0
Sunday 12 Jan 2020 07:05

ٹرمپ اور داعش ایک پیج پر

ٹرمپ اور داعش ایک پیج پر
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

صدر کلنٹن کے خلاف مونیکا سکینڈل عروج پر تھا، امریکی عوام بڑے پیمانے پر مظاہرے کر رہے تھے۔ کلنٹن کو سینیٹ میں بڑی مخالفت کا سامنا تھا، لگ یوں رہا تھا کہ سینیٹ میں صدر کے مواخذہ کی تحریک آئے گی اور صدر کو ہٹا دیا جائے گا۔ یہ سکینڈل اتنا بڑا تھا کہ صدر کلنٹن کو معافی مانگنی پڑی تھی، مگر اس کے باوجود امریکی عوام کا غصہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ صدر کلنٹن نے اس وقت اسامہ بن لادن پر میزائل حملے کا ڈرامہ رچایا تھا، وہ میزائل پاکستان سے گذرتے ہوئے افغانستان گئے تھے۔ اسامہ تو بچ گیا مگر یہ میزائل حملہ کلنٹن کو اس سکینڈل سے بھی نکال گیا۔ٹرمپ کی دماغی حالت کو لے کر ابھی ٹرمپ کے خلاف بھی بڑی مہم چل رہی تھی اور امریکی ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کے خلاف کارروائی شروع ہونے ہی والی تھی کہ ٹرمپ نے ایڈنچر کیا اور تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے جنرل سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو شہید کر دیا۔ اس حملے سے ٹرمپ اگرچہ مکمل طور پر تو اس تحریک سے نہ نکل سکا، کیونکہ ایوان نمائندگان نے اس کے جنگ کے اختیارات محدود کرنے کی بات کی ہے، البتہ امریکہ میں موجود جنگ پسند حلقوں میں بہت مقبول ہوگیا، جو آئندہ الیکشن میں اس کی سپورٹ ضرور کریں گے۔
 
ایک امریکی اخبار کی رپورٹ پڑھ رہا تھا، اس نے لکھا تھا کہ امریکی عوام  کے شائد ایک فیصد لوگوں نے بھی جنرل سلیمانی کا نام نہیں سنا ہوگا مگر آج کے بعد ان کو مسلسل یہ باور کرایا جائے گا کہ جنرل سلیمانی کا خطرہ اسامہ بن لادن اور بغدادی سے بڑا تھا، جسے ٹرمپ نے ختم کر دیا اور اس پر الیکشن کیمپین چلائی جائے گی۔اخبار نے بالکل درست لکھا کہ ٹرمپ اپنے انسانیت سوز اقدام کو سادہ لوح امریکی عوام کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرے گا۔ ابھی کل اس نے ایک ریلی سے خطاب کیا اور امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور اشارہ اسی طرف تھا۔ ویسے منافقت کی بھی انتہا ہوتی ہے، سی این این کی کچھ عرصہ پہلے کی رپورٹ ٹویٹر پر بہت وائر ہوئی ہے، جس میں وہ داعش کے خطرے سے نمٹنے والے واحد فرد کے طور پر جنرل سلیمانی کا تعارف کراتے ہیں، جن کی کار کردگی اس انسانیت دشمن گروہ کے خلاف لڑنے والے نام نہاد ممالک کی کارکردگی سے زیادہ ہے اور سلیمانی وہ شخص ہیں، جن کی حکمت عملی نے داعش کو عراق و شام سے پسپا کر دیا ہے۔

ایک اہم بات جس پر بہت کم بولا اور لکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس حملے پر دنیا کے کسی ملک نے امریکہ کو مبارکباد نہیں دی، یہاں تک کہ سعودی عرب و اسرائیل نے بھی، اگرچہ اندرونی طور پر خوشی کا اظہار کیا، مگر رسمی طور پر ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ یہ امریکی اقدام ہے اور ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ محمد بن سلمان نے اپنے بھائی کو اس پیغام کے ساتھ  وائٹ ہاوس بھیجا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ دونوں ممالک کا خوف یہ بتا رہا ہے کہ وہ ردعمل سے کس قدر خوف زدہ ہیں  کہ کہیں وہ اس کی لپٹ میں نہ آجائیں۔ ویسے میں سوچ رہا تھا کہ موت برحق ہے اور ہر انسان کو موت آنی ہے، آج نہیں تو کل اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے، مگر کچھ لوگ ایمان کی اس منزل پر فائز ہوتے ہیں کہ ان کے لیے بستر پر کسی بیماری سے مرنا عیب ہوتا ہے۔ ان کے ایمان کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ دشمن کے مدمقابل سینہ تان کر کھڑے ہوں اور شہید ہوں۔ جنرل سلیمانی اور ابومہدی مہندس کی پوری جہادی زندگی اس بات کی متقاضی تھی کہ وہ شہادت کے حقدار ٹھہریں اور ان کا خون ملت کی حفاظت میں کام آئے۔

اس واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق نام کی کوئی چیز طاقتور کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ دونوں استعمار کے جدید نظریاتی ہتھیار ہیں، وہ جہاں چاہتا ہے کہ مسلط ہو، کوئی بہانہ نہ ہو تو اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ان دلفریب نعروں کے ساتھ حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ابھی دیکھیے عراق کی خود مختاری کو روندتے ہوئے حملہ کیا گیا، جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ایک ایسے شخص پر جو سفارتی پاسپورٹ کے ساتھ  اور ملک کے وزیراعظم کی دعوت پر آیا ہے اور امن مشن پر حملہ کیا گیا۔ یہ بین الاقوامی قانون کی دہری خلاف ورزی ہے، کیونکہ سفارتکار پر امن مشن کے دوران حملہ صرف غیر تہذیب یافتہ اقوام ہی کرتی ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، اس کی جان نہیں لی جا سکتی۔ امریکہ نے بغیر کسی عدالتی کارروائی اور بغیر کسی ثبوت کے کئی انسانوں کی جان لی ہے۔ بہادر اقوام اصول جنگ کے مطابق جنگ لڑتی ہیں، وہ اس طرح کے بزدلانہ حملے نہیں کرتیں۔ داعش نے بیان دیا ہے کہ ہمیں جنرل قاسم سلیمانی کی موت پر بہت خوشی ہوئی، کیونکہ ہمارا بڑا دشمن مارا گیا، یہ وہ واحد آفیشل بیان ہے، جس میں خوشی  کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا تھا اور یوں علی الاعلان داعش اور اس کے اصل مالک ٹرمپ ایک پیج پر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 837967
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش