0
Sunday 12 Jan 2020 23:53

کیا لیبیا دوسرا شام بننے والا ہے؟

کیا لیبیا دوسرا شام بننے والا ہے؟
تحریر: علی احمدی

لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کے بعد معمر قذافی سرنگون ہو گئے اور اس میں ملک میں طاقت کی جنگ کا آغاز ہو گیا جو اب تک جاری ہے۔ اس وقت لیبیا میں دو بڑے گروہ ایکدوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں جبکہ علاقائی اور عالمی سیاسی کھلاڑی جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، ترکی، یورپی ممالک اور امریکہ دونوں میں سے کسی ایک کی حمایت کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ لیبیا کا ایک دھڑا فائز السراج کی سربراہی میں قومی متحدہ حکومت بنائے کھڑا ہے۔ یہ حکومت 2015ء کے آخر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی تشکیل پائی تھی۔ جبکہ دوسرا دھڑا ملک کے مشرقی حصوں پر کنٹرول جمائے بیٹھا ہے اور اس کی سربراہی عقیلہ صالح کے ہاتھ میں ہے جو خود کو ایوان نمائندگان کے سربراہ کہلاتے ہیں اور انہیں جنرل خلیفہ حفتر کی کمان میں نیشنل آرمی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ طرابلس میں قومی متحدہ حکومت اقوام متحدہ کی جانب سے قانونی حکومت قرار دی جا چکی ہے۔ ترکی اور قطر سمیت کئی ممالک اس کے حامی ہیں۔ دوسری طرف جنرل خلیفہ حفتر کی کمان میں فورسز ملک کے مشرقی حصوں پر قابض ہیں جہاں خام تیل کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ خام تیل کی فروش سے حاصل ہونے والی رقم طرابلس میں موجود اسٹیٹ بینک میں جمع ہوتی ہے۔

گذشتہ چند دنوں سے لیبیا کے حالات میں تیزی آئی ہے۔ جنرل حفتر کی فورسز نے ایئرفورس کے ذریعے ہوائی حملے کر کے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ساحلی شہر سرت پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرت سابق حکمران معمر قذافی کا آبائی شہر ہے جس پر قبضہ جنرل حفتر کی زیر کمان فورسز کی طاقت میں بہت زیادہ اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ ان فورسز نے گذشتہ برس اپریل کے مہینے سے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ مرکزی حکومت کے خلاف مسلح اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سرت کا شہر لیبیا سے خام تیل درآمد کرنے والی بندرگاہوں کے قریب واقع ہونے کے ناطے یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ جنرل حفتر کی پیشقدمی تیل کی درآمدات کو متاثر کر سکتی ہے۔ جنرل خلیفہ حفتر کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، روس اور فرانس کی حمایت حاصل ہے۔ جنرل حفتر طرابلس پر قبضہ کر کے سراج کی حکومت گرانے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ترکی، قطر اور بعض یورپی ممالک طرابلس میں برسراقتدار قومی متحدہ حکومت کے حامی ہیں اور اسے گرنے سے بچانا چاہتے ہیں۔

اخبار رای الیوم لیبیا کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے: "لیبیا کا محاذ روز بروز زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے اور اس ملک میں جاری پراکسی وار زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت لیبیا میں انتہائی اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو اس ملک کا سیاسی اور جغرافیائی نقشہ تبدیل کر سکتی ہیں۔ پہلے نمبر پر جنرل خلیفہ حفتر کی سربراہی میں سرگرم عمل فورسز کی کامیابی ہے جنہوں نے اپنا نام لیبیا نیشنل آرمی سے تبدیل کر کے لیبیا عرب آرمڈ فورسز رکھ لیا ہے۔ معمر قذافی کے آبائی شہر سرت پر ان کا قبضہ فوجی جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ ایک مسلح تکفیری گروہ خریدنے کے ذریعے انجام پایا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصراتہ پر بھی حملہ ور ہونے کیلئے تیار ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ شام سے 3000 تکفیری عناصر طرابلس پہنچ چکے ہیں جن کے ہمراہ ترکی فوج کے 35 افسران مشیر کے طور پر موجود ہیں۔ ان کا مقصد فائز السراج کی سربراہی میں قومی متحدہ حکومت کو بچانا ہے جسے اخوان المسلمین رہنماوں علی الصلابی اور عبدالحکیم بلحاج کی بھی حمایت حاصل ہے۔ تیسرے نمبر پر یہ کہ لیبیا میں ان دونوں دھڑوں کے درمیان ٹکراو کی شدت کے باعث اس کے دو ہمسایہ ملک تیونس اور الجزائر بھی سفارتکاری کی زد میں آ چکے ہیں۔

حال ہی میں فرانس کے وزیر خارجہ لودریان نے تیونس کا دورہ کیا اور تیونس کے صدر قیس سعید سے ملاقات کی ہے جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے بھی تیونس کا دورہ کیا ہے۔ اسی طرح مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے بھی الجزائر کا دورہ کیا اور اسی وقت اٹلی کے وزیر خارجہ لویجے ڈی مایو بھی الجزائر میں موجود تھے۔ چوتھے نمبر پر یہ کہ جرمنی کی وائس چانسلر اینگلا مرکل نے عنقریب لیبیا کے بارے میں اہم اجلاس منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے جس میں امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، اٹلی، متحدہ عرب امارات، ترکی، یونان، قبرص اور الجزائر کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ لیکن اب تک لیبیا کا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے تیونس کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ یاد رہے تیونس طرابلس میں برسراقتدار قومی متحدہ حکومت کا حامی ہے۔ اگر یہ رپورٹ صحیح ہو کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صرف 35 فوجی مشیر لیبیا بھیجنے پر اکتفا کیا ہے اور جنگ میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ لیبیا میں فوجی مداخلت کا ارادہ ترک کر چکے ہیں۔ رجب طیب اردگان کا موقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ لیبیا میں شام والا ماڈل دہرائیں گے اور اپنے فوجی بھیجنے کی بجائے وہاں موجود مسلح عناصر پر ہی تکیہ کریں گے۔

اسی مقصد کی خاطر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے استنبول میں غیر ملکی مسلح عناصر کو لیبیا بھیجنے کیلئے بھرتی کا مرکز قائم کر دیا ہے اور اب تک یہ مرکز 2500 مسلح افراد کو طرابلس اور مصراتہ بھیج چکا ہے۔ رپورٹس کے مطابق لیبیا جانے والے ہر مسلح شخص کو 2000 سے 5000 ڈالر دیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز کی بہتات ہے جن میں ترکی کے حمایت یافتہ ان مسلح عناصر کو دکھایا گیا ہے۔ یہ عناصر جنرل خلیفہ حفتر کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور اس کے خلاف اسی انداز میں رجز خوانی کر رہے ہیں جیسے ماضی میں شام کے صدر بشار اسد کے خلاف کرتے تھے۔ دوسری طرف شام میں حکومت مخالف گروہوں نے صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے ان عناصر کو لیبیا بھیجنے کی مخالفت کی ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں ادلب میں ان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ مصر، روس، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حمایت یافتہ جنرل حفتر کی فورسز اس وقت مصراتہ کا محاذ کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تاکہ اس طرح مصراتہ میں مقیم افراد کو طرابلس چھوڑ کر اپنے شہر آنے پر مجبور کر دیں اور طرابلس کی دفاعی پوزیشن کمزور کر دیں۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لیبیا دوسرا شام بننے جا رہا ہے؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اور اگر ہم یہ کہیں کہ دوسرا شام بن چکا ہے تب بھی مبالغہ آرائی نہیں کی۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار کامیابی کس دھڑے کو حاصل ہو گی؟ جنرل خلیفہ حفتر کی فورسز کی پیشقدمی کے باوجود فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا اور اس سوال کا جواب مستقبل قریب میں برلن میں منعقد ہونے والے اجلاس پر منحصر ہے۔ وہاں دیکھیں گے کہ شریک ممالک میں سے کس کی کیا پوزیشن ہے اور آپس میں کیا ڈیل ہوتی ہے۔ اسی طرح اس اجلاس میں لیبیا کی اس خانہ جنگی کا راہ حل بھی واضح ہو گا۔ دوسری طرف بعض تجزیہ کاروں نے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے درمیان ملاقات کے تناظر میں دونوں رہنماوں کے درمیان مفاہمت کا امکان ظاہر کیا ہے۔ وہ اس ملاقات کو شام سے متعلق آستانہ مذاکرات سے تشبیہہ دے رہے ہیں جبکہ صورتحال واضح ہونے کیلئے وقت درکار ہونے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ اگرچہ برلن اجلاس کے نتیجے میں لیبیا کا بحران حل ہونے کا یقین نہیں پایا جاتا لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ اس کا نتیجہ اس بحران کا کوئی پرامن حل سامنے آنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبیا کی عوام دیگر بہت سے عرب ممالک کی طرح تاریخ کی بہت بڑی فریب کاری سے روبرو ہیں۔ وہ امریکہ اور عرب میڈیا کے جھوٹے دعووں اور گمراہ کرنے والے ہتھکنڈوں پر اعتماد کر چکے تھے۔ ان کا تصور تھا کہ نیٹو ان کے ملک کو جنت میں تبدیل کر دی گا اور امن کا گہوارہ بنا دے گا۔ لیکن نیٹو کی مداخلت کا نتیجہ خانہ جنگی، عدم استحکام اور ملک و قوم کے اربوں ڈالر کی لوٹ مار کی صورت میں نکلا۔ اسی طرح لیبیا کی آبادی کا بڑا حصہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی فوجی مداخلت نے لیبیا کو موجودہ بحران سے ہمکنار کیا ہے۔ اسی مداخلت کے باعث ملک میں شدت پسند عناصر کو سر اٹھانے کا موقع میسر آیا۔ بہرحال، اس وقت جب قومی متحدہ حکومت اور جنرل خلیفہ حفتر کے درمیان ٹکراو میں شدت آ چکی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ولادیمیر پیوٹن اور رجب طیب اردگان کے درمیان ملاقات کسی پرامن راہ حل پر منتج ہو گی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب آئندہ چند دنوں اور ہفتوں میں واضح ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 838084
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش