QR CodeQR Code

خطے پر چھائے جنگی بادل اور دنیا کی ذمہ داریاں

10 Jan 2020 16:33

اسلام ٹائمز: امریکہ کو عراق میں بھی مشکل کا سامنا ہے، کیونکہ عراقی پارلیمان نے مشترکہ قرارداد پیش کی کہ امریکہ عراق سے فوری نکل جائے، جبکہ امریکہ کے کئی اتحادی ممالک نے اپنے فوجی عراق سے نکال لیے ہیں۔ ایک بڑی اور روایتی جنگ کے فوری امکانات تو معدوم ہوگئے ہیں، لیکن خطے میں" پراکسی وار" کی ترکیب و ترتیب میں تبدیلی آئے گی اور افغانستان و عراق میں امریکی فوجیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانیوں کا ہدف خطے سے امریکی فوج کا انخلا ہے اور اسے ہی انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ قرار دیا ہے۔


تحریر: طاہر یاسین طاہر

بارہا اس جملے کی تکرار کی کہ جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں لاتیں، جنگوں میں کسی کی جیت نہیں ہوتی بلکہ جیت صرف موت کی ہوتی ہے، جو لاکھوں انسانوں کا لہو چاٹ کر اپنے پیٹ کو "ایندھن" فراہم کرتی ہے۔ جنگ بجائے خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سائنسی ترقی نے جہاں انسانی حیات کو سہل کیا، سہولیات دیں، وہیں سائنس نے نت نئے جنگی ہتھیاروں کی ایجاد کا راستہ کھول کر انسان کو اپنے ہی ہاتھوں اپنی تباہی کے خونیں جال میں پھنسا دیا ہے۔ ہم اگر جذباتیت کے بجائے حقائق کی عینک سے واقعات کا جائزہ لیں تو سارا معاملہ طاقت کے اظہار، تکبر کے زعم اور کمزور ممالک کے وسائل پر قبضے کا نظر آتا ہے۔ اس وقت امریکہ ایک عالمی طاقت ہے، روس کے انہدام کے بعد دنیا دو بلاک کی تقسیم سے نکل کر امریکی تکبر کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ امریکہ نے "نیو ورلڈ آرڈر" جاری کیا اور اس کے مغربی اتحادی اس عمل میں امریکہ کے شراکت دار ہیں۔ اپنے ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کے لیے امریکہ نے کئی ممالک میں فوجیں اتاریں، دہشت گرد گروپوں کی پہلے معاونت کی اور پھر ان کی "سرکوبی" کے نام پر ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ یہ بہ ظاہر نظر آنے والی حرکیات یا عمل ہے، مگر اس کے پس منظر میں وسائل پر قبضہ اور دنیا کو امریکی طاقت کے سامنے سرنگوں کرنے کی تڑپ ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں کبھی ایران امریکی اتحادی تھا، مگر 1979ء کے انقلاب اسلامی ایران کے بعد، جب ایرانی انقلابیوں نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کرکے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا تھا، امریکہ و ایران ایک دوسرے کے شدید تر مخالف ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد، ایران نے اسرائیل کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کی ہر طرح سے مدد و معاونت شروع کر دی۔ ایران نے پرامن ایٹمی پروگرام بھی شروع کیا، جس کے باعث ایران کو سخت امریکی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاریخ کے سارے سفر کی روداد بیان کرنے کے بجائے حالیہ واقعہ کی طرف پلٹا جائے تو ہمیں ایران کا کردار آہنی، قومی جذبہ، غیرت مندانہ اور ردعمل درست و باوقار نظر آیا ہے۔

3 جنوری کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے القدس بریگیڈ کے کمانڈر انچیف جنرل قاسم سلیمانی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر عراق کے بغداد ایئر پورٹ پر ان کے میزبان جنرل ابو مہدی مہندس کے ہمراہ ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ امریکہ نے اس حملے کا دفاع یوں کیا کہ جنرل قاسم سلیمانی دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں کے باہر امریکہ مخالف مظاہروں کو منظم کرنے اور امریکی فوجیوں و عام شہریوں کو قتل کی منصوبہ بندی کرنے کے دورے پر عراق آئے تھے کہ ہم نے انہیں نشانہ بنایا۔ اس دلیل کی بنیاد امریکی صدر نے چند دن قبل عراق میں امریکی سفارت خانے پر عراقی مظاہرین کے حملے کو قرار دیا۔ حشد الشعبی عراق کی وہ ایران نواز ملیشیا ہے، جس نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی حکمت عملی کے تحت عراق سے داعش کو مار بھگایا۔ عراقی جنرل مہندس اسی حشد الشعبی کے نائب سربراہ تھے، جو جنرل قاسم کا استقبال کرنے بغداد ایئر پورٹ آئے تھے۔

امریکی صدر کے جھوٹ کو عراقی وزیراعظم نے یہ کہہ کر طشت ازبام کر دیا کہ جنرل قاسم سلیمانی سعودی عرب کیلئے کوئی خاص پیغام لے کر عراقی حکومت کی دعوت پر عراق آئے تھے اور جس صبح انہیں امریکی حملے میں شہید کیا گیا، اسی دن، ان کی عراقی وزیراعظم سے ملاقات طے تھی۔ یوں امریکہ نے عراق، ایران، سعودی عرب کی خطے کے حوالے سے بنیاد بننے والی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس سے امریکی نیت اور خطے میں اس کے آئندہ کے منصوبوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا بھر کی مزاحمتی تحریکوں کے ہیرو تھے۔ شام میں جب بین الاقوامی دہشت گرد گروہ داعش نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے تو یہ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے، جنھوں نے شامی صدر بشار الاسد کو حکمت عملی بنا کر دی اور پھر روس و شام کی فضائیہ اور جنرل قاسم سلیمانی شہید کی حکمت عملی نے شام میں داعش کو شکست فاش دی۔

جنرل قاسم نے عراق و شام سمیت دنیا بھر کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے اپنا جارحانہ حربی کردار ادا کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے فوری بعد ایران کی اعلیٰ قیادت نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم بدلہ لیں گے۔ اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی میت کو عراق و ایران میں کس قدر والہانہ "پروٹوکول" ملا اور لوگوں نے کیسے اپنے ہیرو کو "الوداع" کیا۔ اس سے یہ امریکی پروپیگنڈا بھی دم توڑ گیا کہ جنرل قاسم ایک دہشت گرد تھے اور وہ دنیا میں دہشت گردی کو "امپورٹ" کرتے تھے۔ ایرانیوں نے جنرل قاسم کی تدفین سے پہلے عراق میں قائم امریکی فوجی بیس عین الاسد اور اربیل پر کم و بیش بیس راکٹ و میزائل فائر کیے۔ ایرانیوں کا دعویٰ ہے کہ اس جوابی کارروائی میں 80 سے زائد امریکی فوجی ہلاک، جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں، نیز امریکی جہازوں اور جنگی ساز و سامان کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ایرانی کارروائی کے نتیجے میں یہ خدشہ دوچند ہوگیا تھا کہ امریکہ جوابی کارروائی کرے گا اور پورا خطہ یکدم آتش و آہن کی بارش تلے آجائے گا۔ لیکن دنیا کے عدل پسند انسانوں اور ممالک کی جانب سے امریکہ کے جنرل قاسم پر حملے کی مخالف کی گئی اور اسے بین الاقوامی قوانین کے خلاف بھی قرار دیا گیا۔ امریکہ نے ایرانی حملے کے بعد اقوام متحدہ میں ایک خط بھی لکھا کہ امریکہ مزید جنگی کارروائی نہیں چاہتا جبکہ ایران نے بھی اقوام متحدہ میں لکھے گئے اپنے خط میں کہا کہ ایران نے جو میزائل فائر کیے ہیں، اس کے بعد ایران بھی مزید کارروائی کا آرزو مند نہیں، جب تک کہ امریکہ پہل نہیں کرتا۔ ایک خوش آئند بات یہ بھی ہوئی کہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف مزید کسی فوجی کارروائی سے روکنے کے لیے قرارداد منظور کرلی۔ مذکورہ قرارداد ایک سو 94 کے مقابلے 2 سو 24 ووٹوں سے منظور کی گئی، جس میں ڈیموکریٹس اراکین نے حمایت جبکہ تمام ریپبلک اراکین نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیئے۔

اگرچہ یہ قرارداد ابھی سینیٹ میں بھی جائے گی، جہاں ٹرمپ کی پارٹی کی اکثریت ہے، لیکن اس قرادداد سے ایک بات واضح ہوئی کہ اب امریکی بھی مزید الجھائو سے گریزاں ہیں۔ امریکہ کو عراق میں بھی مشکل کا سامنا ہے، کیونکہ عراقی پارلیمان نے مشترکہ قرارداد پیش کی کہ امریکہ عراق سے فوری نکل جائے، جبکہ امریکہ کے کئی اتحادی ممالک نے اپنے فوجی عراق سے نکال لیے ہیں۔ ایک بڑی اور روایتی جنگ کے فوری امکانات تو معدوم ہوگئے ہیں، لیکن خطے میں" پراکسی وار" کی ترکیب و ترتیب میں تبدیلی آئے گی اور افغانستان و عراق میں امریکی فوجیوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایرانیوں کا ہدف خطے سے امریکی فوج کا انخلا ہے اور اسے ہی انہوں نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا بدلہ قرار دیا ہے۔

امریکی افواج صرف افغانستان و عراق میں ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر اہم مسلم ممالک میں بھی موجود ہیں۔ روایتی جنگ کے خطرات کم ہونے کے باجود میں سمجھتا ہوں کہ پراکسی جنگ کی ترکیب و ترتیب پر ایرانی سنجیدگی سے سوچ رہے ہوں گے اور امریکہ کو خطے میں زیادہ سے زیادہ "معاشی و جانی" نقصان پہنچانے کے اقدامات پر غور کر رہے ہوں گے۔ دنیا اور خطے کے اہم ممالک کو خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنا مثبت اور عادلانہ کردار ادا کرتے ہوئے جنگ کے تمام تر امکانات کو رد کرنا چاہیئے اور ایران، امریکہ تنائو کو سفارتی طریقہ سے حل کرنے پر زور دینا چاہیئے۔ امریکہ خطے میں شیعہ سنی تنائو کو ہوا دینے کی کوشش کرے گا، اس حوالے سے بھی مسلم ممالک اور مسلم سکالرز کو اپنا مثبت اور عادلانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 837682

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/837682/خطے-پر-چھائے-جنگی-بادل-اور-دنیا-کی-ذمہ-داریاں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org