0
Monday 13 Jan 2020 22:10

ٹرمپ نے کیا کھویا کیا پایا؟

ٹرمپ نے کیا کھویا کیا پایا؟
تحریر: سید اسد عباس

3 جنوری 2020ء کو امریکہ کی جانب سے بغداد ایئر پورٹ پر ہونے والے ایک دردناک اور دہشت گردانہ حملے میں امریکی استعمار و استکبار اور صہیونی رژیم کے خلاف عالمی مقاومتی محاذ کے دو عظیم سپوت ہم سے جدا ہوئے۔ ایک شہید عراق کی رضاکار فورس حشد الشعبی کا روح رواں تھا اور دوسرا شہید خطے میں مقاومت کو موجودہ بلندیوں تک لے کر جانے والا یعنی سردار قاسم سلیمانی۔ ان دونوں شہداء کی مقاوت کے لیے کاوشوں اور انتھک جدوجہد نیز کامیابیوں کو دیکھا جائے تو ان دونوں حضرات کا چلے جانا عالمی مقاومتی محاذ کے لیے ایک عظیم نقصان ہے اور امریکہ نیز اس کے حواریوں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اکثر ایسے حادثات قوموں اور تحریکوں کے مستقبل پر نہایت برے اثرات کے حامل ہوتے ہیں، جیسا کہ خود پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینی کے قتل کا واقعہ ہے، جس کے بعد پاکستان میں ملت تشیع کو مختلف چیلنجز سے دوچار ہونا پڑا اور تقسیم در تقسیم کے عمل کے بعد یہ ملت ویسی متحرک نہ رہی، جیسی علامہ عارف حسینی کے دور میں تھی۔ شاید کچھ احباب کو اس بات سے اختلاف ہو، تاہم آج ملت تشیع میں موجود مختلف گروہوں کا وجود میرے دعویٰ کے اثبات کے لیے کافی ہے۔ دہشتگردانہ کارروائی کے ذریعے کسی معروف شخصیت کو قتل کرنے کا بنیادی ہدف دشمن کی نگاہ میں یہی ہوتا ہے کہ تحرک اور پیشرفت کو متاثر کیا جائے۔ بعض اوقات دشمن کو کامیابی ملتی ہے اور بعض اوقات معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔

لبنان اور ایران میں بھی استعماری قوتوں نے مقاومتی محاذ کے اہم قائدین کے قتل کی کئی ایک کارروائیاں کیں، جن میں سے کچھ میں اسے کامیابی ہوئی اور کچھ میں وہ ناکام رہا۔ حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل شہید عباس موسوی کو کار بمب دھماکے میں قتل کیا گیا تو حزب اللہ کو سید حسن نصراللہ کی شکل میں ایک زیادہ موثر آواز ملی۔ سید حسن نے شہید عباس موسوی کی راہ پر چلتے ہوئے حزب اللہ کو کامیابیوں کی نئی بلندیوں سے روشناس کروایا۔ حزب اللہ نے سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیل کو نہ فقط ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا بلکہ اس مقاومتی محاذ کو ایک اہم سیاسی تحریک کے طور پر روشناس کروایا اور حزب اللہ لبنان کی پارلیمنٹ میں ایک قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ آج حزب اللہ لبنان خطے میں ایک اہم اکائی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ خود سید عباس موسوی شہید ایک معروف راہنماء سید موسیٰ صدر کی جبری گمشدگی کے بعد لبنان کی ملت کے قائد کی صورت میں سامنے آئے تھے۔ اسی طرح ایران میں مرتضیٰ مطہری(فلسفی)، علی شریعتی(سماجیات کے ماہر اور مقرر)، آیت اللہ بہشتی(آئین ایران کے خالق)، شہید جواد باہنر(وزیراعظم)، محمد علی رجائی (صدر)، حزب جمہوری اسلامی کے ستر ممبران پارلیمنٹ اور ان گنت افراد دہشتگردانہ حملوں کا نشانہ بنے، تاہم ملت ایران نے ان سب نقصانات کو اپنی قوت و طاقت میں بدلا اور ان عظیم افراد کی جگہ دوسروں نے لے لی اور ملت ایران کو اس مقام پر لائے کہ آج وہ مشرق وسطیٰ میں ایک اہم قوت ہے اور دنیا کے بڑی طاقتیں ان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں۔ چالیس برس سے مسلسل شدید تر ہوتی پابندیوں کے باوجود آج ملت ایران زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی جانب گامزن ہے۔

امریکا اگر لبنان اور ایران میں کئی گئی گذشتہ دہشتگردانہ کارروائیوں کے نتائج کو سامنے رکھتا تو شاید کبھی قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کے قتل کا اقدام نہ کرتا۔ دانشمندی بھی یہی تھی، تاہم امریکہ کا یہ اقدام قاسم سلیمانی شہید اور ابو مہدی المہندس شہید کی کامیابی اور استعمار و استکبار کی سازشوں کے مقابلے میں مقاومتی محاذ کی پر تاثیر شخصیات ہونے کی بین دلیل ہے، جیسا کہ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس شہید کا قتل امریکی شکست، بوکھلاہٹ اور ہٹ دھرمی کی علامت ہے۔ سید حسن نصراللہ نے امریکی دہشت گردانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے خطاب کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کے علی الاعلان قتل کے سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے قبل جنرل قاسم سلیمانی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی تمام تر امریکی سازشیں ناکام ہوچکی تھیں، لہذا اس مرتبہ امریکہ نے انہیں سرعام شہید کرنے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی دوسری وجہ خطے میں امریکہ کی مسلسل شکستیں، اسلامی مزاحمتی محاذ کی مسلسل فتوحات، عراق کی بدلتی صورتحال اور امریکی صدارتی انتخابات کی نزدیکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخاب کے دو تین سالوں کے بعد اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کیا، لیکن اس تمام تر عرصے میں خارجہ سیاست خصوصاً اس خطے اور اس کی عوام کے حوالے سے ٹرمپ نے سوائے شکست اور بوکھلاہٹ کے کیا حاصل کیا ہے۔؟

شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس شہید کی شہادت کے ساتویں روز کی مناسبت سے اپنے خطاب میں سید حسن نصر اللہ نے نہ فقط شہید قاسم کی حزب اللہ اور مقاومتی محاذ کے لیے خدمات کو سراہا بلکہ ان کی شہادت کے بعد کی صورتحال پر بھی بات کی۔ سید حسن نے ایران کی عین الاسد اڈے پر کارروائی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ عین الاسد کو نشانہ بنانے کی ایرانی کارروائی انتہائی شجاعت پر مبنی ہے، جبکہ ٹرمپ نے 52 ایرانی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی تھی، لیکن وہ کچھ کر نہیں پایا۔ سید حسن نے ایران کی جانب سے عین الاسد پر کیے جانے والے اس حملے کے بارے میں کہا کہ ہلاکتوں سے ہٹ کر جنہیں وقت ثابت کرے گا، اس میزائل حملے کا سب سے بڑا اثر خطے میں موجود ہر دوست و دشمن کی نگاہ میں امریکی رعب و دبدبے کو خاک میں ملا دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اسرائیل کے اندر اب یہ کہا جا رہا ہے کہ آخرکار امریکہ نہ صرف عراق سے بلکہ پورے خطے سے ہی نکل جائے گا اور ہمیں اکیلا چھوڑ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ کیا آپ نے ٹرمپ اور اس کے ساتھیوں کے چہرے دیکھے تھے؟ کیا ان کے چہرے یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ فتحیاب ہوئے ہیں یا یہ کہ وہ عزادار ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ایران نے امریکیوں کو کہہ رکھا تھا کہ اگر تم نے جواب دیا تو خطے میں موجود تمام امریکی فوجی اڈے اور اسرائیل کو فوری طور پر خاک میں ملا دیا جائیگا۔ سید حسن نے کہا کہ ہمارا ہدف اب خطے سے امریکی افواج کا انخلا ہے اور جلد ہی آپ اس پر عمل ہوتا دیکھیں گے۔

قاسم سلیمانی کی شہادت نے مقاومتی محاذ کو کمزور کیا ہے یا مضبوط، اس کا اندازہ عین الاسد میں ہونے والی تباہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ سی این این کی رپورٹ میں عین الاسد کے امریکی اڈے پر میزائل حملے کے نتیجے میں ہونے والے ظاہری نقصان کے پس پردہ بہت بڑا باطنی نقصان بھی موجود ہے، امریکہ ناقابل رسائی ہونے کا بھرم کھو چکا ہے، وہ جن کے دفاع کے لیے اس خطے میں موجود تھا، اب سوچ رہے ہیں کہ ہائی الرٹ کے باوجود جو اپنا دفاع کرنے سے قاصر رہا، ہمارا دفاع کیا کرے گا، سید حسن کے مطابق اسرائیل میں اس صورتحال پر بے چینی ہے۔ عین الاسد میں جس طرح کی ویڈیوز دکھائی جا رہی ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ اب اس اڈے پر نہیں رہنا چاہتا ہے۔ فیصلہ ٹرمپ کو ہی کرنا ہے کہ امریکی فوجی افقی طور پر جانا پسند کریں گے یا عمودی طور پر۔ عراقی پارلیمان نے بھی امریکیوں کو عراق چھوڑنے کا کہہ دیا ہے۔ عین الاسد کی کارروائی کے بعد امریکی افواج کا قطر، دبئی، کویت یا سعودیہ میں ہونا خود ان ممالک کے لیے بھی خطرناک ہے۔ اگر امریکہ دوبارہ ایران پر کوئی حملہ کرتا ہے اور اس حملے کے لیے ان عرب ممالک کی سرزمین کو استعمال کرتا ہے تو یقیناً جواب انہی زمینوں پر دیا جائے گا، جو ان ممالک کی معیشت کے لیے کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ روس اور چین بھی اس مقاومتی محاذ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسی صورتحال میں امریکا کے لیے حالات مزید کشیدہ اور پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اب امریکی فوجی مشرق وسطیٰ کو افقی حالت میں ہی ترک کر دیں، ورنہ قاسم سلیمانی شہید اور ابو مہدی المہندس شہید کے چاہنے والے تو انہیں عمودی طور پر بھیجنے پر آمادہ ہوچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 838289
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش