QR CodeQR Code

یوکرین طیارہ واقعہ اور سانحہ جولائی 1988ء میں فرق

11 Jan 2020 22:10

اسلام ٹائمز: آج جو دنیا بھر میں ایران کیخلاف شور مچا رہے ہیں، وہ یہ بتائیں کہ امریکی بحری افواج کیجانب سے ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائل مارکر گرانے پر اتنا واویلا کیوں نہیں کیا گیا۔ آج 167 افراد سانحہ طیارہ میں شہید ہوئے، مگر تین جولائی 1988ء کو امریکا نے 290 ایرانی شہریوں کو شہید کیا تھا۔ ایرانی مسافر بردار طیارہ براستہ بندر عباس دبئی کیجانب محو پرواز تھا۔ ایران اور امریکا میں فرق ہے جناب۔ امریکا نے ایران کی خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرایا تھا۔ امریکا کی ایران سے اعلانیہ کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی۔ جس وقت تہران میں یہ حادثہ رونما ہوا، تب ایران کے اندر 52 مقامات پر امریکی بمباری کی دھمکی موجود تھی۔ یہ امریکا کے حملے کی طرح نہیں تھا کہ دوسرے ملک کی سمندری حدود میں اسی ملک کے مسافر بردار طیارے پر حملہ کر دیا تھا۔


تحریر: محمد سلمان مہدی​

سانحہ یوکرین طیارہ پر ہمیں سانحہ جولائی 1988ء یاد آگیا۔ ان دو سانحات کی نوعیت اور فریقین کا طرزعمل سبھی کچھ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ پوری دنیا میں یوکرین طیارہ حادثہ سے متعلق شکوک و شبہات کو خبروں اور تبصروں کی صورت میں پھیلایا گیا۔ حالانکہ جب بھی اس نوعیت کے سانحات ہوتے ہیں تو تحقیقات کی جاتیں ہیں۔ بین الاقوامی فضائی قوانین میں اس کا طریقہ کار معین ہے۔ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ایسا کیا جاتا ہے۔ اس میں طیارے کا بلیک باکس بہت اہمیت رکھتا ہے، لیکن ابھی تحقیقات ہوئیں ہی نہیں تھیں کہ امریکی ذرائع ابلاغ اور اس کے بعد یورپی ذرائع ابلاغ نے اس پر قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔ امریکی حکام نے دانستہ طور پر اس تبلیغاتی مہم کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ ایران کی ایوی ایشن کے حکام اور ایوی ایشن سے متعلق ماہرین نے قانونی اور تیکنیکی باریکیوں کو بیان کر دیا تھا۔

سانحہ طیارہ یوکرینی اور سانحہ طیارہ ایرانی کے فرق کو سمجھنے سے پہلے ایک وضاحت۔ پچھلی تحریر میں ہم نے لکھا تھا کہ بغیر تحقیقات کے فیک نیوز کو امریکی زایونسٹ مغربی بلاک شد و مد کے ساتھ پھیلا رہا ہے تو دیگر احتمالات بھی ہیں، جو انکے ضعیف احتمال کی نسبت انتہائی قوی احتمالات ہیں۔ ورنہ اگر یہ حادثہ ہی ہے تو امریکی مغربی زایونسٹ بلاک کی یہ میڈیا وار شکست کی علامت ہے۔ کیونکہ، حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی ساری ہیکڑی ایران نے نکال دی ہے۔ ایران کے جوابی میزائل حملوں نے عراق میں عین الاسد فوجی اڈے میں امریکی تنصیبات کو زمیں بوس کر دیا اور امریکی بلاک اپنے نقصانات کے بعد نہ صرف خوفزدہ ہے، بلکہ کھسیا بھی رہا ہے۔ امریکی مغربی بلاک کی مہم کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت امریکی حکومت کے کلیدی عہدیداروں کے چہروں پر چھائی ​ہوئی مردنی بتا رہی ہے کہ ایران نے خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ ہمارا موقف تھا کہ ویسے تو اسے ایک حادثہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا، لیکن امریکی مغربی عربی زایونسٹ بلاک نے جس طرح خود ہی یہ مہم شروع کی ہے تو اس پر ایک جوابی بیانیہ بھی بنتا ہے۔

اس وقت تک خود امریکی چینل سی این این بھی یہ خبر نشر کرچکا تھا کہ یوکرین نے اس پر جو پہلا سرکاری موقف دیا، اس میں دہشت گردی کو خارج از امکان قرار دیا، لیکن بعد میں یوکرینی حکومتی عہدیداران نے وہ موقف ریکارڈ سے ڈیلیٹ کر دیا، یعنی مٹا دیا۔ اسی لئے ہم نے اس سے متعلق حقائق کی روشنی میں درست تجزیہ و تحلیل پیش کرنے کی درخواست کی تھی۔ اب چونکہ ایران کے متعلقہ سرکاری اداروں میں سے ایک کا موقف آچکا ہے تو بھی زمینی حقیقت تبدیل نہیں ہوئی ہے، کیونکہ یوکرین کی ملکیت مسافر بردار طیارے سے سب سے زیادہ جانی نقصان ایرانیوں کا ہوا ہے۔ اور جس وقت یہ نادانستہ واقعہ رونما ہوا، اسے آسان الفاظ میں حالت جنگ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پورا ایران ہائی الرٹ تھا اور اس کی سرحدی فضاؤں پر امریکی جنگی طیارے منڈلا رہے تھے۔

صرف ایک نکتے پر توجہ دیں کہ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ایک ایسے وقت کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے چکے تھے۔ حتیٰ کہ ایران میں ثقافت کی علامت سمجھے جانے والے مراکز یعنی مشہد اور قم میں امام رضا ؑ اور ان کی ہمشیرہ بی بی فاطمہ معصومہ (س) کے مزارات مقدسہ تک امریکی حملوں کی زد پر تھے اور پھر دہرا دوں کہ جس وقت یہ نادانستہ واقعہ رونما ہوا، اسے آسان الفاظ میں حالت جنگ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ پورا ایران ہائی الرٹ تھا اور اس کی سرحدی فضاؤں پر امریکی جنگی طیارے منڈلا رہے تھے۔ یعنی ایران حالت جنگ میں تھا۔  اسی لئے امریکا کے فوجی جنون اور جنگوں کے خلاف قائم ہونے والی فعال خواتین سیاسی کارکنان کی تنظیم پنک کوڈ نے اس سانحہ پر امریکا کو ملوث قرار دیا۔ جنگ مخالف پنک کوڈ تنظیم کی شریک بانی میڈیا بنجامن نے ٹوئٹر پر یہ تبصرہ کیا ہے۔ Iranian military says it was at its highest level of alert amid the heightened tensions with the US and in the confusion, they accidentally shot down the plane. Trump bears some blame, don’t you think? Tragic collateral damage from his murder of Soleimani

موجودہ تناؤ کی بنیادی وجہ امریکی حکومت اور افواج کے اشتعال انگیز غیر قانونی اقدامات اور حملے ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ سمیت پورا امریکی مغربی بلاک متعدد اہداف پر کام کر رہا ہے۔ امریکا کی داخلی سیاست یعنی صدر ٹرمپ کے مواخذے سے توجہ ہٹانا، ایران کے ہاتھوں امریکی افواج کی ذلت آمیز شکست کا بدلہ لینا، روس پر دباؤ بڑھانا، ایران اور مقاومت کے بلاک کو دباؤ میں لانا، وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ تھی کہ سقوط طیارہ کے بعد بغیر کسی تحقیق کے امریکی و مغربی ذرائع ابلاغ نے ایران مخالف پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا، جبکہ ایوی ایشن قوانین کی رو سے یا انٹرنیشنل لاء کے تحت تحقیقات نہیں ہوئیں تھیں، مگر امریکی بلاک اور ایران میں ایک واضح فرق ہے۔

اس صورتحال کا وہ پہلو کہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ایران نے حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ ایران نے سچ کو دنیا کے سامنے بیان بھی کر دیا اور معذرت بھی کی۔ قانون کے مطابق احتسابی عمل کا آغاز بھی کر دیا۔ ایران کی جانب سے حکام نے اپنی نادانستہ غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے اور عدلیہ نے مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی حسینی خامنہ ای نے سانحہ طیارہ کے متاثرین سے ہمدردی اور تعزیت کی ہے۔ مسلح افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسی تدابیر اختیار کریں کہ آئندہ ایسی غفلت اور غلطی کا امکان نہ رہے۔ ایران کے صدر نے بھی معذرت اور تعزیت کی ہے۔

آج جو دنیا بھر میں ایران کے خلاف شور مچا رہے ہیں، وہ یہ بتائیں کہ امریکی بحری افواج کی جانب سے ایران کے مسافر بردار طیارے کو میزائل مارکر گرانے پر اتنا واویلا کیوں نہیں کیا گیا۔ آج 167 افراد سانحہ طیارہ میں شہید ہوئے، مگر تین جولائی 1988ء کو امریکا نے 290 ایرانی شہریوں کو شہید کیا تھا۔ ایرانی مسافر بردار طیارہ براستہ بندر عباس دبئی کی جانب محو پرواز تھا۔ ایران اور امریکا میں فرق ہے جناب۔ امریکا نے ایران کی خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرایا تھا۔ امریکا کی ایران سے اعلانیہ کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی۔ جس وقت تہران میں یہ حادثہ رونما ہوا، تب ایران کے اندر 52 مقامات پر امریکی بمباری کی دھمکی موجود تھی۔ یہ امریکا کے حملے کی طرح نہیں تھا کہ دوسرے ملک کی سمندری حدود میں اسی ملک کے مسافر بردار طیارے پر حملہ کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ امریکا نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کا کوئی جہاز وہاں موجود ہی نہیں تھا اور الٹا ایران پر الزام لگا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ سان ڈیاگو ایئرپورٹ پر ایران ایئر کی پرواز کے شہید مسافر کے قاتل کیپٹن اور دیگر عملے کا ہیرو کی طرح استقبال کیا۔ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والے کیپٹن راجر کو لیجین آف میرٹ کا اعزاز دیا گیا۔ ابتدائی طور پر سانحہ جولائی 1988ء سے متعلق امریکا جھوٹ بولتا رہا اور آج تک ایران سے اس پر معذرت نہیں کی۔ امریکا نادم نہیں ہوا۔ امریکا میں قاتلوں کا احتساب تو دور کی بات، الٹا قاتلوں کو ہیرو قرار دیا گیا اور اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا یقیناً آج ایران کے خلاف تبلیغاتی مہم چلا کر اصل ایشوز سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ امریکا کی اس خطے میں موجودگی اور یہاں غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے تناؤ ہے۔ عراق کی پارلیمنٹ کے رسمی قانونی مطالبے کے بعد اب امریکا عراق سے نکل جائے۔

ان حقائق کی روشنی میں سانحہ یوکرین طیارہ پر مہم چلانے والے پہلے سانحہ ایران ایئر پر امریکا کا ٹرائل کریں۔ پاکستان میں بھی ایک ٹولہ ایسے مواقع پر بہت فعالیت دکھاتا ہے۔ ان کی خدمت میں عرض کہ افغانستان نے بھی نومبر 1988ء میں کہا تھا کہ پاکستان نے انکا ایک ٹرانسپورٹ طیارہ مار گرایا۔ اس میں تیس افراد شہید ہوئے تھے۔ خبر رساں ادارے رائٹر کی وہ خبر 22 نومبر 1988ء کو نیویارک ٹائمز میں شایع ہوئی۔ یہ خبر افغان گورنمنٹ ریڈیو نے نشر کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ تھوڑا لکھا زیادہ سمجھیں۔


خبر کا کوڈ: 837914

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/837914/یوکرین-طیارہ-واقعہ-اور-سانحہ-جولائی-1988ء-میں-فرق

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org