0
Saturday 11 Jan 2020 02:15

نور اور ظلمت قابل موازنہ نہیں 

نور اور ظلمت قابل موازنہ نہیں 
تحریر: محمد حسن جمالی

3 جنوری 2020ء کو ٹرمپ نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عراق کی سرزمین پر ایرانی جرنیل قاسم سلیمانی کو اپنے ساتھوں سمیت بڑی بے دردی سے شہید کروایا، پوری دنیا کے انصاف پسند لوگوں نے اپنی بساط کے مطابق امریکہ کے اس ظالمانہ اقدام کی بھرپور مذمت کی، انہوں نے مختلف طریقوں سے وائٹ ہاوس تک یہ پیغام پہنچا دیا کہ امریکہ نے اس ناروا اور احمقانہ حرکت کے ذریعے اپنے لئے موت کا گڑھا کھودا ہے۔ اس مجرمانہ اقدام نے اس کی بزدلی کو ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔ ہنر یہ نہیں ہے کہ کوئی دوسرے ملک کی سرزمین پر چڑھ دوڑے اور اپنے حریف کو نشانہ بنائے، اسے بہادری نہیں کہا جاتا ہے بلکہ عقلاء عالم کی نظر میں یہ ناتوانی اور لاچاری کی انتہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بین الاقوامی قانون کی سراسر خلاف ہے، لہذا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

ایران اور امریکہ کی دشمنی کوئی نئی نہیں، جب سے ایران کی سرزمین پر انقلاب اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا، تب سے آج تک ان کے درمیان دشمنی چلی آرہی ہے۔ 42 برس پر مشتمل عرصے میں امریکہ نے ایران کو مغلوب کرنے کے لئے مختلف طریقوں سے آزمایا، ہر میدان میں اسے کمزور کرنے کے لئے جدوجہد جاری رکھی، مگر نتیجہ برعکس نکلا۔ ایران روز بروز قوی تر ہوتا گیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا سے لیکر عسکری اور سیاسی میدان میں ایران نے بہت پیشرفت کی، اس سرزمین پر اسلامی حکومت قائم رہنے کی بدولت افراد کی تعلیم اور تربیت اسلامی زرین تعلیمات کی روشنی میں ہوتی رہیـ کوئی ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے نظام تعلیم کا اساسی فرق سمجھنا چاہے تو اس چیز پر غور کرنا ضروری ہے کہ ایران میں پرائمری اسکولز سے لے کر تمام کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلامی تعلیمات عقائد، اخلاق، احکام، منطق، تاریخ فلسفہ اور کلام  وغیرہ پر مشتمل کتابیں نصاب  میں ضرور شامل ہوتی ہیں۔

البتہ نچلی سطح اور ہائی لیول کی کلاسوں کے لئے یکساں مواد نہیں ہوتا بلکہ ہر سطح کے بچوں کے لئے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق مطالب ترتیب دے کر  کتابیں تیار کی جاتی ہیں، جبکہ دوسرے اسلامی ملکوں میں مغربی نظام تعلیم ہی آئیڈیل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی نصابی کتابیں اسلامی تعلیمات سے تہی ہوتی ہیں۔ ان کے نظام تعلیم میں دینی اصولوں کے مطابق فکری تربیت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی تعلیمی درسگاہوں سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر فارغ ہونے والے طلباء کی بھی اکثریت فکری حوالے سے پستی کا شکار رہتی ہے۔ صحیح خطوط پر سوچ کر مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت سے عاری ہوتی ہے۔ دین امور کی طرف توجہ کم دیتی ہے، نجی معاملات اور سیاسی پیچیدگیوں کو منطقی انداز میں سمجھ کر حل کرنے سے قاصر رہتی ہےـ ایران کا نظام تعلیم مستحکم ہونے کی وجہ سے  جب طلباء تعلیمی مدارج طے کرکے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ تربیت یافتہ بھی ہوتے ہیں، علمی طور پر مضبوط ہونے کے علاوہ وہ فکری صلاحیت کے حامل بھی بن جاتے ہیں۔ بات بہت دور نکل گئی مقصود فقط یہ کہنا تھا کہ علمی، تربیتی میدان سمیت تمام میدانوں میں ایران مسلسل ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا واقعہ دنیا بھر کے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی توجہ کا مرکز بنا، ہر کسی نے اپنی معلومات کے مطابق اس پر لکھنے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی کوشش کی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے کچھ ضمیر فروش کرائے کے لکھاریوں نے اپنی پرانی عادت کے مطابق اس سانحے کو غلط رنگ دے کر لوگوں کی نگاہ میں اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ کھل کر  امریکہ کو داد دینے کی تو جرات نہ کرسکے، مگر دبے الفاظ اور اپنے غیر منطقی تجزیئے کے ذریعے شہید کی مظلومیت اور امریکہ کے ظالمانہ اقدام کو چھپانے کی جدوجہد کی۔ اس حوالے سے انہوں نے دو چیزوں کا سہارا لیا، بعض نے اس پر فرقہ واریت کا غلاف چڑھایا، انہوں نے عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر چھوڑنے کی کوشش کی کہ قاسم سلیمانی فقط امریکہ کی آنکھ کا کانٹا نہیں تھا بلکہ عراق و شام میں اس نے امریکی داعشی کارندوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے ساتھ سنی مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا تھا، اسے صرف ایران کا دفاع عزیز تھا، مشرق وسطیٰ میں اس نے صرف ایران کو طاقتور بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے، جس کے لئے اس نے بہت سارے سنی مسلمانوں کو مارا قتل کیا وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ مغرض افراد نے یہ لکھ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال کر خود کو ہلکا کرنے کی کوشش کی کہ قاسم سلیمانی اپنی ٹیم کو لیکر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عراق میں موجود امریکہ کے فوجی اڈے پر حملہ کرنے کے لئے بغداد پہنچے تھے، اگر وہ اپنے ہدف میں کامیاب ہوتا تو ایران و امریکہ کے درمیان جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی، جس کی لپیٹ میں عراق کے قرب و جوار کے سارے ممالک کا آنا یقینی تھا، یہ بھی عین ممکن تھا کہ جنگ ہونے کی صورت میں امریکہ دباؤ ڈال کر پاکستان کی سرزمین استعمال کرتا، درنتیجہ پورا پاکستان جنگ کی زد میں آجاتا، چنانچہ امریکہ نے حفظ ماتقدم کے لئے قاسم سلیمانی پر حملہ کیا گیا و۔۔۔۔ جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ قاسم سلیمانی فقط ایران کا نہیں بلکہ اسلام کا مدافع تھا۔

عراق و شام میں اس کا حریف داعشی ٹولہ تھا، اس کے لئے جتنی اہل تشیع کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت عزیز تھی، اتنا ہی وہ سنی مسلمانوں کی جان، ان کی املاک اور ناموس کو تحفظ فراہم کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ وہ زندگی بھر اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں جہاد کرتے رہے، فلسطین کی آذادی کے لئے مسلسل جدوجہد کرتے رہے، انہوں نے اسرائیل کے مظالم کے سامنے فلسطینی مسلمانوں کو مقاومت کرنے کا سلیقہ سکھایا، ان میں شہادت اور جہاد کا جذبہ پیدا کیا، انہیں شجاع اور نڈر بنایا، اسی طرح لبنان میں اسرائیل کے ساتھ حزب اللہ کی ہونے والی 33 روزہ جنگ کی کامیابی میں بھی ان کا بڑا رول تھا، بنابرایں قاسم سلیمانی اسلام کا ہیرو تھا، اسے مسلکی رنگ دے کر فقط ایران کا ہیرو قرار دینا ان کی شخصیت کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اسی طرح حفظ ماتقدم والے پراییگنڈے کے ذریعے امریکہ کے ظلم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرنا ہھی ظلم ہے۔

 بعض یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ بالفرض امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو کون کس پر بھاری ہوگا؟ ہماری نظر میں یہ کوئی نیا اور انوکھا سوال نہیں بلکہ بہت پرانا سوال ہے، اس پر پہلے بھی لوگ تبصرہ کرتے رہے ہیں، اپنی رائے دیتے رہے ہیں، لیکن پاکستان کے ایک معروف چینل پر اس حوالے سے آج ایک نادان شخص کی تازہ رپورٹ سننے کو ملی، جسے سن کر اس کی جہالت پر بہت افسوس ہوا، اس کی رپورٹ کا موضوع امریکہ اور ایران کی طاقت کا مقائیسہ تھا! اس نے تسلسل کے ساتھ امریکہ کی بری و بحری فوج کی تعداد، جدید اسلحوں کی تعداد و توانائیوں سمیت ان تمام مقامات کو ایک ایک کرکے اپنی رپورٹ میں بیان کیا، جہاں امریکی فوج طاقتور ہتھیار سے لیس الرٹ ہے، پھر اسی طرح ایران کی فوج اور اس کی دفاعی توانائی کا تذکرہ کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ ہر حوالے سے ایران امریکہ کے مقابلے میں ناچیز اور کمزور ہے، لہذا ان کے درمیان جنگ کا تصور ہی درست نہیں ، کیونکہ جنگ کا امکان وہاں رہتا ہے، جہاں طاقت کے اعتبار سے فریقین مساوی یا نزدیک ہوں۔

ہم اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ جناب آپ نے اس رپورٹ کو پیش کرکے اپنی جہالت سے پردہ اٹھایا ہے، یہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جناب مادیات کے تاریک زندان میں محبوس ہیں، ارے نادان ایران کی اصل طاقت ایمان ہے، ایمانی طاقت کے بل بوتے پر ہی ایران نے 42 سال امریکہ سے مقابلہ کیا اور ہر میدان میں سرخرو ہوا ہے، اگر مادی طاقت ہی کامیابی کی علامت ہوتی تو امریکہ کب سے ایران سمیت تمام اسلامی ممالک کا گلا گھونٹ کر صفحہ ہستی سے مٹا چکا ہوتا، اگر مادی طاقت ہی سب کچھ ہوتی تو اسرائیل حزب اللہ اور فلسطینی مسلمانوں کو کب سے شکست دے کر فتح اور کامیابی کا سہرا اپنے سر سجا چکا ہوتا، ان کو کس نے بچا رکھا ہے بلکہ وہ کونسی چیز تھی، جس نے 33 روزہ جنگ میں اسرائیل جیسی مادی بڑی طاقت پر حزب اللہ کی مادی اعتبار سے کمزور فوج کو غلبہ عطا کیا، کیا وہ ایمانی طاقت کے علاوہ کوئی اور چیز تھی؟

آج دنیا کی نام نہاد سپر طاقت امریکہ کو اگر ایران رلاتا ہے، اس کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرتا ہے، اس کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیتا ہے، ایک جنرل کی جان کے عوض اس کے بڑے فوجی اڈے پر حملہ کرکے 80 سے زیادہ فوجیوں کو واصل فی النار کرتا ہے تو ایمانی طاقت کی بنیاد پر ہی یہ سب کچھ کرتا ہے، البتہ مادی طاقت کے لحاظ سے بھی ایران پڑا طاقتور ملک ہے۔ توجہ رہے کسی بھی میدان میں کامیابی کے حصول کے لئے کثرت معیار نہیں، کیفیت اہم چیز ہوتی ہے۔ یہاں یوں کہنا بجا ہوگا کہ ایران امریکہ کے مقابلے میں نور ہے اور وہ ظلمت۔ واضح سی بات ہے کہ نور اور ظلمت قابل مقائسہ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 837778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش