0
Tuesday 14 Jan 2020 21:55

امریکہ اور دور ہوتے اتحادی

امریکہ اور دور ہوتے اتحادی
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ان کی یکہ تازیوں اور یکطرفہ اقدامات کے باعث یورپی ممالک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان تجارتی شعبے میں بھی شدید اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن یہ اختلافات اور کشیدگی صرف اس شعبے تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس وقت یورپی ممالک مختلف ایشوز جیسے ایران سے جوہری معاہدہ، موسمیات سے متعلق پیرس معاہدہ، نیٹو میں یورپی ممالک کے کوٹے میں اضافہ اور ان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ وغیرہ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شدید اختلافات کا شکار ہیں۔ امریکہ کا اسٹریٹجک اتحادی ہونے کے ناطے برطانیہ کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ وہ واشنگٹن سے انتہائی قریبی تعلقات استوار رکھے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنے گرد گھومتی خود غرضی پر مبنی پالیسیوں کے نتیجے میں برطانیہ بھی امریکہ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب برطانیہ امریکہ کا تابع دار جانا جاتا تھا اور اس نے 31 جنوری 2020ء کے دن یورپی یونین سے علیحدگی کے تناظر میں امریکہ سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن اب وہ امریکہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

برطانیہ کے وزیر دفاع رابرٹ والاس نے کہا ہے کہ امریکہ دنیا کی سربراہی کھو چکا ہے لہذا لندن کو بھی اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ انہوں نے اتوار 12 جنوری کے دن بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی جانب سے عالمی سطح پر لیڈرشپ کی پوزیشن کھو دینے کے بعد اب برطانیہ کو امریکہ پر تکیہ کئے بغیر جنگوں میں حصہ لینے کے بارے میں سوچنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ کی عالمی لیڈرشپ سے تیزی سے پسپائی جاری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ برطانیہ کو اپنے دفاعی منصوبوں کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اس بات پر اصرار کے باوجود کہ ان کے برسراقتدار آنے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ کی پوزیشن میں بہتری آئی ہے زمینی حقائق کسی اور بات کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کے باعث روس اور چین جیسے حریف ممالک کے علاوہ یورپی ممالک جیسے اتحادی ممالک نے بھی امریکی مطالبات کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔

دفاعی اور فوجی شعبوں میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے یورپی اتحادی ممالک پر فوجی بجٹ بڑھانے پر زور دیے جانے کے باعث نیٹو میں بھی شدید اختلافات اور خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ دنیا خاص طور پر مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی ذمہ داریوں میں کمی پر مسلسل تاکید کر رہے ہیں۔ اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ٹرمپ حکومت نے اس جانب کوئی عملی اقدام بھی انجام دیا ہے یا نہیں یا صرف باتوں کی حد تک ہی یہ موقف اپنا رکھا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ موقف بذات خود لندن سمیت اس کے دیگر اسٹریٹجک اتحادیوں کی پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔ اس بارے میں برطانوی وزیر دفاع نے دو باتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے: "امریکہ نے گذشتہ برس شام سے پسماندگی اختیار کی اور عراق کے بارے میں بھی کہہ رہا ہے کہ وہاں اپنی جگہ نیٹو کو لانے کا خواہاں ہے اور نیٹو کو مغربی ایشیا میں زیادہ سرگرم ہونا چاہئے۔" امریکہ کے اس موقف نے ڈونلڈ ٹرمپ پر برطانوی اعتماد ختم کر دیا ہے لہذا اس وقت برطانوی سیاست دان اپنی دفاعی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینے پر زور دے رہے ہیں۔

برطانوی وزیر دفاع والاس کے مطابق 2010ء میں برطانوی حکام یہ تصور کرتے تھے کہ وہ ہمیشہ امریکہ کے اتحادی باقی رہیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب برطانیہ میں ایسا کوئی نہیں سوچتا۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ برطانوی فوج امریکہ کی ایئرفورس اور الیکٹرانک وار ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ منحصر ہے لہذا اب اسے خود اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ 26 جون 2019ء کے دن اخبار ڈیلی میل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں برطانوی ایئرفورس کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ کی ایئرفورس کے پاس 2007ء میں 210 جنگی طیارے تھے لیکن اس وقت 43 فیصد طیارے ناکارہ ہو چکے ہیں جس کے باعث ایئرفورس بہت بری حالت میں ہے۔ یوں لندن یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد نہ صرف تجارتی شعبے میں امریکہ سے وسیع تعلقات استوار کرنے کی گہری امید لگائے بیٹھا تھا بلکہ اسے امریکہ سے فوجی تعاون کی بھی توقع تھی۔ لیکن اب یوں دکھائی دے رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے نتیجے میں برطانوی حکام اس سے ناامید ہو چکے ہیں اور اب خود اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے اور پروان چڑھانے کی باتیں کر رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت میں امریکہ اور یورپی ممالک کے درمیان بنیادی اختلافات میں سے ایک یورپ کی دفاعی پالیسیوں اور سیٹ اپ نیز نیٹو کی اہمیت اور کردار کے بارے میں متضاد موقف ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان وسیع خلیج اور امریکہ کی جانب سے یورپی ممالک پر مسلسل اپنے مطالبات ٹھونسنے کے نتیجے میں اب یورپی حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں مختلف شعبوں خاص طور پر دفاعی اور فوجی شعبوں میں علیحدہ پالیسیاں اختیار کرنی پڑیں گی اور امریکہ سے ہٹ کر علیحدہ دفاعی اور سکیورٹی سیٹ اپ قائم کرنا پڑے گا۔ لیکن امریکہ اس کا شدید مخالف ہے۔ امریکہ نے یورپی ممالک کو علیحدہ دفاعی اور فوجی پالیسیاں اپنانے کے نتیجے میں تجارتی اور سیاسی شعبوں میں بھی تعاون ختم کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ پینٹاگون نے یورپی ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے علیحدہ دفاعی سیٹ اپ بنانے کی کوشش کی تو امریکہ اس کا مقابلہ کرے گا۔ لہذا اگر یورپی ممالک امریکہ سے ہٹ کر کسی ملک کے ساتھ دفاعی، فوجی یا سکیورٹی شعبے میں کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو امریکہ ان کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات پر نظرثانی کرے گا۔

دوسری طرف یورپ نے بھی امریکہ کے خلاف ملتے جلتے دھمکی آمیز بیان جاری کئے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے موسمیاتی امور سے متعلق پیرس معاہدے سے دستبرداری ان کیلئے غیر متوقع نہیں تھی۔ ایمانوئیل میکرون نے 10 جنوری کے دن صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: "ہم ایسے ممالک سے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جو موسمیاتی امور سے متعلق پیرس معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔" یوں فرانس وہ دوسرا یورپی ملک ہے جس نے واضح طور پر امریکہ کو دھمکی دی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں روز بروز امریکہ کی گوشہ نشینی کا باعث بن رہی ہیں اور حتی امریکہ کے قریبی اتحادی ممالک بھی اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 838473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش