0
Thursday 2 Jan 2020 22:56

دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف پھیلتی نفرت اور غصہ

دنیا بھر میں امریکہ کے خلاف پھیلتی نفرت اور غصہ
تحریر: جعفر بلوری

امریکی حکمرانوں نے عراقی وزیراعظم کی مخالفت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور اس ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو روندتے ہوئے عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی کے فوجی بیس کر فضائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں تقریبا 30 رضاکار فوجی شہید جبکہ بڑی تعداد میں زخمی ہو گئے۔ اس بات پر غور کریں کہ عراقی وزیراعظم کو فون کر کے بتایا جاتا ہے کہ ہم آپ کے ملک میں فضائی حملہ کرنا چاہتے ہیں اور آپ کی مخالفت ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ یہ اقدام کس قدر نفرت انگیز اور اشتعال انگیز ہے، کیا ایسا نہیں؟ امریکی حکام اس سے پہلے بھی حشد الشعبی کے کئی ٹھکانوں کو ہوائی حملوں کا نشانہ بنا چکے ہیں لیکن پہلے کبھی بھی سرکاری سطح پر اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ لیکن اس بار امریکی حکام نے سرکاری سطح پر اعلان کیا کہ یہ ہمارا کام تھا۔ اس توہین آمیز اقدام کے علاوہ عراقی حکام کو اطلاع دیے بغیر امریکی حکمرانوں کا عراق کا دورہ بھی مدنظر قرار دیجئے جبکہ خطے کے بعض دیگر ممالک میں بھی امریکیوں کا بالکل یہی رویہ ہے۔ کیا ایسے اقدامات کا فطری ردعمل عوامی غم و غصے اور نفرت کی صورت میں ظاہر نہیں ہو گا؟

منگل 31 دسمبر کے دن مشتعل عراقی عوام نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور سفارت خانے کے کچھ حصوں کو آگ لگا دی۔ انہوں نے اس طرح اپنے اندر موجود امریکہ کے خلاف شدید نفرت اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح مظاہرے میں شامل افراد نے امریکی پرچم بھی نذر آتش کیا اور حشد الشعبی کے پرچم امریکی سفارت خانے پر آویزاں کر دیے۔ 4 جولائی کا دن امریکہ میں یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال یوم آزادی کے دن خود امریکہ اندر بعض شہریوں نے اپنا پرچم نذر آتش کر دیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو بہت کم کسی ملک میں رونما ہوتا ہے بلکہ دنیا کے کسی ملک میں اس کی مثال ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے عراق میں امریکہ کا پرچم نذر آتش کرنے والوں کے پاس اپنے کام کی ٹھوس دلیل موجود ہو۔ مثال کے طور پر وہ کہیں کہ امریکہ نے ہمارے ملک کی توہین کی ہے اور خودمختاری کا احترام نہیں کیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی شہریوں کی جانب سے خود اپنا پرچم نذر آتش کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا ان کا یہ اقدام بھی غصے اور نفرت کا اظہار ہے؟ ہم دو مقدمات بیان کر کے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

شاید امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں "وطن" اور "وطن پرستی" کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن عمل کے میدان میں "امریکی ہونا" بالکل فخر آمیز بات تصور نہیں کی جاتی۔ گیلپ نامی تحقیقاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے: "امریکی عوام اب اپنے امریکی ہونے پر فخر محسوس نہیں کرتے۔" دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جس کی عوام یوم آزادی کے دن اپنا پرچم نذر آتش کرتے ہوں؟ عام طور پر ہر ملک میں ایسا دن یوم جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ خاص تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور بڑے فخر سے اپنے ملک کی آزادی کے قصے دہرائے جاتے ہیں۔ لیکن اس سال 4 جولائی کے دن دو حصوں میں تقسیم امریکی معاشرے کے افراد نے وائٹ ہاوس کے سامنے مظاہرہ کیا اور آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں نعرے بازی ہو رہی تھی جبکہ دوسری طرف ٹرمپ کے خلاف نعرے لگائے جا رہے تھے۔ دونوں دھڑے آپس میں ٹکرا گئے۔ امریکی پرچم نذر آتش کر دیا گیا اور یوں قومی سطح پر ایک بہت بڑی رسوائی اور شرمندگی معرض وجود میں آ گئی۔

امریکہ میں ایسے انوکھے واقعے کی مختلف وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں لیکن جو بات یقینی اور قطعی ہے وہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی معاشرے میں دوئیت اور تقسیم کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی میڈیا میں امریکی پرچم نذر آتش کئے جانے کی بہت خبریں دکھائی دی ہیں لیکن یہ پہلی بار تھی جب خود امریکہ میں خود امریکی شہریوں کے ہاتھوں یوم آزادی کے موقع پر وائٹ ہاوس کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا گیا ہے۔ ماضی میں امریکہ میں قومی پرچم مہاجرین کی جانب سے نذر آتش کیا جاتا رہا ہے۔ مہاجرین آخرکار امریکہ میں پیدا نہیں ہوئے اور ان سے حب الوطنی کے خلاف اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے لیکن 4 جولائی کا واقعہ اس لحاظ سے بھی عجیب تھا کہ قومی پرچم نذر آتش کرنے والے افراد خود امریکی شہری تھے۔ وائٹ ہاوس کے سامنے ہونے والے اس مظاہرے میں ہر طبقے کے افراد شامل تھے۔ سیاہ فام، سفید فام، ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی، ریپبلکن پارٹی کے حامی، مہاجرین، لوکل شہری وغیرہ۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن بعض اوقات امریکہ میں ہونے والے مظاہروں میں امریکی شہریوں نے فلسطین کا پرچم بھی اٹھایا ہوتا ہے۔

امریکہ کے علمی اور انٹیلی جنس حلقوں کی جانب سے ایسی بہت سی رپورٹس شائع ہوئی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ یورپی ممالک میں بھی قوم پرست اور نسل پرست سفید فام عناصر کی سرگرمیوں اور اثرورسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں گاہے بگاہے دونوں دھڑوں کے حامیوں کی جانب سے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اور بعض اوقات ان میں مہلک ٹکراو بھی انجام پاتا رہتا ہے۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ اور بعض دیگر یورپی ممالک میں بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات میں نسل پرست عناصر زیادہ کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ لہذا ایسے متعصب اور خطرناک عناصر کی طاقت میں اضافے کے باعث معاشرے کے دیگر افراد کی جانب سے ردعمل کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ خود مغربی سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے افراد نے مغرب اور مغربی اقدار کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ ان کے بقول ایسے سیاست دان ان کی قومی عزت اور وقار پر بدنما داغ ہیں۔ لہذا امریکہ کے موجودہ حالات کے پیش نظر اپنے ہی شہریوں کی جانب سے اپنا ہی قومی پرچم نذر آتش کئے جانا دور از امکان نظر نہیں آتا۔ ایسی قوم جس کا وقار مجروح ہو چکا ہو اور اس کا تشخص پامال ہوا ہو اس کیلئے حب الوطنی اور قومی وقار کوئی معنی نہیں رکھتا۔

ایسی قوم جس پر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص حکومت کر رہا ہو اور اسے پوری دنیا میں مجرم ملک کے طور پر جانا جاتا ہو کس طرح اپنی قومیت پر فخر محسوس کر سکتی ہے؟ یہاں ایک اور اہم نکتہ موجود ہے اور وہ یہ کہ ایسے حالات موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت سے مخصوص نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ درحقیقت براک اوباما کا حقیقی اور بغیر میک اپ کا چہرہ ہے اور دونوں میں زیادہ فرق نہیں پایا جاتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے خفیہ اور حقیقی چہرے کی عکاسی کر رہے ہیں اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ واضح اور غیرسفارتی انداز میں بات کرتے ہیں۔ براک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک روح کے حامل دو بدن کی مانند ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سابق امریکی صدور کے برعکس اپنی اصلی نیت اور امریکہ کے اصل حقائق چھپاتے نہیں ہیں اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر کھلم کھلا اس کا اظہار کر دیتے ہیں۔ لیکن امریکی شہریوں کا قومی وقار مجروح ہونے اور ان کی جانب سے اپنی شہریت اور قومی پرچم پر فخر محسوس نہ کرنے کی حقیقی وجوہات جاننے کیلئے کچھ حد تک امریکی تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف شروع ہونے والی اینٹی وال اسٹریٹ تحریک کے دوران بھی ملے جلے واقعات دیکھنے کو ملے تھے۔ امریکی عوام کے صبر کا پیمانہ قومی اقدار کے نام پر اپنے ساتھ ہونے والی بے انصافیوں اور اپنے اوپر تھونپے گئے امتیازی رویوں کی بدولت لبریز ہو چکا ہے۔ دوسری طرف امریکی حکمران مسلسل ایسی اقدار پر زور دے رہے ہیں جن کی عوام کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔

لہذا عوام کی جانب سے ایسے ردعمل سامنے آنا بھی کوئی عجیب بات نہیں۔ نائن الیون کے حادثات اور امریکی حکمرانوں کی جانب سے انہیں بنیاد بنا کر عراق، افغانستان، شام، پاکستان، یمن، ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں مجرمانہ اور غیر انسانی اقدامات نے امریکی عوام کو دنیا کے سامنے شرمندہ کر ڈالا ہے۔ امریکی عوام ہر روز دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکہ کا نام نفرت سے لیا جاتا ہے اور امریکہ دنیا میں مجرمانہ اقدامات کی علامت بن چکا ہے۔ جب امریکی عوام کا اپنے حکمرانوں کے خلاف غصہ اور نفرت ایک حد سے زیادہ بڑھ گیا تو انہوں نے اپنا ہی قومی پرچم وائٹ ہاوس کے سامنے نذر آتش کر ڈالا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں اس بارے میں کہا ہے: "امریکی حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ عراق اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کی عوام ان کے مجرمانہ اقدامات کے باعث ان سے شدید متنفر ہیں اور یہ نفرت کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتی ہے۔ امریکہ کی جانب سے خطے کی عوام پر ظلم و ستم، ان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار اور تکبر آمیز رویہ اس نفرت کا باعث ہیں۔ امریکی حکمرانوں کی جانب سے مقامی حکومت سے اجازت لئے بغیر خطے کے بعض ممالک کا دورہ کرنا اور وہاں موجود اپنے فوجی اڈوں میں آمدورفت کرنا خطے کے ممالک اور اقوام کے ساتھ توہین آمیز رویوں کی ایک مثال ہے۔ یہی رویے امریکہ کے خلاف عوامی نفرت اور غصے کا باعث بنے ہیں۔"
 
خبر کا کوڈ : 836166
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش