0
Sunday 19 Jan 2020 20:09
کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کی پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019ء جاری

2019ء میں میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل و سنسرشپ کے مسائل کا سامنا رہا، رپورٹ

2019ء میں میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل و سنسرشپ کے مسائل کا سامنا رہا، رپورٹ
ترتیب و تدوین: ایس حیدر

کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز نے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019ء جاری کر دی۔ سی پی این ای کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو سخت خطرات کا سامنا ہے۔ 2019ء میں پاکستانی میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ کے مسائل کا سامنا رہا۔ صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ملک بھر میں سات صحافیوں کو قتل اور 15 سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ قتل ہونے والے صحافیوں میں عروج اقبال، مرزا وسیم بیگ، محمد بلال خان، علی شیر راجپر اور ملک امان اللہ خان شامل تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی دفعات کی تحت 35 مقدمات میں 60 سے زائد صحافیوں کو نامزد کیا گیا۔ تحریری مواد رکھنے کے الزام میں ایک صحافی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ بظاہر نامعلوم عناصر اور غیر ریاستی عوامل کی جانب سے بھی صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد معلومات تک رسائی کا صوبائی قانون بنانے میں خیبر پختونخوا پہلے نمبر پر رہا۔ وفاق، پنجاب اور سندھ نے خیبر پختونخوا کے بعد معلومات تک رسائی کا قانون بنایا۔ بلوچستان میں معلومات تک عام شہریوں کی رسائی 2019ء میں بھی ایک خواب ہی رہی۔ سائبر قوانین کو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کیلئے کسی نہ کسی بہانے سے سال 2019ء میں بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ سی پی این ای نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے میڈیا کے گرد شکنجے کو مزید سخت کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ خصوصی میڈیا ٹریبونلز بنانے کا بھی اعلان کیا گیا، سی پی این ای اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت پر واپس لیا گیا۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب ترین کارکردگی والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142واں ہے۔ پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کو بے تحاشا نوٹسز بھیجے، اینکرز پر غیر قانونی پابندیاں لگائیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ ٹاک شوز میں زیر بحث نہ لانے کا حکم دیا گیا۔ نیوز چینلز کو احکامات صادر کئے گئے کہ نواز لیگ کی رہنما مریم نواز کی پریس کانفرنس کو براہ راست کوریج نہ دی جائے۔ خلاف ورزی کے نام پر 21 ٹی وی چینلز کو نوٹس بھی جاری کیے گئے۔ جیو ٹی وی میں سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے انٹرویو پر مبنی براہ راست نشریات کو شروع ہونے کے فوراً بعد بند کرا دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان کی کوریج کرنے پر جیو نیوز، 24 نیوز، ابتک، کیپٹل اور ڈان نیوز کی نشریات کو بند کیا گیا۔ وزیراعظم کی شکایت پر چینل 24 نیوز کو نوٹس جاری کرکے 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کم ازکم 60 صحافیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی اور دیگر ایسے قوانین کے تحت 35 مقدمات درج کیے گئے۔ مقدمات کا سامنا کرنے والے 50 سے زیادہ صحافیوں کا تعلق صرف صوبہ سندھ سے تھا۔

صدر سی پی این ای عارف نظامی نے سفارشات مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کی حفاظت کیلئے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی قوانین نافذ کیے جائیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی پراسیکیوٹرز تعینات کیے جائیں۔ میڈیا ہاؤسز اور صحافتی تنظیمیں اپنا ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل کریں۔ میڈیا ہاؤسز کی سطح پر سیفٹی پالیسی، سیفٹی پروٹوکول اور سالانہ سیفٹی آڈٹ کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے۔ عارف نظامی نے مزید کہا کہ سیفٹی آڈٹ سے صحافیوں اور دیگر عملے کو ممکنہ خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا کر روک تھام کی جا سکے گی۔ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 11، 20 اور 37 کو ختم اور شق 9 اور 10 میں موجود ابہام دور کیا جائے، تاکہ صحافی اس کا نشانہ نہ بن سکیں۔ صحافیوں کے خلاف انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت درج مقدمات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔
خبر کا کوڈ : 839447
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش