0
Monday 6 Jan 2020 21:43

ٹرمپ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے

ٹرمپ عالمی امن کیلئے خطرہ ہے
تحریر: سید اسد عباس

امریکی کانگریس کی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی نے گذشتہ برس ماہ دسمبر میں امریکی صدر کے خلاف مواخذے کی ڈرافٹ رپورٹ جاری کر دی، جس میں کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ذاتی فائدے کے لیے اپنے اقتدار کی طاقت کا غلط استعمال کیا۔ رپورٹ میں ڈیموکریٹس کے اُن الزامات کو مکمل طور پر تسلیم کیا گیا کہ صدر ٹرمپ نے ذاتی فائدے کے لیے یوکرین کو کانگریس سے منظور شدہ فوجی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی۔ ڈیموکریٹس کے کیس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو امید تھی کہ ان کے دباؤ پر یوکرین کے صدر امریکہ میں اپنے سیاسی حریف کے خلاف تحقیقات کے آغاز کا اعلان کر دیں گے۔ اس رپورٹ کی تحقیقات کو باقاعدہ طور پر کانگریس کی ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، جس میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے مواخذے کی کارروائی میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی تھی، تاہم یہ کوششیں اُس وقت ناکام ثابت ہوئیں، جب اعلیٰ امریکی سفارت کاروں اور وزارت خارجہ کے کئی عہدیداروں نے نومبر میں ہونے والی ہنگامہ خیز سماعت کے دوران اپنے بیانات درج کرائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے بے مثال اور دوٹوک احکامات کے باوجود ایوان نے اُن بہادر عہدیداروں سے امریکی صدر کی بددیانیتی کے واضح شواہد اکٹھے کئے ہیں، جو قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں، قانونی احکامات کی تعمیل کرتے ہیں اور سچ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس صدر ٹرمپ ان گواہوں کو سرعام دھمکانے اور ان پر ذاتی حملوں میں مصروف تھے۔ ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کی رپورٹ تقریباً 300 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں دو اہم حصے شامل ہیں۔ پہلے حصے میں صدر ٹرمپ کے یوکرین کے معاملے میں مبینہ طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور دوسرے حصے میں ان الزامات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی تفصیل شامل ہے۔ رپورٹ جاری ہونے کے بعد انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف نے لکھا: مواخذے کی تحقیقات میں واضح اور غیر متنازع شواہد کا انکشاف ہوا ہے، جس کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے ذاتی اور سیاسی فائدے کے لیے ہمارے ملکی انتخابی عمل میں بیرونی مداخلت کو فروغ دیا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے امریکہ کے اہم اتحادی ملک یوکرین کی فوجی امداد اُس وقت روکنے کی کوشش کی، جب اسے روس کی جارحیت کو روکنے کے لیے رقم کی شدید ضرورت تھی اور اس کی فوری فراہمی امریکہ کے قومی مفاد میں تھی۔ دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر ولڈیمیر زیلنسکی کو اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک غیر معمولی متبادل سفارتی عمل تھا، جس میں محکمہ خارجہ کے معمول کے طریقہ کار کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ اس بارے میں انکشاف اُس وقت ہوا، جب ٹرمپ کی 25 جولائی کو یوکرین کے صدر کو کی گئی فون کال کے خلاف شکایت سامنے آئی۔

دستاویز کے مطابق شاہدین نے اُس فون کال کے خلاف کمیٹی کے سامنے گواہی دی ہے، جنہوں نے ایوان کو بتایا ہے کہ ان کی کوششوں کو ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اعلیٰ سطح پر خاموش کرانے کی کوشش کی گئی۔ اس کوشش میں قائم مقام چیف آف سٹاف مک مولوانی، وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر توانائی رک پیری بھی شامل تھے۔ مواخذے کی کارروائی کے دوران یورپی یونین کے لیے امریکی سفیر گورڈن سونڈ لینڈ نے بھی گواہی دی کہ صدر کی جانب سے اس پیغام کو رد کرنے کی کوشش کے باوجود یہ بات بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر سے سودے بازی کرنے کی کوشش کی تھی۔ رپورٹ میں انٹیلی جنس کمیٹی نے صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مواخذے کی تفتیش میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ممکنہ گواہوں کو کانگریس کی جانب سے طلبی کے احکامات نظرانداز کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس نے تحقیقات میں کئی طریقوں سے رکاوٹ ڈالی، جس میں اعلیٰ مشیروں کو گواہی دینے سے روکنا اور صدر کا بذاتِ خود گواہی دینے کے لیے دستیاب نہ ہونا شامل ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے خود گواہوں کو دھمکانے کی بھی کوشش کی۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے امریکی حکومت کے لیے طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے سفارت کاروں اور عہدیداروں پر ذاتی حملے کیے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش پر مواخذے کی قرارداد 19 دسمبر 2019ء کو امریکی ایوان نمائندگان میں منظور کر لی گئی ہے۔ قرارداد کی منظوری کے بعد امریکی صدر کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے سینیٹ میں ٹرائل رواں ماہ شروع ہونے ہیں، جس کے بعد انہیں صدراتی عہدے کی معیاد ختم ہونے سے پہلے اقتدار سے ہٹایا بھی جا سکتا ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کی جماعت کو سینیٹ میں عددی برتری حاصل ہے، تاہم کانگریس کی خواہش ہے کہ ٹرمپ کے خلاف اس مقدمے کو عوامی سطح پر اس قدر عام کیا جائے کہ سینیٹ میں ناکامی کے باوجود ٹرمپ اور ان کی جماعت اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکیں۔

ٹرمپ نے مواخذے کے اس سارے عمل کو انتہائی بھونڈے انداز سے روکنے کی کوشش کی، جس میں دھمکیاں، تنزلیاں، جملے بازی اور الزامات جیسے شنیع اعمال شامل ہیں، جو اس سے قبل امریکی تاریخ میں نہیں دیکھے گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسی ذہنی کیفیت کے حامل شخص سے ایسے میں کسی بھی بڑی بے وقوفی کی توقع بے جا نہیں ہے۔ وہ اس سے قبل بھی کئی بار ایسے بیانات دے چکے ہیں، جنھوں نے ملکی اور عالمی سطح پر چنگاری کا کام کیا ہے۔ سیاہ فاموں کے خلاف نسل پرستی پر مبنی بیانات ہوں یا چین، روس، جنوبی کوریا، ترکی اور ایران کے خلاف دھمکیاں، یہ ٹرمپ کا آئے روز کا معمول ہے۔ اپنی اسی ذہنی کیفیت کے سبب ٹرمپ پوری دنیا کے تسلیم شدہ نیوکلیائی معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہوا۔

حال ہی میں ٹرمپ نے وہ اقدام کیا ہے، جو اس سے قبل کے امریکی صدور نے طاقت و قوت ہونے کے باوجود نہ کیا۔ ایرانی اور عراقی افواج کے دو حاضر سروس جرنیلوں کو عالمی سفارتی قوانین کا پاس و لحاظ کیے بغیر قتل کرنے کا حکم جاری کرنا دو ریاستوں کے خلاف ننگی جارحیت اور عالمی سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے۔ اس کھلی دہشتگردی اور جارحیت کے کیا نتائج ہوں گے، فی الحال ان کے بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا، تاہم یہ بات بدیہی ہے کہ ایسے بے وقوف انسان کی ایک طاقتور ریاست پر حاکمیت عالمی امن کے لیے ایک شدید خطرہ ہے، جو کسی بھی وقت عالمی جنگ کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ دنیا اور امریکیوں کی عافیت اسی میں ہے کہ وہ جس قدر جلد ہوسکے اس لابالی انسان سے پیچھا چھڑوائیں، جو دنیا کے امن کو تباہ کرنے کے مقصد کے ساتھ برسر اقتدار لایا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 836947
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش