0
Sunday 26 Jan 2020 21:29

عراق کا دوسرا انقلاب

عراق کا دوسرا انقلاب
تحریر: امیر مسروری

ثورۃ العشرین (20 کی انقلابی تحریک) اسکوائر ایسا نام ہے جو آپ کو عراق کے تقریباً ہر شہر میں دکھائی دے گا۔ یہ نام اس عظیم انقلابی اور جہادی تحریک کی یاد میں مختلف شہروں کے اسکوائرز کو دیا گیا ہے جو 1920ء میں برطانوی استعمار کے خلاف آغاز ہوئی تھی۔ یوں عراقی عوام اس جہادی تحریک کو اپنے تشخص کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ نام دو لحاظ سے دلچسپی کا مرکز ہے۔ ایک تو یہ کہ اس عظیم جہادی تحریک کی قیادت اعلی درجہ کے فقیہہ اور مجتہد آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کے ہاتھ میں تھی اور دوسرا یہ کہ ہر سال چہلم امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے نجف سے کربلا کی جانب واک کا آغاز ثورۃ العشرین اسکوائر سے ہوتا ہے۔ موسم گرما 1920ء میں عراق پر برطانوی استعمار کو تین برس گزر جانے کے بعد آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی نے برطانیہ کے خلاف جہاد کا فتوی دے دیا جس کے نتیجے میں عوام کی کثیر تعداد مسلح ہو کر سڑکوں پر نکل آئی اور برطانوی فورسز کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اب سو سال بعد 2020ء میں عراقی عوام ایک بار پھر سڑکوں پر نکلے ہیں لیکن اس بار ان کا مقصد امریکی استعمار کو ملک سے نکال باہر کرنا ہے۔

امریکہ نے 2003ء سے اعلانیہ طور پر عراق پر فوجی قبضہ کیا اور اس کے بعد اب تک اس ملک کو لوٹے جا رہا ہے۔ عراق میں فوجی موجودگی سے لے کر اب تک امریکہ عراق کی خام تیل کی پیداوار کا تیسرا حصہ غصب کرتا آیا ہے۔ دوسری طرف اقتصادی شعبے میں تمام امور پر کنٹرول حاصل کر کے تیل سے مالا مال اس عرب ملک کو غریب افریقی ممالک جیسا بنا دیا ہے۔ جمعہ 24 جنوری کے دن ملک بھر میں امریکہ مخالف ملین مارچ انجام پایا ہے جس نے نئی صدی میں ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک درخشاں صفحہ رقم کر ڈالا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملین مارچ کی اہمیت کس حد تک ہے؟ پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ ملین مارچ 2003ء کے بعد قومی اور ملکی سطح پر تمام سیاسی گروہوں اور دھڑوں کی جانب سے پہلا متفقہ اور اتحاد پر مبنی مظاہرہ ہے۔ اس سے پہلے عراق کے مختلف سیاسی دھڑوں میں اختلافات پائے جاتے تھے اور وہ کسی ایشو پر متفقہ موقف اختیار کرنے سے قاصر رہے تھے۔ نئی صدی کے آغاز میں عراق کے تمام سیاسی اور عوامی حلقوں نے مل کر ایک مطالبہ پیش کیا جو "ملک سے امریکی انخلاء" پر مبنی تھا۔

دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ عظیم ملین مارچ اس نئی سماجی تحریک کا نقطہ اختتام نہیں بلکہ نقطہ آغاز ہے۔ مستقبل قریب میں ایسے ہی امریکہ مخالف ملین مارچ بصرہ سمیت عراق کے دیگر شہروں میں بھی دہرائے جائیں گے۔ اسی طرح ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس ملین مارچ میں بڑی تعداد میں خواتین نے بھی شرکت کی ہے جو عراق کے سیاسی ایشوز میں خواتین کی پہلی موجودگی قرار دی جا رہی ہے۔ عراق کے مختلف سیاسی گروہوں جیسے مقتدی صدر کی پارٹی، مختلف عیسائی پارٹیوں اور حتی عوامی رضاکار اسلامی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے کمانڈرز نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک سے آخری امریکی فوجی کے انخلا تک احتجاجی مظاہرے جاری رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عراق میں امریکی موجودگی کے خلاف رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے اور اگر اب بھی امریکی حکام اس ملک میں فوجی موجودگی پر اصرار کرتے ہیں تو انہیں اس کا بھاری تاوان ادا کرنا پڑے گا۔

عراق میں امریکہ کے خلاف ملین مارچ سے متعلق ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس عظیم عوامی اجتماع میں حتی ایک نعرہ ایسا سنائی نہیں دیا جو داخلہ سیاست سے متعلق ہو اور کسی حریف سیاسی جماعت کے خلاف لگایا گیا ہو۔ یہ درحقیقت وہی صورتحال ہے جس کی آرزو شہید ابو مہدی المہندس اور شہید قاسم سلیمانی کو تھی اور وہ عراقی قوم کو اسی بہترین نقطے تک پہنچانا چاہتے تھے جہاں وہ آپس کے اختلافات بھول کر دشمن کے مقابلے میں صف واحد بن جائیں۔ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور اس کی پٹھو طاقتیں گذشتہ ایک عرصے سے عراق میں قومی اور مذہبی تعصبات اور اختلافات کو ہوا دینے کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو امریکہ، اسرائیل اور خطے میں ان کی پٹھو حکومتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان شیطانی قوتوں نے پورے خطے میں مذہبی منافرت اور جنگ پیدا کرنے کیلئے 2014ء میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی بنیاد رکھی تھی اور اب وہ اپنی تمام تر محنتوں اور اخراجات پر پانی پھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمعہ 24 جنوری کا امریکہ مخالف ملین مارچ دو اہم پیغام لئے ہوئے تھا۔ ایک ملک سے امریکہ کا فوجی انخلا اور دوسرا اپنی پارلیمنٹ کے صحیح فیصلے کی پشت پناہی اور تائید۔
 
خبر کا کوڈ : 840849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش