1
0
Saturday 11 Jan 2020 21:48

کیا تحریک انصاف کی قیادت متحدہ کے تحفظات دور کر پائے گی؟

کیا تحریک انصاف کی قیادت متحدہ کے تحفظات دور کر پائے گی؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی
 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت کے بعد سیاسی آفٹر شاکس آنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر پیش رفت کے حوالے سے گورنر ہاؤس میں کراچی بحالی کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا، جس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر برائے بحری امور سید علی زیدی اور دیگر نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے عمل میں تیزی آگئی ہے، جاری منصوبوں کے فنڈز مل چکے ہیں اور گرین لائن منصوبے کے لئے بھی وفاق نے فنڈز مہیا کر دیئے ہیں، وفاق نے بسوں کی ذمہ داری لے لی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم بار بار کہتے ہیں کہ کراچی کے لئے کچھ کرنا ہے، سندھ کا لوکل گورنمنٹ سسٹم آئین کے خلاف ہے، مقامی حکومت کا نظام غیر فعال ہے، باوجود اس کے ہم کام کر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سندھ حکومت میں شراکت داری کی پیشکش کے بعد ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لئے اجلاس منعقد کرنے کے حوالے سے اسد عمر کا کہنا تھا کہ اجلاس کا فیصلہ بلاول زرداری کے اعلان سے قبل ہی کر لیا گیا تھا، میں اس بارے میں زیادہ نہیں کہنا چاہتا، انہیں سیاست کرنے کا حق حاصل ہے، جس مشکل صورتحال میں آج پیپلز پارٹی ہے اور جس طرح ان کی جڑیں کمزور ہوگئی ہیں، وہ اپنی کوششیں کریں گے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ وفاق کی جانب سے منصوبوں کے جائزے کے لئے مجھے فوکل پرسن نامزد کیا گیا ہے۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سے سخت مایوس ہیں، معاہدے پر پیش رفت اذیت ناک حد تک سست ہے، تاہم کنوینر ایم کیو ایم نے یہ بھی کہا کہ ہم حکومت نہیں گرائیں گے، لیکن اپنے عوام کی نظروں میں خود بھی نہیں گریں گے، اذیت کب تک برداشت کرنی ہے، فیصلہ کرنے کے لئے جائزہ لے رہے ہیں۔

سیاسی حلقوں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی پیشکش کے بعد ایم کیو ایم کو ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست میں اہمیت حاصل ہوگئی ہے، اب یہ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اس صورت حال سے کس طرح فائدہ اٹھاتی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت سے کراچی کے لئے شہریوں کے زیادہ سے زیادہ ریلیف حاصل کرسکتی ہے۔ کراچی کے عوام اس وقت تمام سیاسی جماعتوں سے مایوس نظر آتے ہیں۔ شہر کے مسائل جوں کے توں موجود ہیں۔ تحریک انصاف شہر کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود کراچی کے لئے اب تک کچھ ایسا نہیں کرسکی ہے، جس سے عوام کو فوائد حاصل ہوں۔ ایم کیو ایم پاکستان نے اگر اپنے سیاسی پتے درست طریقے سے تو کھیلے تو وہ نہ صرف کراچی کے لئے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے بلکہ مستقبل میں اس کی سیاسی حیثیت بحال ہونے کی بھی قوی امید ہے۔

سندھ میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ صوبے بھر میں سی این جی اسٹیشنز کی وقفہ وقفہ سے طویل بندش کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں، جبکہ صنعتوں کو گیس کی مختلف اوقات میں عدم فراہمی نے صنعتکاروں کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ادھر وفاق نے اس بحران کی تمام ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال دی ہے۔ وفاق کا مؤقف ہے کہ سندھ حکومت نے گیس پائپ لائن کی اجازت نہ دے کر عوام سے زیادتی کی، سندھ میں گیس بحران پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا پیدا کردہ ہے، حکومت سندھ نے ایل این جی درآمد سے بھی انکار کیا ہے۔ ادھر سندھ حکومت نے گیس بحران پیدا ہونے کا ذمہ دار صوبے کو ٹھہرانے کو وفاقی حکومت کی بدنیتی قرار دیا ہے۔ اس ضمن صوبائی وزیر اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ سندھ سب سے زیادہ گیس پیدا کرنے والا صوبہ ہے اور ناکام وزراء الزام ہم پر لگا رہے ہیں، ہماری حکومت نے گیس پائپ لائن بچھانے کے لئے کوئی راستہ نہیں روکا ہے۔ شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی چپقلش میں صوبے کے عوام پس کر رہ گئے ہیں، سردیوں میں گیس کی بندش نئی بات نہیں ہے، لیکن اس مرتبہ اس نے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کرلی ہے۔

کراچی سمیت صوبے بھر میں زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر چل رہی ہے، جبکہ صنعتی عمل کو جاری رکھنے کے لئے بھی بلاتعطل فراہمی ضروری ہے۔ سردیوں میں گیس کی کھپت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا اندازہ ہر حکومت کو ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کے تدارک کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے ایک دوسرے پر الزامات سے قطع نظر اس بحران کے حل کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو سنجیدگی کے ساتھ مشاورت کرنا ہوگی۔ اختلاف برائے اختلاف کی سیاست سے صرف عوام کو نقصان ہوگا اور ان کی پریشانیاں بڑھتی جائیں گی۔ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ وہ سندھ حکومت کے ساتھ بات کرے اور ان کے جائز تحفظات کو دور کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ دوسری سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کی جانب سے صوبائی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی اخراجات کا فرانزک آڈٹ کرانے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں فردوس شمیم نقوی کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی طرف سے بارہ برسوں میں خرچ کئے گئے فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں کا فرانزک آڈٹ ہونا چاہیئے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے چھبیس میں سے صرف تیرہ برسوں کی رپورٹ پبلک کی ہے، باقی چھپا لی گئی ہے، 2006ء سے آج تک کی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے، سندھ حکومت اپنے ہی بنائے گئے اصول فالو نہیں کر رہی ہے۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق سرکاری پیسہ ایسے استعمال کیا جاتا ہے جیسے ذاتی ملکیت ہو، پبلک منی اصولوں کے تحت استعمال ہونے اور اس کا حساب ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے آج تک کسی ملوث افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے، سرکاری فنڈز کی غلط ادائیگی کی روک تھام کا کوئی مؤثر نظام سندھ حکومت وضع نہیں کرسکی ہے، جبکہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے پوچھے گئے الزامات کا بھی سندھ حکومت جواب نہیں دیتی ہے۔ سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے مطالبے پر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فردوس شمیم نقوی نے اپنی پریس کانفرنس میں سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں، صوبے کے عوام کو حق ہے کہ ان کو اس بات کا علم ہو کہ ان کے ٹیکسز سے جمع ہونے والا پیسہ کن کاموں پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ فردس شمیم نقوی کے اس مطالبہ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے، حکومت سندھ کو چاہیئے کہ وہ اس سلسلے میں اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرے۔
خبر کا کوڈ : 837893
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
یہ صرف ڈرامہ بازی ہے
ہماری پیشکش