی لفظ تبدیلی سنا تو ہال قہقہوں سے گونج اٹھا، انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انہوں نے ایسا کیا کہا ہے، جس پر سب لوگ اس قدر خوش ہیں تو بعد میں، میں  نے عرض کیا کہ جناب ہم سب تبدیلی کے مارے ہوئے ہیں، اس لیے اب یہ لفظ اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔

ویسے خان صاحب ہم مہنگائی کے طوفان کو برداشت کر لیتے، روکھی سوکھی کھا لیتے اور اگر ضرورت پڑتی تو بھوکے بھی سو جاتے، اگر آپ نے اپنے الفاظ کا پاس رکھا ہوتا۔ آئی ایم ایف کے سامنے کشکول نہ پھلایا ہوتا، عربوں کی چاکری نہ کی ہوتی، جس طرح آپ نے تقریر کی تھی، اسی سج دھج سے آپ نے ملائیشیاء کی کانفرنس میں شرکت کی ہوتی۔ اہل کشمیر اور ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے جارحانہ  سفارتی مہم چلائی ہوتی، مگر افسوس اور کچھ تو تبدیل نہ ہوا، آپ خود تبدیل ہوگئے، کیونکہ دوسروں کو تبدیل کرنا ذرا مشکل کام ہے، جس کے لیے محنت درکار ہوتی ہے، اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ ہم تبدیلی کے مارے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 836127
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش