0
Tuesday 21 Jan 2020 16:38

شہید سردار قاسم سلیمانی سے وابستگی اور مردہ باد امریکہ احتجاجی مظاہرے(1)

شہید سردار قاسم سلیمانی سے وابستگی اور مردہ باد امریکہ احتجاجی مظاہرے(1)
تحریر: آئی اے خان

بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کی شہادت پہ پاکستان میں احتجاج کیوں۔؟ پوچھ رہے ہیں کہ امریکن ایمبیسی کی جانب مارچ کیوں۔؟ نیز یہ کہ حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کیوں کہ وہ امریکہ کے سامنے ایران کی حمایت میں کھڑی ہو۔ اس کے علاوہ ناقدین امریکہ کیخلاف بات کو، احتجاج کو ملکی مفاد کے منافی قرار دینے پہ کمربستہ ہیں۔ اول تو یہ کہ ہمیں شہید قاسم سلیمانی کی شہادت پہ غم سے زیادہ فخر ہے، وہ جس کی جستجو میں تھے، وہ اپنی منزل پا گئے۔ ان کیلئے شہادت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ہمار ے لیے وہ رہنماء ہیں، ان کے نقش پہ چلنے ولے افراد جس راہ کے مسافر ہیں، ان کی منزل شہادت سے بڑھ کر کوئی اور شے نہیں ہے۔ شہید قائد فرمایا کرتے تھے کہ شہادت ہماری میراث ہے۔ چنانچہ ان شہادتوں سے، کفر و باطل و جہالت کے ان زبانی، عملی اور بارودی و یہودی حملوں سے میدان عمل میں موجود یہ لوگ نہ پہلے کبھی گھبرائے، نہ آج اور نہ آئندہ گھبرائیں گے۔ البتہ یہ حملے  عالمی سامراج کی گھبراہٹ کی عکاسی ضرور کرتے ہیں۔

میدان عمل میں موجود ان افراد کی کامیابی اور دشمن کی شکست کی دلیل ہی یہی ہے کہ دشمن ان کے وجود سے اتنا خوفزدہ ہے کہ انہیں اپنے پوشیدہ، بزدلانہ حملوں میں نشانہ بناتا ہے اور یہ صرف بغداد کے ائیرپورٹ کے قریب قاسم سلیمانی کی صورت میں نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں ان افراد پہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان میں پارا چنار سے لیکر تفتان تک اور کراچی سے لیکر وزیرستان تک ہر جگہ شہید سردار قاسم سلیمانی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے، ان کی فکر سے متصل افراد کا لہو بکھرا پڑا ہے۔ وطن عزیز کا گوشہ گوشہ ان شہداء کے لہو کا مقروض ہے۔ سوال یہ کہ اپنے ان بزدلانہ، دہشتگردانہ حملوں سے کیا وہ مقاومت کے نظریئے کو شکست دے پایا ہے تو اس کا جواب شدید نفی میں ہے۔ کیا اس نظریئے کو محدود کر پایا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ کیا دشمن مردہ باد امریکہ، مردہ باد اسرائیل کی گونج کو کم کر پایا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

اس کی ایک دلیل گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں برآمد ہونے والی مردہ باد امریکہ ریلی بھی ہے کہ جس میں چار سال کے بچے سے لیکر پچاسی سالہ بزرگ تک اور ماؤں کی گود میں موجود بچوں سے لیکر ضعیف مستورات تک شریک تھیں۔ اس ریلی کے شرکاء بظاہر نہتے تھے مگر فکری اور نظریاتی عنوان سے مسلح تھے۔ اس ریلی کے شرکاء وقت کے طاغوت کے سامنے قیام کرنے کے حوصلے سے بہرہ مند تھے۔ وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے مرعوب کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ واللہ، ایسے اجتماعات عظیم کے شرکاء کے وصیت نامے تک دولت، جائیدادوں سے متعلق ہونے سے زیادہ اس بات سے متعلق ہوتے ہیں کہ کونسی امام بارگاہ کی زیارت نصیب ہو۔ ان کے نزدیک قابل رشک ہیں شہید قاسم سلیمانی کہ ان کے جسد اطہر کو کتنے معصومین (ع) کی زیارت نصیب ہوئی۔ جس قوم قبیلے کے رشک کیلئے یہی کافی ہو کہ ان کے جسد خاکی کو معصومین (ع) کی ضریح اقدس کی زیارت نصیب ہو۔ ان افراد کیلئے ان ضریح مقدس کی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا کتنا بڑا اعزاز ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل ہے۔

معصومین (ع) کے حرم کا دفاع وہ شرف قبولیت ہے کہ جس کی دعا ''لبیک یاحسین (ع)'' کے نعرے کی صورت پورے کرہ ارض پہ گونج رہی ہے۔ امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ شہید سردار قاسم سلیمانی سے عوام کی وابستگی قومی، سیاسی، لسانی یا ثقافتی نہیں بلکہ قلبی وابستگی ہے، جو کہ عقیدے کی حد تک مقدس ہے۔ گرچہ اس وابستگی کی پیمائش کا کوئی پیمانہ تو نہیں، مگر یہاں سے اندازہ لگا لیں کہ زائر معصومین (ع) کا مرتبہ اتنا ہے کہ بڑے بڑے علماء حق، جرنیل، سیاستدان، امراء ان زائرین کے خاک آلود جوتوں کو صاف کرنا سعادت سمجھتے ہیں۔ جہاں زائر کا اتنا بلند مقام ہو، وہاں ''مدافع حرم'' (ضریح مقدس کا دفاع کرنے والا سپاہی) کا کتنا عظیم و بلند مرتبہ ہوگا۔؟ پھر ان سپاہیوں میں سے جو شہید ہو جائیں، ان کے مرتبے کی بلندی کا کون اندازہ کرے۔ شہید سردار قاسم سلیمانی تو ان تمام مدافع حرم کے سالار تھے تو پیروان محمد و آل محمد (ع) کی شہید سردار قاسم سلیمانی سے قلبی وابستگی اتنی مقدس اور اٹوٹ ہے کہ امریکہ اور اس کے زیر اثر قوتیں اپنی تمام تر پروپیگنڈا مشینری اور وسائل کو بروئے کار لا کر بھی اس وابستگی میں دراڑ نہیں ڈال سکتے۔

گذشتہ رات عراق میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک پھر راکٹ گرے ہیں۔ یقینی طور پر کسی مقاومتی گروہ نے اپنے متحرک وجود اور سردار قاسم سلیمانی سے اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف امریکی تجزیہ کاروں اور عوام کی جانب سے سردار قاسم سلیمانی کے قتل کے ردعمل کو لیکر ڈونلڈ ٹرمپ کو شدید دباؤ کو سامنا ہے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ایک طرف دنیا بھر میں امریکی سفارتی اور فوجی مشنز پہ محدود حملوں کا سلسلہ بڑھے گا اور ان حملوں کو لیکر امریکی صدر پہ عوامی دباؤ میں بتدریج اضافہ ہوگا، ہونا بھی چاہیئے۔ عرب ٹی وی کے تجزیہ کار کے مطابق امریکی حملے میں کسی مسجد، مدرسے کا مولوی نشانہ نہیں بنا کہ امریکہ کے خلاف ردعمل صرف بددعا تک محدود رہے گا۔ نہ ہی اس حملے میں فقط کوئی سیاسی یا عسکری شخصیت نشانہ بنی کہ ردعمل مروجہ عالمی قوانین کی صورت میں ہی برآمد ہو۔ قاسم سلیمانی کئی تحریکوں اور دفاعی ملیشیاؤں کی آئیڈیل شخصیت تھے۔ ان پہ حملے کا ردعمل بھی مختلف مقامات پہ مختلف ہی ہوگا اور کئی مقامات پہ شائد ایران کی حکومت بھی اس ردعمل کو روکنے پہ قادر نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 839804
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش