0
Wednesday 15 Jan 2020 11:14

سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت

سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت
رپورٹ: جے اے رضوی

شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد اس کے پیچھے چھپے ہوئے خفیہ ایجنڈے کی قلعی اب کھل چکی ہے، جو دراصل آر ایس ایس کا بنیادی ایجنڈا ہے، یعنی بھارت کو ہندو راشٹر بنانا۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ قانون ہندو راشٹر کی بنیاد کا پہلا پتھر ہے، اس کے لئے آئین میں دراندازی کرکے ترمیم کی گئی، دوسرے فیصلوں کی طرح اس خطرناک فیصلے کو لے کر بھی ملک کے عوام اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کی مظلوم مذہبی اقلیتوں کو شہریت دی جائے گی، امت شاہ بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ شہریت دینے کا قانون ہے، شہریت لینے کا نہیں، لیکن کیا یہ بات درست ہے۔ نہیں بلکہ اس طرح کے بیانات صرف اور صرف لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے دیئے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں بھارتی وزیر نتن گڈگری کا ایک بیان آیا ہے، جس میں انہوں نے بڑی معصومیت سے کہا ہے کہ ہندوؤں کے لئے کوئی اور ملک نہیں ہے، اس لئے یہ قانون لایا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر یہ تخصیص کیوںکر کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہی شہریت دی جائے گی۔؟ ہندو تو دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ہیں اور عرب اور خلیجی ممالک میں تو ان کی بڑی تعداد موجود ہے، کل کو اگر انہیں وہاں بھی ستایا گیا تو وہ بیچارے کہاں جائیں گے۔؟ جواب بہت آسان ہے، دوسرے ممالک میں آباد ہندوؤں یا مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسری مذہبی اقلیتوں کو شہریت دینے سے وہ سیاسی مقاصد ہرگز حاصل نہیں ہوسکتے، جو ان ممالک کے ستائے ہوئے مظلوم لوگوں کو دینے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ اب نتن گڈگری کے بیان پر ذرا سنجیدگی سے غور کریں، پھر ساری بات سمجھ میں آجائے گی، ایک جمہوری ملک کی جگہ وہ ہندوستان کو ہندوؤں کا ملک سمجھتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے کہا ہے کہ ہندوؤں کے لئے ہندوستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے آئین کی دفعہ 14 اور 21 کو بے اثر کر دیا گیا ہے، جن میں واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ ملک کے کسی شہری کے ساتھ رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب کے نام پر کوئی امتیاز نہیں ہوگا، سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا اور سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔

دراصل ہندوستان کے اقتدار پر جب سے آر ایس ایس کے تخریبی نظریہ والی بی جے پی کا قبضہ ہوا ہے، تب سے ملک میں فرقہ پرستی کو فروغ دینے والے فیصلے، بل اور قانون منظر عام پر آرہے ہیں۔ کہنے کو تو بی جے پی کی ہر پالسی مسلم مخالف ہی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کے دشمن نمبر ایک مسلمان ضرور ہیں، لیکن یہ لوگ دلت، قبائلی، خاتون اور غریب کے بھی مخالف ہیں۔ حکومت اعلانیہ یہ کہہ رہی ہے کہ ملک بھر میں آسام کی طرز پر این آر سی کو نافذ کیا جائے گا اور اس سے پہلے سی اے بی (شہریت ترمیمی بل) لایا گیا، جو پارلیمان اور صدر کی منظوری کے بعد اب قانون (شہریت ترمیمی ایکٹ) بن چکا ہے۔ حکومت سی اے اے اور این آر سی کا ملن اس ملک کے لئے کتنا خطرناک ہے، یہ بات ہر کسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

سی اے اے پر بات کرنے سے پہلے ہم این آر سی کو سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ این آر سی کسی بھی طرح سے صرف مسلم مخالف نہیں ہے، تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ این آر سی خاتون، دلت، قبائلی، زمین سے محروم اور غریب مخالف ہے۔ دراصل این آر سی شہریت کا وہ رجسٹر ہے، جس میں جس کا نام آجائے گا، اسے ہندوستانی شہری مانا جائے گا اور جو اس سے باہر رہ جائے گا، اسے غیر قانونی مہاجر قرار دے دیا جائے گا۔ آسام میں این آر سی کا نفاذ ہوا تھا اور 3 کروڑ افراد کے لئے 50 ہزار ملازمین نے 6 سال تک لگاتار محنت کرکے اسے تیار کیا۔ اس کے لئے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے یہ بتایا گیا تھا کہ کون کون سی دستاویزات کی انہیں ضرورت ہے۔ آسام میں این آر سی کا اعلان ہونے کی دیر تھی کہ ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ہر کوئی اپنے ضلع صدر دفتر کی طرف اور باہر کام کرنے والے اپنے آبائی شہروں کی طرف بھاگنے لگا۔ اپنی دستاویزات حاصل کرنے کے لئے لوگ روزانہ قطاروں میں لگنے لگے۔

ایک اندازے کے مطابق آسام کے شہریوں نے اپنی دستاویزات تیار کرانے میں تقریباً 8 ہزار کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ آخرکار چھ سال کے بعد این آر سی جاری ہوا اور اس کے ساتھ ہی وہ سوالوں کے گھیرے میں آگیا۔ لاکھوں معاملات ایسے ہیں، جن میں خاندان کے ایک یا دو فرد این آر سی سے باہر کر دیئے گئے۔ تمام دستاویزات میں یکساں نام نہ ہونے کی وجہ سے بھی این آر سی سے نام باہر ہوگئے۔ سابق فوجی ثناء اللہ کا معاملہ عالمی سطح پر سرخیوں میں چھایا رہا کہ ہندوستانی فوج میں اپنی خدمات انجام دے چکے سابق فوجی کی شہریت کو ہی ختم کر دیا گیا۔ آسام این آر سی سے تقریباً 19 لاکھ لوگ باہر ہوئے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں 12 سے 13 لاکھ ہندو ہیں اور محض 5 لاکھ مسلمان ہیں۔ انہیں بھی ابھی اپیل کرنے کا موقع دیا گیا ہے اور اب سالوں تک پھر سے دستاویزات لانے اور جمع کرنے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

یہ بات حقیقت ہے کہ این آر سی کو بی جے پی نہیں بلکہ کانگریس کے زمانہ میں لایا گیا تھا، لیکن بی جے پی نے دراندازوں کے مسئلہ کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنایا اور اسے اس کا فائدہ بھی ملا۔ جب 12 لاکھ ہندو این آر سی سے باہر ہوگئے تو بی جے پی کو شدید جھٹکا لگا اور اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ اس کے ووٹر اس سے ناراض ہو جائیں گے تو بی جے پی نے ایک چال چلی اور یہ کہنا شروع کیا کہ دراندازوں کا مسئلہ صرف آسام کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کا ہے اور ہم پورے ملک میں این آر سی کو لاگو کریں گے، لیکن اس سے پہلے شہریت ترمیمی بل لے کر آئیں گے۔ بس یہیں سے شہریت کے معاملہ میں بی جے پی کی مسلم مخالف سیاست کھل کر سامنے آئی۔ دراصل کاغذات بنوانے کے لئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور غریب کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔

قبائلی اور زمین سے محروم افراد کے پاس وہ کاغذات ہی نہیں ہوتے کہ وہ اپنی مستقل رہائش کو ثابت کرسکیں۔ دلتوں کے ایک بڑے طبقہ کا بھی حال ایسا ہی ہے۔ رہی بات خواتین کی تو ان کا مسئلہ تو اور بھی پیچیدہ ہے۔ ہمارے ملک میں خاتون کی شناخت کسی کی بیٹی یا پھر کسی کی بیوی کے طور پر ہوتی ہے۔ یعنی شادی کرکے جب وہ اپنے شوہر کے گھر چلی جاتی ہے تو اس کی شناخت کے تمام تر کاغذات ختم ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں لوگ پچاس پچاس سال پرانے کاغذات بھلا کہاں سے لے کر آئیں گے۔ این آر سی میں ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں ہر ایک شخص کو اپنی شہریت ثابت کرنی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس عمل میں وقت بھی بہت زیادہ لگتا ہے، لوگوں میں خوف کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے اور دولت خرچ ہوتی ہے سو الگ۔ این آر سی خاتون، زمین سے محروم افراد، قبائلی، دلت، ناخواندہ اور غریب مخالف کیوں ہے، یہ بھی سمجھ لیتے ہیں۔

بھارت بڑے نوٹوں کی منسوخی کے وقت جس طرح کے حالات سے دوچار ہو چکا ہے، ویسے ہی حالات این آر سی کے بعد بھی پیدا ہوں گے اور اس کی زد میں کسی ایک مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں آئیں گے، بلکہ ملک کا ہر شخص اس سے متاثر ہوگا۔ لوگوں کو حکومت سے یہ کہنا ہوگا کہ اگر آپ کو اس ملک سے دراندازوں کو باہر نکالنا ہے تو انہیں تلاش کرو اور نکال دو۔ ہر ایک شخص کی شہریت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ بڑے نوٹوں کو منسوخ کرتے وقت بھی حکومت نے کہا تھا کہ اس سے کالا دھن ختم ہو جائے گا لیکن ہوا کچھ اور ہی۔ ہوا یہ کہ بڑے نوٹوں کی منسوخی سے وہ پیسہ حکومت کے پاس پہنچا، جو لوگوں نے کمایا تو جائز طریقہ سے تھا لیکن اس کا کہیں ریکارڈ نہیں تھا۔ نتیجہ یہ کہ حکومت کے اس حملے سے نہ تو کالا دھن حاصل ہوا اور نہ ہی امیروں کو کوئی نقصان ہوا، بس غیر منظم شعبہ پوری طرح تباہ ہوگیا اور غریبوں پر اس کی زبردست مار پڑی۔

خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ اس قانون کے نفاذ کی صورت میں پیدا ہونے والے خطرہ کو ملک کی نوجوان نسل اور خاص طور پر طلباء نے محسوس کر لیا ہے اور اب وہ اس کے خلاف سڑکوں پر ہیں، پچھلے دو ہفتوں سے اس سیاہ قانون کے خلاف بھارت بھر میں احتجاج ہو رہا ہے اور اب اس احتجاج میں زیادہ شدت آگئی ہے، اس سے مودی حکومت تقریباً بوکھلا سی گئی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ پولس کی وحشیانہ کارروائی نے پورے ملک کے طلباء میں اشتعال بھر دیا ہے، اہم بات یہ ہے کہ آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں بھی اس قانون کو لے کر مسلسل احتجاج ہو رہا ہے، پورے ملک میں ایمرجنسی سے بدتر حالات ہیں، حکومت اس بڑی تحریک کو طاقت کے زور سے کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے، وہاں پولیس اپنی درندگی اور بربریت کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، اب تک دو درجن سے زائد لوگ تشدد اور پولیس کارروائی کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حکومت اس کا الزام اپوزیشن پر عائد کر رہی ہے جبکہ سچائی یہ ہے کہ یہ تحریک از خود شروع نہیں ہوئی ہے، اس کی نہ تو کوئی قیادت کر رہا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے کسی سیاسی پارٹی کا ہاتھ ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ پرامن مظاہرین کو پہلے طاقت کا استعمال کرکے پولیس اکساتی ہے، پھر انہیں اپنے جبر و استبداد کا نشانہ بناتی ہے، لیکن اس سب کے باوجود دن بدن تحریک کا دائرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عالمی میڈیا میں ان مظاہروں کے حوالہ سے جو کچھ آرہا ہے، اس سے عدم تشدد کے علمبردار ہندوستان کا عکس بری طرح مجروح ہو رہا ہے، لیکن اقتدار پر قابض بھارتی حکمرانوں کو اس سے کیا، انہیں تو وہی کرنا ہے، جس کے لئے وہ اقتدار میں آئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 838541
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش