0
Tuesday 7 Jan 2020 23:14

اسرائیل اور شاہ محمود قریشی کے موقف میں مماثلت کیوں؟

اسرائیل اور شاہ محمود قریشی کے موقف میں مماثلت کیوں؟
 تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

ولی امر مسلمین، نائب امامؑ زمانہ کے مالک اشتر زمان کے عروج ملکوتی کے فراق میں گرنے والے آنسو بتا رہے ہیں کہ وقت کے امامؑ دل فگار ہیں۔ راہِ خدا میں شہید ہونیوالا ہر شہید منزلت و عظمت کا حامل ہے، لیکن شہید پروقار جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پہ دنیا اسقدر سرگرداں کیوں ہے۔؟ پیروانِ ولایت کے دل زخمی ہیں، لیکن کہیں خوف کا شائبہ نہیں۔ سید علی خامنہ ای نے  اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ  کی بجائے بِسْمِ ٱللّٰهِ ٱلرَّحْمٰنِ ٱلرَّحِيمِ کا ٹوئٹ کیا ہے۔ زمانہ بدل گیا، نیا عصر شروع ہوگیا، جہاد کو ممیز ملے گی، دشمن پہ لرزہ طاری ہے، کاخ سفید، ابراھہ کے ہاتھیوں (پینٹاگان) میں ہلچل ہے، حاج قاسم کی شہادت کی خبر سن کر جام سے جام ٹکرانے والے صہیونی اور سعودی ششدر ہیں، لیکن پاکستانی وزیر خارجہ کے منصب پہ فائز ایک عام تبصرہ سنا رہا ہے کہ حاج قاسم کی شہادت کے بعد مزید مسلم شخصیات کی Assassination ہو سکتی ہے، کیا ان کے دل نہیں ہیں، یا ان پہ تالے پڑ چکے ہیں۔

اسرائیل اور پاکستان دونوں نظریئے پہ قائم ہونیوالی ریاستیں ہیں۔ نظریاتی ریاستیں۔ ایک پاکستانی اب دونوں کے نظریوں میں کیا فرق کرے، پاکستان کی جڑوں میں مسلمان بزرگوں، جوانوں اور بہو بیٹوں کا خون ہے، موجودہ حکومت اور وزیر خارجہ لیکن اسے دھندلا کیوں رہے ہیں۔ اللہ بھلا کرے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کا، شہداء کے جنازے میں پہنچے، مدافعان حرم کی شہادت پر ورنہ موجودہ حکمرانوں نے حد کر دی، نیتن یاہو اور ان کے احساس میں کیا فرق ہے۔؟ احساس کا تعلق دل سے ہے، زبان سے زیادہ آنسو اس کی ترجمانی کرتے ہیں، ہاں اگر شہادت پانے والے سے آپ کا تعلق ہو تو تب، ورنہ تو کون؟ میں کون۔؟ حاج قاسم کے طاقتور لہو کے گہرے اثرات کا اندازہ نہ اسرائیل کو تھا، نہ امریکہ کو اور نہ پاکستانی حکمرانوں کو ہے۔ سعودی لابی کا حصہ بن کر صہیونی مفادات کی رکھوالی کا حلف اٹھانے والوں کے منہ پر مہاتیر محمد نے تھپڑ رسید کیا ہے۔

حماس نے شامی بچوں کے قتل کا الزام داعش کی بجائے مدافعان حرم کے سر تھونپنے والوں کے منہ پر کالک مل دی ہے، ترکی کہہ رہا ہے کہ ہم سنی ہیں، لیکن حاج قاسم ہمارا تھا۔ حاج قاسم جس قافلے کے سرخیل تھے اور ہیں، اسکا ہدف دنیا کو عدل حقیقی سے مزین کرنا ہے، مہدیؑ دوراں کا علم کعبہ میں نصب کرنا ہے، جس میں سب سے بڑی رکاوٹ صہیونی اور سعودی عیاش حکمران ہیں، امریکی اڈے ان کو تقویت دینے کیلئے ہیں، ان کا خاتمہ پہلا قدم ہوگا۔ حرمین شریفین اور قبلہ اول غاصبوں کے قبضے میں ہیں، دونوں کی آزادی سے ہی عدل کا پرچم دنیا پہ لہرائے گا۔ اسوقت حرمین کے لئے کون خطرہ ہے؟، حرمین تو خطرے سے زیادہ قبضے میں ہیں، انہیں آزاد کروانے کا نعرہ لگانے والوں کو حرمین کیلئے خطرہ قرار دیکر یہ کہنے والے کیوں غلطی کر رہے ہیں کہ ہم سعودی رجیم جو صہیونی رجیم کے سہارے قائم ہے، اس کی حفاظت کیلئے کھڑے ہیں۔

حاج قاسم کی شہادت پہ اس بیان کا کیا مطلب ہے۔؟ ٹرمپ کی حماقت پر امریکی پالیسی ساز درست کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں بالخصوص اسرائیل دشمن طاقت کو راکھ کا ڈھیر بنائیں گے، اس مقصد کیلئے مسلمان حکمرانوں میں ہمارے کئی ایجنٹ موجود ہیں، وہ کون ہیں۔؟ وزیر خارجہ کا رویہ، گفتگو اور حد سے بڑھی ہوئی لاپرواہی دیکھیں۔ ہوش کے ناخن لیں، اسرائیلی صہیونی غاصبوں کی تائید مت کریں، دختر رسول ﷺ کے زخموں کو تازہ مت کریں، دنیا میں طاقت کے بل بوتے پر غرور دکھانے والے جلد جہنم رسید ہونگے۔ لیکن یہ احساس پتھر دل دنیا پرستوں کو کہاں نصیب، کوئی انہیں احساس دلائے، ورنہ انہیں بے نقاب کرے، یہ پاکستانیوں کے نمائندہ نہیں، صہیونیوں کے آلہ کار ہیں، ان کے دلوں پر مہر لگ چکی، ظالم کے حامی اور قاتلوں کے لشکر کا حصہ ہیں۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے دلوں پہ خدا نے مہر لگا دی اور قرآن میں اسکی تصدیق بھی کر دی فرمایا، "صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ" یہ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں جو واپس نہیں لوٹیں گے۔ ( گونگے بہرے اندھے سے یہاں یہ مراد ظاہری ناتوانی و معذروی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ لوگ حق کو جانتے ہوئے بھی حق ناشناس بن جاتے ہیں، ان میں نہ حق کہنے کی جرات ہے، نہ سننے کی اور نہ دیکھنے کی، اسی لئے پروردگار نے فرمایا کہ ان کا گمراہی سے واپس لوٹنا ناممکن ہے۔
خبر کا کوڈ : 837142
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش