0
Friday 24 Jan 2020 02:58

آٹے کی قلت، بحران کی وجہ حکومت کی بے خبری یا پھر کوئی سازش؟

آٹے کی قلت، بحران کی وجہ حکومت کی بے خبری یا پھر کوئی سازش؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

انسان کی ساری محنت، کام، روزگار دو وقت کی روٹی کے لئے ہوتی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں ہر انسان پریشانی کا شکار ہے۔ ادویہ، کھانے پینے کا سامان، تعلیم سب کچھ مہنگا ہوچکا ہے۔ انسان ان تمام ضروریات پر پھر بھی گزارا کرسکتا ہے لیکن روٹی ایک ایسی چیز ہے، جس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا۔ ملک میں ہر پانچ سال بعد ووٹ کے ذریعے ایسے حکمرانوں کے چناؤ کی کوشش کی جاتی ہے، جو ان کے لئے مسیحا بن سکیں اور ملک کے اداروں سمیت ملکی مسائل کی مدیریت کرکے عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرسکیں۔ ملک میں ایک عرصے تک مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی رہی۔ پھر 2018ء کے انتخابات میں عوام نے تبدیلی کے نعرے پر یقین کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ عمران خان وزیراعظم بنے اور عوام کی امیدیں تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ ہوگئیں کہ روزگار دینے، مہنگائی کے خاتمے اور بے گھروں کو گھر دینے کا وعدہ پورا کیا جائے گا، لیکن ڈیڑھ سال کے عرصے میں روزگار اور بے گھر لوگوں کا وعدہ تو کجا مہنگائی کا اس قدر بوجھ بڑھا دیا گیا کہ غریب گھرانے کا گزر بسر مشکل ہوگیا ہے، رہی سہی کسر حالیہ آٹا بحران نے پوری کر دی ہے۔

اس ساری صورتحال میں حکومت کی بے خبری اور نااہلی نظر آرہی ہے، آٹے کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران اب کا نہیں، یہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا اور اس حوالے سے نان بائیوں اور آٹا ڈیلرز کی جانب سے کئی بار اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ آٹے کے بڑھتے نرخ بحران کا باعث بن رہے ہیں۔ جب پنجاب کی جانب سے آٹے کی ترسیل بند کر دی گئی اور آٹے کے نرخ تیزی سے بڑھنے لگے تو حکومت کو ہوش آیا اور نان بائیوں کی جانب سے ہڑتال کی دھمکی پر وزیراعظم اور پنجاب حکومت سے رابطہ کیا گیا۔ شہریوں کو تحریک انصاف کے وزراء کے بیانات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک جانب کہا جا رہا ہے کہ آٹے کا کوئی بحران نہیں، اگر بحران نہیں تو سرکار کی جانب سے آٹا ٹرکوں میں کیوں فراہم کیا جا رہا ہے؟ لائنوں میں کھڑے ہوکر عوام آٹا لینے پر کیوں مجبور ہیں؟ حکومت اس بحران کو سازش بھی قرار دے رہی ہے، اگر واقعی سازش ہے تو حکومت کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیئے، حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہیئے، جو اس سازش کے پیچھے ان عناصر کو بے نقاب کرے۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس ساری صورتحال سے عوام کو آگاہ کرے اور لگ ایسا بھی رہا ہے کہ وزیراعظم کو تمام معاملات کی سب اچھے کی رپورٹ دی جا رہی ہے، لیکن صورتحال حقیقتاً کچھ الگ ہے۔ اس ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں شہری حکومتی پالیسیوں سے نالاں ہوچکے ہیں۔

سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا نے ملک میں جاری آٹا بحران اور ہوشربا مہنگائی کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ پوری زندگی میں اتنی مہنگائی نہیں دیکھی، اس حکومت نے ناقص منصوبہ بندی اور نا اہلی کی انتہا کر دی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ سب سے پہلے تو یہ سوال بنتا ہے کہ گندم کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا، کسان سے پرانی قیمت میں گندم خریدی گئی مگر آٹا مہنگا ہے، آخر آٹا کیوں اور کس نے مہنگا کیا۔ بحران کی وضاحت کرتے ہوئے حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت نے پہلے دعویٰ کیا کہ گندم کی پیداوار 2 کروڑ 55 لاکھ ٹن ہے، مگر بعد میں پتہ چلا کہ اصل پیدوار 2 کروڑ 40 لاکھ ٹن ہے۔ یعنی 15 لاکھ ٹن کمی واقع ہوئی، اب یہ واضح نہیں کہ 15 لاکھ ٹن کیوں کم ہوگئے۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ 2018ء کے اپریل میں پاکستان کے گندم کا ذخیرہ 6 ملین ٹن تھا، جبکہ اپریل 2019ء میں گندم کا ذخیرہ بھی 4 ملین ٹن پر آگیا۔ اسی وقت حکومت کو سمجھنا چاہیئے تھا کہ گندم کے ممکنہ بحران کا پہلے سے تدارک کیا جائے، مگر حکومت نے منصوبہ بندی کے بجائے الٹا گندم کی خریداری بھی کم کر دی۔

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ اس تمام صورتحال کے باجود حکومت نے گذشتہ سال گندم ایکسپورٹ کرنے کی اجازت بھی دے دی، جس کے تحت اب تک 6 لاکھ 50 ہزار ٹن گندم دوسرے ممالک کو فروخت کی۔ آٹے کی قیمت میں اضافے پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو گندم پاکستان امپورٹ کرتا ہے، اس کی قیمت 10 فیصد زیادہ ہے، مگر اسی گندم کا آٹا عام شہری کو 42 فیصد اضافی قیمت پر ملتا ہے۔ حفیظ پاشا نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پوری زندگی میں اتنی مہنگائی اور حکومت کی ناقص منصوبہ بندی نہیں دیکھی، یہ اوپر سے نیچے تک تمام اداروں کی ناکامی، غفلت اور منصوبہ بندی کے فقدان کی عکاسی ہے۔ عام آدمی پر اس کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک برس میں 80 لاکھ لوگ خط غریب سے نیچے چلے گئے جبکہ ملکی آبادی کا 40 فیصد اس وقت خط غربت پر تیر رہا ہے اور یہ پالیسی جاری رہی تو اگلے برس یہ لوگ بھی غربت کی لکیر سے نچے چلے جائیں گے، کیونکہ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ اس وقت عام آدمی کی 70 فیصد آمدنی صرف کھانے پینے پر خرچ ہوتی ہے۔

آخر میں میزبان نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ حکومت اور مسلم لیگ نون کی حکومت میں معاشی پالیسیز میں بہتر کون سی ہے، جس پر حفیظ پاشا نے کہا کہ اسحاق ڈار نے روپے کی قدر کو مصنوعی سہارا دے کر برقرار رکھا، جس کے باعث بعض مسائل پیدا ہوئے، مگر اس کے اثرات عام آدمی پر نہیں پڑے، مہنگائی نہیں تھی اور ملکی معیشت سالانہ 5 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہی تھی۔ موجودہ حکومت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اقتدار میں آتے ہی آئی ایم ایف کی شرائط پر بڑے اقدامات اٹھائے، سات سو ارب کے نئے ٹیکسز لگائے، روپیہ کی قدر گرائی، بجلی، گیس، پیٹرول اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا، جس سے عام آدمی شدید مشکلات کا شکار ہے، ترقیاتی بجٹ کم کیا، جس کے باعث معاشی ترقی رک گئی۔
خبر کا کوڈ : 839803
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش