0
Sunday 5 Jan 2020 10:04

شہید حاج قاسم زندہ ہے

شہید حاج قاسم زندہ ہے
اداریہ
مفکر اسلام شہید مرتضیٰ مطہری اپنی کسی تقریر یا تحریر میں شہید کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجاہد فی سبیل اللہ کی عظیم روح جب بدن کے اندر ہوتی ہے تو ایک جسد خاکی تک محدود ہوتی ہے، لیکن جب یہ مجاہد راہِ خدا میں اپنی عزیز ترین شے یعنی جان کو قربان کر دیتا ہے اور جام شہادت نوش کر لیتا ہے تو روح قفسِ عنصری سے پرواز کرکے اپنے آپ کو ایک تنگ اور محدود زندان اور قید خانے سے آزادی حاصل کرکے ایک بڑی اور وسیع دنیا میں پرواز میں مگن ہو جاتی ہے۔ شہید حاج قاسم بھی اُن شہداء میں سے ایک ہیں، جن کی پاکیزہ روح بدن اور جسد خاکی سے پرواز کرکے آسمانی رستوں میں محو پرواز ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی روح اب کئی افراد کے قلب و ذہن میں سرایت کر رہی ہے۔ آج مقاومتی و مزاحمتی بلاک کا کونسا ملک اور گلی کوچہ ہے، جہاں پر اس شہید کے ساتھ اظہار یکجہتی و اظہار عقیدت نہیں کیا جا رہا ہے۔ آج شہید کی روح ہر مجاہد اور حریت پسند کے قلب و ذہن میں موجزن ہے۔ آج شہید دنیا کی محدودیات و حصار سے نکل کر ایک وسیع و عریض اور بے کراں دنیا میں اپنا اثر دکھا رہا ہے۔

شہید حاج قاسم نے یہ مقام کیسے حاصل کیا ہے، شہید کو یہ عظیم درجہ کیسے عطا ہوا ہے، ایک تاریخ ہے، جسے درک کرنے کے لئے عرصہ درکار ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی مجاہدانہ زندگی جو شہید کے اپنے اصرار پر عوام الناس سے پوشیدہ رہی اور آپکی مجاہدت کے لاتعداد واقعات و حالات سامنے نہ آسکے، اب ایک ایک کرکے اُن کے ساتھیوں اور دوستوں کے ذریعے یہ واقعات سامنے آرہے ہیں۔ آپ کے پرعزم دوست اور آپ کے ساتھ شانہ بشانہ مجاہدانہ زندگی گزارنے والے ساتھی اپنی یادیں اور یادگار واقعات نقل کر رہے ہیں۔ یہ یادیں اور یادگار واقعات یقین ایک سرمایہ ہیں، لیکن شہید حاج قاسم نے اپنی زوجہ اور خاندان کے لئے جو وصیت نامہ چھوڑا ہے، اُس سے اُن کی شخصیت مزید نکھر کر سامنے آئی ہے۔ دنیا کی نگاہ میں سپرمین جیسے تخیلاتی کردار کا حامل اور مجاہدین کی نگاہ میں دلوں پر حکومت کرنے والا جرنیل اپنی شہادت کے بعد اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ مجھے میرے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ میرے آبائی شہر میں دفن کیا جائے اور میری قبر پر کوئی عہدہ، یا بڑا لقب نہ لکھا جائے بلکہ صرف اور صرف اسلام کا معمولی سپاہی لکھا جائے۔

شہادت سے چند گھنٹے پہلے جس جگہ سے اپنا آخری سفر اختیار کیا اور اپنے ہاتھ سے ایک تحریر لکھی وہ کچھ یوں ہے: "الٰہی لا تکلنی" خدایا میں تیری ملاقات کے لئے تیار ہوں۔ مجھے قبول کر لے، میں تیرے دیدار کا عاشق ہوں، مجھے اپنا دیدار نصیب فرما، وہی دیدار جس کو موسیٰ پیغمبر برداشت نہ کرسکے، خدایا مجھے پاک و پاکیزہ قبول فرما، خدایا مجھے پاک و مطہر قبول فرما۔ الحمدللہ رب العالمین۔" یاد رہے یہ جملے شہید قاسم سلیمانی نے دو جنوری کو دمشق سے بغداد کے لئے پرواز سے صرف چند منٹ قبل اپنی رہائش گاہ میں تحریر کئے تھے اور پھر اسی کاغذ پر اپنا قلم رکھ دیا اور ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوگئے۔
خبر کا کوڈ : 836704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش