0
Friday 3 Jan 2020 22:45

پاراچنار، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کیخلاف احتجاج

پاراچنار، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کیخلاف احتجاج
تحریر: ایس این حسینی

دنیا بھر کی طرح سرزمین شہداء پاراچنار میں بھی جنرل قاسم سلیمانی کی دلسوز شہادت پر آج نماز جمعہ کے بعد بھرپور احتجاج ہوا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آج علی الصبح عوام جیسے ہی قاسم سلیمانی کی شہادت سے مطلع ہوئے تو علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ماحول سوگوار ہوگیا۔ صبح 9 بجے تحریک حسینی کی جانب سے مدرسہ رہبر معظم کے لاوڈ سپیکر سے قاسم سلیمانی کی شہادت کا اعلان کرکے بعد از نماز جمعہ مظاہرے کی کال دی گئی۔ اس کے بعد تحریک حسینی کے نمائندوں حاجی عابد حسین، مولانا سید جعفر الحسینی اور مولانا منیر حسین جعفری نے مرکزی جامع مسجد کے پیش امام علامہ شیخ فدا حسین مظاہری، مولانا اخلاق حسین شریعتی اور سیکرٹری انجمن حسینیہ سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مرکز جامع مسجد اور تحریک حسینی جلوس اکٹھا نکالیں۔ جس پر اتفاق کیا گیا اور فوراً مرکزی جامع مسجد سے بھی جلوس کا اعلان کیا گیا۔ جس کے بعد پاراچنار میں تمام دکانیں بطور سوگ بند کر دی گئیں۔ 
 
نماز جمعہ کے فوراً بعد تحریک حسینی کے زیراہتمام اور علامہ سید عابد الحسینی کی قیادت میں مدرسہ رہبر معظم سے جلوس برآمد ہوا۔ جو نعرے لگاتے ہوا مرکزی جامع مسجد و امام بارگاہ پاراچنار پہنچ گیا۔ اس دوران جامع مسجد سے پیش امام شیخ فدا حسین مظاہری کی قیادت میں ہزاروں افراد کا جلوس برآمد ہوا اور دونوں جلوس باہم مل کر پریس کلب پاراچنار کی جانب بڑھنے لگے۔ متعدد تنظیموں مجلس علمائے اہلبیت، ایم ڈبلیو ایم، آئی ایس او، آئی او کے علاوہ ہزاروں سوگواروں پر مشتمل یہ جلوس مقررہ راستوں سے گزرتا ہوا اور مردہ امریکہ اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ راستے میں منتظر ہزاروں افراد جلوس میں شامل ہوتے گئے۔ یوں ہزاروں افراد کا یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پریس کلب پہنچ گیا۔ وہاں اس نے جلسے کی شکل اختیار کر لی۔ تقریب کا آغاز مولانا الطاف حسین ابراہیمی نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور علامہ اخلاق حسین شریعتی کو خطاب کی دعوت دی۔
 
علامہ شریعتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت سے اگرچہ عالم اسلام کو سخت دھچکہ لگا ہے، تاہم عالم استکبار خوش فہمی میں نہ رہے، کیونکہ سلیمانی کی فکر زندہ ہے۔ ملت اسلامیہ کا ہر فرد قاسم سلیمانی ہے۔ انہوں نے بی بی زینب (س) کے خطبے سے اقتباس کرتے ہوئے کہا کہ اے وقت کے یزید تم جتنا زور لگا سکتے ہو، لگا لو، مگر تم ہمارے ذکر کو مومنین کے دلوں سے ختم نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد علامہ ابراہیمی نے تحریک حسینی کے نائب صدر مولانا عابد حسین جعفری کو تقریر کی دعوت دی۔ مولانا عابد جعفری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت عالم اسلام، دنیا کی مزاحمتی تحریکوں بالخصوص حزب اللہ اور حماس کے لئے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔ تاہم امریکہ اور اسرائیل کسی خوش فہمی میں نہ رہیں۔ انہوں نے قاسم سلیمانی کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کہا کہ 2011ء میں شام خصوصاً بی بی سلام اللہ علیہا کے مزار کے خلاف جسارت کرنے کے بعد قاسم سلیمانی شام میں منظر عام پر آئے۔ اس سے قبل وہ دنیا کے لئے ناشناس تھے۔
 
تاہم خیال رہے کہ دنیا کیلئے یہ ناشناس شخص 20 سال پہلے امریکہ اور اسرائیل کے لئے مطلوب ترین افراد میں پہلے نمبر پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی وہ شخص تھے، جو جنرل ہوتے ہوئے انتہائی رسک لیکر جوانوں کے ساتھ ہمیشہ صف اول میں شامل ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی نے عراق پر داعش کے حملے کے دوران ایک علاقے میں محصور مومنین کی کمک کے لئے اپنے چند سو افراد کے ساتھ پہنچے اور خود بھی محصور ہوگئے۔ مگر دنیا کو اس بات کا علم اس وقت ہوا کہ جب اس محصور علاقے کی آزادی کے ساتھ قاسم سلیمانی بھی باہر آئے۔ یہ ان کا جذبہ شہادت تھا۔ وہ ہمیشہ خطرے پر خطرہ مول لیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے تین چار سال قبل ان کی شہادت کی پیشینگوئی یوں دی کہ قاسم سلیمانی کی زندگی جس طریقے سے گزری، اس کا اختتام اعلیٰ درجے کی موت یعنی شہادت پر ہوگا۔ مگر اب ایران بلکہ پوری جہان اسلام کیلئے اس کی ضرورت ہے۔ اللہ اسے کچھ عرصے کیلئے مہلت دیکر شہادت نصیب فرمائے۔
 
اس کے بعد تحریک حسینی کے سربراہ اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قاسم سلیمانی ایک فرد نہیں تھے بلکہ اپنی ذات میں ایک ملت اور قوم تھے۔ تاہم میں یہ واضح کرتا چلوں کہ اس وقت تو ایران ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ اس وقت جبکہ ایران ہر طرح سے مشکلات میں گرفتار تھا، اس وقت استعمار و استکبار نے مطہری کو شہید کرایا، انکا خیال تھا کہ ایران ختم ہو جائے گا، مگر ختم نہیں ہوا۔ ملک کے صدر اور وزیراعظم محمد علی رجائی اور باہنر کو بیک وقت شہید کرایا، مگر ایران کو ختم نہ کرسکے۔ رہبر معظم کو نشانہ بنایا گیا۔ جس میں انکا ایک ہاتھ مفلوج ہوگیا۔ اس کے دو دن بعد پوری پارلیمنٹ کو نشانہ بناکر 72  اہم ترین افراد، جن میں ڈاکٹر آیۃ اللہ بہشتی بھی شامل تھے، کو دھماکہ کرکے شہید کرایا۔ ان کا خیال تھا کہ اب تو ایران اپنے انقلاب سمیت ختم ہو جائے گا۔ مگر انقلاب مزید مضبوط ہوگیا۔
 
اس کے بعد انہوں نے صدام کے ذریعے حملہ کرایا اور 8 سال تک جنگ میں مصروف رکھا۔ مگر ایران کو کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ ایران دنیا کی واحد ایسی پاور بن کر سامنے آیا جو ہر جارح کی آنکھ میں آنکھ ڈال سکتا ہے۔ آج پوری دنیا کے مظلومین و محرومین کی نظریں ایران پر مرکوز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ یہ خیال کرتے ہونگے کہ یہ لوگ ایران یا قاسم سلیمانی کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ یاد رہے پاکستان ہمارا ملک ہے، مگر بدقسمتی سے بزدلوں کے ہاتھ لگا ہے۔ اللہ کرے کہ جلد از جلد یہ ملک قاسم سلیمانی کی طرح بہادر، شیروں اور دلیروں کے ہاتھ لگ جائے۔ عمران خان سمیت ہمارے اکثر حکمران نہ صرف امریکہ کے غلام بلکہ اس کے غلاموں کے غلام رہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی حال ہی میں کوالالمپور کانفرنس، جس کا ہدف اسلامی اتحاد و یگانگت اور امت مسلمہ کی آزادی ہی تھا، جس میں اسلامی ممالک کے سربراہوں سمیت ہزاروں مندوبین اور نمائندوں نے شرکت کی۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم امریکہ کے ایک غلام کی دھمکی سن کر دم دبا کر واپس ہوگئے اور اپنی بزدلی دنیا پر واضح کر دی۔ یہ ہے ہمارے حکمرانوں کی حالت۔ انہوں نے کہا کہ ہم دن رات یہی دعا کرتے ہیں کہ بارالٰہا ہمیں بھی سید علی خامنہ ای، قاسم سلیمانی اور حسن نصراللہ جیسے لیڈر عنایت فرمائے۔
 
پروگرام کے آخر میں انجمن حسینیہ کے سیکرٹری حاجی سردار حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ قوم ایک جسد کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں مومن کو تکلیف ہو، دنیا کے تمام مومنین کو تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی کی شہادت سے ہمارے حوصلے پست نہیں بلکہ مزید بڑھ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ دشمن کبھی یہ خیال نہ کرے کہ شیعہ قوم پسپائی اختیار کرے گی۔ ہم ہر وقت منظم ہیں۔ اپنے ملک پاکستان کا معاملہ ہو یا دنیا بھر میں کہیں بھی مومنین مشکل میں ہوں۔ ہم اپنے مسلمان اور مومن بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ امریکہ کے ساتھ فوری طور پر تعلقات ختم کر دے۔ مقررین کے خطابات کے بعد جلوس اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا مرکزی امام بارگاہ پہنچا، جہاں مرثیہ خوانی ہوئی۔ عزاداروں نے سینہ زنی کی، مصائب اور دعا کے ساتھ پروگرام اختتام کو پہنچ گیا۔
خبر کا کوڈ : 836298
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش