QR CodeQR Code

مغربی معاشرہ میں عورت و مرد کی برابری کی حقیقت(2)

15 Jan 2020 09:17

اسلام ٹائمز: سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کی 87 خواتین ارکان اور 6 مرد ارکان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ سویڈن کی وزیر خارجہ مارگوٹ والسٹروم نے بھی می ٹو کمپین میں شامل ہوتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ انہیں بھی اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر جنسی زیادتی کا تلخ تجربہ سہنا پڑا۔ سویڈن یورپی ممالک میں جنسی زیادتی اور خواتین کی آبروریزی کے حوالے سے یورپ میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس ملک میں ہر چار عورتوں میں سے ایک جنسی تجاوز کا شکار ہوتی ہے۔


 تحریر: ڈاکٹر راشد عباس 

ترقی یافتہ ممالک میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ غربت و افلاس میں مبتلا ہیں۔ اب تو یورپ میں ایک اصطلاح "غربت کا زنانہ ہونا" رائج ہوگئی ہے۔ یورو نیوز کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں ایک تہائی آبادی کو غربت و افلاس کا چیلنج درپیش پے۔ اس میں عورتوں کے اعداد و شمار مردوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق 12 میلین عورتوں کو مردوں سے زیادہ غربت و افلاس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ میں سب سے زیادہ غریب عورتیں، صاحب اولاد عورتیں ہیں۔ امریکی پارلیمنٹ کی رکن الھان عمر نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ امریکہ میں 16 میلین عورتیں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہیں۔ امریکہ کے معرف فلمساز کری ڈک نے 2015ء میں شکارگاہ نامی ایک دستاویزی فلم بنائی تھی، جس میں ہاورڈ یونیورسٹی میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے موضوع کو نمایاں کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں فلم پروڈیوسر یہ پیش کرتا ہے کہ امریکہ میں ایک تہائی طالبات اپنی یونیورسٹی کے طلباء کے ہاتھوں جنسی زیادتی یا آبروریزی کا شکار ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق اس طرح کے 80 فیصد معاملات یونیورسٹی حکام تک نہیں پہنچائے جاتے۔ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیاں پولیس میں بھی رپورٹ نہیں کرتیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی طرف سے دستور ہے کہ پولیس میں مقدمہ رجسٹرد کرنے سے پہلے یونیورسٹی میں اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ضروری ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر نے اپنی دستاویزی فلم میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہاورڈ یونیورسٹی میں طالبات کے ساتھ جنسی زیادیتوں کا اصلی ریکارڈ سامنے آجائے تو یہ یونیورسٹی بند ہو جائے اور اس کے کرتا دھرتا ذمہ دار خودکشی کر لیں۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی کی سروے ٹیم کی ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیم مالوی نے 2016ء میں ہونے والے ایک سروے میں 1415 افراد سے انٹرویو کیے تھے۔ ٹیم مالوی کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کی خواتین اسٹاف سمیت ایک مرد اسٹاف کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جن عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں 69 فیصد کو آفس میں، 43 فیصد کو پبلک مقامات پر، 45 فیصد کو سڑکوں پر اور 14 فیصد کو گھروں میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکہ میں 88 فیصد مرد اور 89 فیصد عورتوں نے جنسی زیادتی کو امریکی معاشرے کی ایک بڑی حقیقت سے تعبیر کیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر دس عورتوں میں چھ عورتوں سے جنسی سوئے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہالی وڈ میں بھی عورتوں کا بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ہالی وڈ میں کام کرنے ولای 94 فیصد عورتوں کو جنسی زیادتی کے تلخ تجربے سے گزرنا پڑا۔

ہالی وڈ میں جنسی زیادتی کا طوفان اس قدر شدید ہے کہ 2017ء میں سوشل میڈیا پر می ٹو جیسی کمپین چلی۔ اس کمپین میں فلم پروڈیوسروں، اداکاروں، ہدایتکاروں کے علاوہ جارج بش اور بل کلنٹن جسے افراد کے نام بھی جنسی زیادتی کرنے والوں کے عنوان سے سامنے آئے تھے۔ ایسوسی ایئڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکی پارلیمنٹ کی خواتین ارکان بھی اس مصیبت سے محفوظ نہیں ہیں۔ امریکہ کا وائٹ ہائوس بھی اس طرح کے جرائم سے مبرا نہیں ہے۔ ڈیلی میل نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ڈونالڈ ٹرامپ کے وکیل نے سو ایسی عورتوں کو بھاری رقوم دی ہیں، تاکہ ڈونالڈ ٹرامپ کے خلاف جنسی زیادتی کے حوالے سے کسی طرح کا اطہار نہ کریں۔ عورتیں صرف امریکہ میں غیر محفوظ نہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی خواتین کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ میڈیا میں کہا جاتا ہے کہ یورپی ممالک کو اپنی سلامتی اور تحفظ کے لیے بہت زیادہ قانونی حمایت حاصل ہے، لیکن اعداد و شمار اس کے برعکس ہیں۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کی 87 خواتین ارکان اور 6 مرد ارکان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ سویڈن کی وزیر خارجہ مارگوٹ والسٹروم نے بھی می ٹو کمپین میں شامل ہوتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ انہیں بھی اعلیٰ ترین سیاسی سطح پر جنسی زیادتی کا تلخ تجربہ سہنا پڑا۔ سویڈن یورپی ممالک میں جنسی زیادتی اور خواتین کی آبروریزی کے حوالے سے یورپ میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس ملک میں ہر چار عورتوں میں سے ایک جنسی تجاوز کا شکار ہوتی ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے بھی ایک رپورٹ نشر کی تھی، جس میں آیا ہے کہ انسانی حقوق اور انسانی دوستانہ امور انجام دینے والی تنظیموں میں عورتوں کے خلاف جنسی زیادی کے متعدد لیکن خفیہ کیسز انجام پاتے ہیں۔ عالمی اداروں سے وابستہ جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین نے اعتراف کیا ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر مقامی سطح کے فلاحی اداروں میں یہ سماجی برائی پائی جاتی ہے، لیکن اس کے خلاف کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا جاتا۔

یہ رپورٹس اور تحقیقات ایسی حالت میں میڈیا میں نشر کی جاتی ہیں کہ مغربی معاشرہ اس بات کا دعوے دار ہے کہ معاشروں میں جنسی آزادی کے بعد زبردستی جنسی زیادتی کے کیسز کم ہوگئے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ مغرب کی عورت مردوں کے سامنے، مصرف، زینت و آرائش، بنائو سنگار اور جنسی ہیجان پیدا کرنے کی مظہر ہے۔ باقی جو عورت اور مرد کے مساوی ہونے اور جنسی مساوات کی باتیں کرتے ہیں، یہ صرف الفاظ اور مسئلہ کا ظاہری پہلو ہے۔ عدل و انصاف و مساوات کیا ہے؟ کیا یہ عورت کے ساتھ انصاف ہے۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خبر کا کوڈ: 838525

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/838525/مغربی-معاشرہ-میں-عورت-مرد-کی-برابری-حقیقت-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org