0
Thursday 23 Jan 2020 12:29

سعودی ولی عہد کا نیا تنازعہ

سعودی ولی عہد کا نیا تنازعہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

انسانی تاریخ شہزادوں کی من مانیوں سے بھری پڑی ہے۔ شاید شہزادوں کی سرشت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ خود کو دیگر انسانوں سے ماوراء کوئی اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہیں۔ افسانوی کرداروں سے لے کر حقیقی کرداروں تک، بادشاہ اور شہزادے اختلاف رائے کو برداشت نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ خوشامد کے لباس کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مگر اکیسویں صدی ہے اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا سمٹ کر ایک موبائل فون میں سما چکی ہے۔ اسی لیے دنیا کا نیا نام "گلوبل ویلج " بھی ہے۔ اس گلوبل ویلج میں اب کسی کی نمبرداری یا چوھدراہٹ ایسے نہیں چلنے والی، بلکہ وہ ہی کامیاب ملک اور وہ ہی کامیاب حکمران ہوگا جس کی معیشت، ٹیکنالوجی اور عسکری و معاشی قوت دیگر ملکوں سے برتر ہوگی۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی ملک یا اس کا شہزادہ سازش کرکے دنیا کے امیر ترین اور با اثر شخص کو بلیک میل کر لے یا اس پر دبائو ڈال سکے، وہ بھی اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے جو انہی ممالک کی ایجاد کردہ ہے۔ ایمازون دنیا کی بڑی کمپنی ہے اور اس کے مالک جیف بیزوس کے ساتھ ان دنوں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کا تنازعہ چل رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا مطالبہ ہے کہ سعودی شہزادے سے تفتیش ہونی چاہیئے۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گذشتہ برس بھی سعودی شہزادہ محمد بن سلیمان خبروں کی زینت بنے تھے، جب ترکی میں سعودی سفارت خانے میں داخل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جمال خاشقجی استنبول میں سعودی عرب کے سفارت خانے میں داخل ہوئے اور پھر انہیں کسی نے بھی باہر نکلتے نہیں دیکھا، بلکہ ان کے قتل کو پہلے چھپانے کی کوشش کی گئی اور بعد ازاں ان کے قتل کا اعتراف کر لیا گیا۔ عالمی برادری کے دبائو پر سعودی حکومت نے چند افراد پر مقدمہ چلایا اور پھر چند ماہ قبل کچھ افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی اور باقیوں کو "عدم ثبوت" کی بنا پر بری کر دیا گیا۔ اگرچہ جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی برادری کے دبائو کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب نے "ملزمان" کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا اور ان میں سے ایک دو کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی، لیکن عالمی براداری اس حوالے سے مطمئن نہیں ہے۔ عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ سعودی باشندے جمال خاشقجی، جو کہ امریکی اخبار کے ساتھ منسلک تھے اور سعودی شاہی خاندان کے بڑے ناقد تصور کیے جاتے تھے، ان کے قتل کے احکامات براہ راست سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے ہی دیئے تھے۔ عالمی برادری کا یہ بھی کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی تفتیش اصل میں سعودی شہزادے محمد بن سلیمان سے ہونی چاہیئے۔

ابھی اس حوالے سے گرد بیٹھی نہیں تھی کہ نیا تنازع سامنے آگیا ہے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق "اقوام متحدہ سے منسلک انسانی حقوق کے ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس کا فون ہیک ہونے کے معاملے میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر لگنے والے الزامات کی فوری تفتیش ہونی چاہیئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان سے یہ بھی پوچھا جانا چاہیئے کہ وہ مسلسل ذاتی سطح پر ان لوگوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کیوں کرتے رہے، جنہیں وہ اپنا دشمن گردانتے تھے۔ بی بی سی اردو کے مطابق محمد بن سلمان کے زیر استعمال فون نمبر سے بھیجے گئے ایک پیغام کے ذریعے بیزوس کے فون میں موجود ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی تھی، جبکہ امریکہ میں سعودی سفارتخانے سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ فون ہیک کرنے کی خبریں "نامعقول" ہیں اور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیں۔ تاہم ذاتی حیثیت میں اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیزوس کے فون ہیکنگ کے معاملے میں سعودی ولی عہد کے ممکنہ کردار کی بہرحال تفتیش ضروری ہے۔ اقوام متحدہ سے منسلک جن ماہرین نے یہ مطالبہ کیا ہے، ان میں اینگس کیلامارڈ اور ڈیوڈ کائے شامل ہیں، جو بالترتیب سزائے موت و ماورائے عدالت قتل اور آزادی اظہار کے معاملات میں اقوام متحدہ کی معاونت کرتے ہیں۔"

ایک بیان میں اینگس کیلامارڈ اور مسٹر کائے کا کہنا تھا کہ "جو معلومات ہمیں ملی ہیں، وہ مسٹر بیزوس کی نگرانی کرنے میں ولی عہد کے ملوث ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں، تاکہ سعودی عرب کے بارے میں اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹنگ کو اگر مکمل طور پر بند نہیں بھی کرایا جا سکے تو کم از کم اِس پر اثر ڈالا جا سکے۔ ماہرین اِس کیس کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے بھی جوڑتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن پوسٹ کے رپورٹر خاشقجی اور مسٹر بیزوس کے فون ایک ہی وقت میں ہیک کیے گئے۔ ماہرین کے مطابق مسٹر بیزوس اور ایمازون کے خلاف بڑے پیمانے پر ایک "خفیہ آن لائن مہم چلائی گئی، جس میں مسٹر بیزوس کو واشنگٹن پوسٹ کے مالک کے طور پر نشانہ بنایا گیا۔ بیان میں جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ ویئر یعنی سپائی ویئر کی بلا روک ٹوک، مارکٹنگ اور فروخت پر "سخت کنٹرول" کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ عالمی میڈیا پر اس حوالے سے جو خبریں نشر ہو رہی ہیں، ان کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2019ء میں مسٹر بیزوس کے آئی فون کے فورنزک معائنے سے بڑی حد تک یہ سامنے آیا ہے کہ ایک ایم پی 4 ویڈیو فائل کے ذریعے یکم مئی 2018ء کو اُن کا فون ہیک کیا گیا تھا۔

یہ ویڈیو فائل جس واٹس ایپ اکاؤنٹ سے بھیجی گئی تھی، وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ذاتی استعمال میں تھا۔ ولی عہد محمد بن سلمان اور مسٹر بیزوس نے ایک مہینے پہلے ہی ایک دوسرے کو اپنے فون نمبر دیئے تھے۔ ایم پی 4 ویڈیو فائل کے آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مسٹر بیزوس کے فون سے بڑے پیمانے پر ڈیٹا منتقل ہونا شروع ہوگیا۔ مسٹر بیزوس کے فون کا فورنزک معائنہ کرنے والے ماہرین کے مطابق محمد بن سلمان نے اس کے بعد مسٹر بیزوس کو واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے، جس میں مبینہ طور پر انھوں نے مسٹر بیزوس کی ذاتی زندگی سے متعلق ایسی معلومات پر بات کی جو خفیہ تھیں۔ اس کے بعد جیف بیزوس کی ذاتی معلومات امریکی ٹیبلائڈ اخبار دی نیشنل انکوائرر کو لیک کی گئیں۔ یہ بات یاد رہے کہ ایمازون کے علاوہ مسٹر بیزوس امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مالک بھی ہیں، جس کے لیے جمال خاشقجی کام کرتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین کے اس مطالبے سے قبل سعودی عرب نے اس خبر کی تردید کر دی تھی کہ جیف بیزوس کا فون ہیک کرنے کی ذمہ داری سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر عائد کی گئی ہے۔

اب جبکہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے زوردار مطالبہ کیا ہے تو امید ہے اس حوالے سے تحقیقات ہوں گی، لیکن کیا ان تحقیقات سے سعودی عرب اور امریکی تعلقات میں کوئی تنائو آئے گا؟ یا ان میں سرد مہری در آئے گی؟ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ سعودی ولی عہد کا کچھ عرصہ واشنگٹن پوسٹ میڈیا ٹرائل کرے گا، سعودی ولی عہد سے واشنگٹن پوسٹ کا مالک جرمانے کا دعویٰ دائر کرے گا اور ایک بڑی رقم لے کر یہ معاملہ ممکن ہے "حل" کر دیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شہزادے کا منصب اسے زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے ذاتی فون سے کسی دوسرے ملک کے شہری، یا کسی بھی شخص کا ڈیٹا ہیک کرتا پھرے؟ اگر واشنگٹن پوسٹ کے مالک کا ڈیٹا حاصل کرنا بہت ہی ضروری تھا تو سعودی شہزادہ یہ کام اپنے انٹیلی جنس اداروں کے ذمہ لگاتا۔ رسوائی کو دعوت دینے کی عادت، شہزادے سمیت آلِ سعود پر لگے بدنما داغوں میں سے ایک اور داغ کا اضافہ ہی کرے گی۔ اے کاش یہ لوگ عقل و خرد سے کام لیں، انھوں نے دنیا کو بھی اپنی ذاتی جاگیر سمجھا ہوا ہے اور دنیا کے ہر شہری کو بھی ایشیائی ریاستوں کے وہ مزدور سمجھ لیا ہے، جنھیں یہ اپنا ذاتی غلام سمجھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 840220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش