0
Sunday 26 Jan 2020 15:07

عراق میں امریکہ مخالف مظاہرے

عراق میں امریکہ مخالف مظاہرے
تحریر: طاہر یاسین طاہر

دنیا نئے سیاسی و عسکری مظاہر دیکھ رہی ہے۔ کیا عراق سے امریکی فوج نکل جائے گی؟ کیا افغانستان سے امریکی چلے جائیں گے؟ کیا یہ سب ایک معاہدے کے تحت ہوگا یا امریکی شکست خوردگی کا زخم لے کر عراق و افغانستان سے جائیں گے؟ کیا عراق میں موجود خطے کے امریکی اتحادی عراق سے امریکی فوج کے انخلا کو "روکنے" کا کوئی جواز تلاش کر رہے ہوں گے؟ اگر امریکی عراق سے چلے بھی جاتے ہیں تو کیا جانے سے پہلے عراق کو کوئی جغرافیائی نقصان پہنچائیں گے؟ سماج کو کوئی نیا زخم لگائیں گے یا یونہی "ہنسی خوشی" اللہ حافظ کہہ کر چلتے بنیں گے؟ یقیناً یہ سوالات بے جا نہیں۔ ایک اخبار نویس، جو بہ ظاہر حالات حاضرہ پر قلم کاری کرتا ہے، اس کے ذہن میں دفاعی و سیاسی نوعیت کے سوالات جنم لے سکتے ہیں تو یقیناً، جو دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں، وہ ضرور اس حوالے سے سوچتے بھی ہوں گے اور متبادل راستے بھی تلاش کرچکے ہوں گے۔ تعصب اور جانبداری، واقعاتی رپورٹنگ اور درست تجزیہ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

عراق میں عالمی سامراجی طاقتوں کے مفادات ہیں، افغانستان میں بھی اور خطے کے دیگر ممالک میں بھی۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ ہمیں بغداد کی تاریخی، سماجی، تہذیبی، علمی، سیاسی اور مذہبی حیثیت سے آگاہ کرتی ہے اور اس شہر کے عروج و زوال کے اسباب بھی بتاتی ہے۔ عروج کم اور زوال زیادہ، یہی اس شہر کا مقدر رہا، مگر دنیا بغداد کی تہذیبی و علمی حصہ داری کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔ عالمی میڈیا کی نگاہیں ایک بار پھر عراق اور بغداد پر مرکوز ہیں۔ کیا ہونے والا ہے؟ اس کے اسباب و نتائج پر غور کیا جا رہا ہے۔ جمعہ کو البتہ عراقی پوری طرح بیدار نظر آئے۔ ایک طرف حکومت مخالف مظاہرے کئی ماہ سے شروع ہیں تو دوسری جانب امریکی فوج کے انخلا کے خلاف ہونے والا مظاہرہ بہت دیدنی تھا۔ امریکہ مخالف اس مظاہرے کے اسباب اسی ماہ کے اوائل میں ایک امریکی ڈرون حملہ اور اس حملے کے نتیجے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی ملیشیا حشد الشعبی کے کمانڈر ابو مہدی المندس کی شہادت ہے۔

امریکہ نے بغداد ایئر پورٹ پر کیے گئے اس حملے کے جواز میں یہ کہا تھا کہ اس نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس لیے نشانہ بنایا کہ ایرانی جنرل خطے میں امریکہ مخالف مظاہروں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اپنے دعوے کےحق میں امریکہ نے یہ دلیل دی تھی کہ گذشتہ برس دسمبر میں امریکی سفارت خانے کی طرف مظاہرین کو لانے اور اس پر دھاوا بولنے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کا ہاتھ تھا۔ لیکن ابلاغ کے آزاد عالمی ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ایران نواز ملیشیاء کتائب حزب اللہ جو کہ دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف لڑ رہی ہے، کے ہیڈ کوارٹر پر میزائل داغے تھے، جس کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد شہید ہوگئے تھے، جن کی نماز جنازہ  ادا کرنے کے بعد عراقی عوام اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور انہوں نے امریکی سفارت خانے کا رخ کیا۔ ایسا رخ کہ جس میں غصہ اور تشدد یکجا تھا۔

یہ امر واقعی ہے کہ عراقی پارلیمنٹ نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق سے امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کیا تھا، جو امریکی صدر کو بہت ناگوار گزرا اور امریکی صدر نے عراق پر پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ امریکا نے عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی جانب سے 5 ہزار 200 فوجیوں کے انخلا کے حوالے سے مشاورت کے لیے کیے گئے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ وہ گفتگو کے لیے تیار ہیں، لیکن فوجیوں کو منتقل نہیں کیا جائے گا۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان مورگن اورٹگس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ "اس وقت جو وفد عراق بھیجا جائے گا، اس کا عزم ہوگا کہ ہماری اسٹریٹجک شراکت داری کو کیسے بہتر بنایا جائے، نہ کہ فوجیوں کی دستبرداری کے لیے جائے گا، بلکہ ہماری ترجیح مشرق وسطیٰ میں مناسب فورس کی تعیناتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فورس بہتری کے لیے ہوگی، کیونکہ ہم بطور دوست، شراکت دار عراق کو ایک آزاد، خوش حال اور مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔" اس بیان کے بعد امریکی عزائم کا اندازہ ہوتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ڈیووس میں ایک عالمی اقتصادی کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور عراقی صدر کی سائیڈ لائن ملاقات بھی ہوئی، جسے عراقی پارلیمانی نمائندگان نے پسند نہیں کیا۔

عراق کے معروف شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی اپیل پر جمعہ کو بغداد میں لاکھوں عراقیوں نے امریکہ مخالف مظاہرہ کیا، مظاہرین نے ایسے کتبے اٹھائے ہوئے تھے، جن پر امریکی فوجی انخلا کے مطالبات درج تھے۔ ابلاغ کے آزاد ذرائع نے بغداد کی سڑکوں پر جمع ہونے والے افراد کے اجتماع کو ملین مارچ کہا ہے۔ یہ امر اب آشکار ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو نشانہ بنانے کے بعد ایران و عراق میں ایک نئی اور توانا امریکہ مخالف لہر نے کروٹ لی ہے۔ ایران نے تو عراق میں امریکہ کے دو فوجی اڈوں عین الاسد اور اریبل پر اپنے جنرل کے انتقام  کے لیے میزائل داغے اور دعویٰ کیا تھا کہ ایرانی میزائل حملوں میں 80 سے زائد امریکی ہلاک ہوگئے جبکہ امریکہ نے سب کچھ ٹھیک ہے، کہہ کر خاموشی اختیار کر لی تھی، مگر اب امریکہ کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے کہ ایرانی میزائل حملوں میں 34 امریکی فوجیوں کو شدید دماغی چوٹیں آئی ہیں اور ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔

اس وقت عراق میں امریکی فوجیوں پر دبائو پر، امریکی فوجی نام نہاد دہشت گرد تنظیم داعش کے خلاف اپنے اتحادیوں کے ساتھ لڑنے آئے تھے، اس مقصد میں امریکہ نے کہاں تک کامیابی حاصل کی؟ یہ الگ سے ایک داستان ہے کہ امریکہ داعش کی مدد بھی کرتا تھا اور اس کو نشانہ بھی بناتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا جمعہ کو ہونے والے امریکہ مخالف ملین مارچ کے بعد امریکہ اپنے فوجیوں کو عراق سے نکال لے جائے گا؟ میری دانست میں ایسا نہیں ہوگا بلکہ امریکہ اپنے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق کو کسی نئے مسئلے میں الجھا دے گا۔ اس حوالے سے کرد قبائل اور پارلیمان کے سنی نمائندگان سے ملاقاتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اگر امریکی اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم خطے میں طویل امریکی موجودگی اور خطے کی تباہ کن تصویر کا تصور کرسکتے ہیں۔

ملین مارچ کے بعد عالمی قوانین کے تحت امریکہ کو اپنے فوجیوں کو واپس بلا لینا چاہیئے، لیکن امریکی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس کے نزدیک قانون صرف وہی قابل قبول ہے، جو امریکی مفادات کا تحفظ کرے۔ امریکہ طاقت کی زبان میں بات کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے انتہا پسندانہ مزاج کے مفتی دلائل کے بجائے فتویٰ کی زبان میں بات کرتے ہیں، تاکہ مکالمہ کے بجائے خوف کو رواج دیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ بتدریج عراق سے نکل جانے کا معاہدہ کرے اور پھر اس معاہدے سے مکر جائے۔ لیکن عراقی عوام اب آرام سے نہیں بیٹھیں گے، شاید ہر جمعہ کو امریکہ مخالف مظاہرے ہوتے رہیں، مگر اس کا کیا ہوگا، جو ساتھ ساتھ حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں؟ عراق اس وقت عسکری، سماجی اور سیاسی و معاشی حوالے سے سخت عدم استحکام کا شکار ہے۔ عراق کو استحکام اور آزادی کی ضرورت ہے، جو عراقی عوام کا حق ہے۔ لیکن عراق کے نصیب میں مزید جنگ اور پراکسی کے حربے باقی ہیں، جو عراقی سماج کو مزید خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 840813
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش